از:الطاف حسین جنجوعہ
جموں وکشمیر کے سرحدی خطہ جوپیر پنجال کے نام سے مشہور ہے، میںعظیم روحانی شخصیت باباغلام شاہ بادشاہ ؒسے منسوب راجوری یونیورسٹی کے قیام کو 2دہائیاں ہوچکی ہیں، اِس دوران ادارے نے کافی ترقی کی منازل کو طے کیا ہے لیکن جس خطہ میں یہ ادارہ قائم ہے، کے عوامی جذبات ومطالبہ کو مد نظر رکھتے ہوئے گذشتہ دنوں یونیورسٹی نے ایک اہم فیصلہ لیتے ہوئے دو بڑی علاقائی زبانوں پہاڑی اور گوجری میں پی جی کورس متعارف کرنے کا اعلان کیا۔ اِس فیصلے کی سرحدی اضلاع پونچھ راجوری کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کے اطراف واکناف میں رہائش پذیر گوجری اور پہاڑی بولنے والوں نے سراہنا کی ہے تاہم وہ تذبذب کا شکار ہیں کہ گوجری اور پہاڑی جوکہ دو الگ الگ زبانیں ہیں، میں مشترکہ پی جی کورس کا تصور کیسے قابل ِ عمل اور قبول ہوگا جبکہ ایسی کوئی مثال دوسری جگہ نہیں ملتی جہاں دونوں مختلف زبانوں کو ایکساتھ ملا کر کوئی کورس شروع کیاگیا ہو۔ اِس پر دونوں زبانوں کے دانشوروں، ماہر لسانیات نے اپنے حدشات وتحفظات کا اظہار کیا ہے اور متعلقین کی نوٹس میں بھی اِنہیں لایا ہے، یقینی طور یونیورسٹی انتظامیہ اِس فیصلے پر عمل درآمد کرنے سے قبل نظرثانی بھی کر کے کوئی قابل ِ قبول حل نکالے گی۔
۔بیر کیف پہاڑی اور گوجری زبانوں کی ترویج وترقی کے حوالے سے باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کا یہ فیصلہ تاریخی نوعیت کا ہے اور جس خطہ میں یہ ادارہ قائم ہے ، اُس کی مناسبت سے پہلا ایسا فیصلہ لیاگیاہے۔ کسی بھی جگہ کوئی یونیورسٹی یا ادارہ قائم ہوتا ہے تو وہاں پر یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ مقامی تہذیب وتمدن، کلچر، جغرافیائی اور تاریخ متعلق اِس ادارے کے پاس مکمل جانکار ی ہو۔ مگر باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کو اِس لحاظ سے ابھی کافی کچھ کرنا باقی ہے۔جس عظیم روحانی شخصیت کے نام اِس ادارے کا قیام عمل میں لایاگیا ہے،اُن کی وہاں چیئرکا قیام،سیمینار ،کانفرنسوں وغیرہ کے انعقاد کے ساتھ ساتھ ریسرچ کرانا حل طلب معاملات ہیں تاکہ آپ اگر اِس ادارے میں داخل ہوں تو آپ کو خطہ کے کلچر کی جھلک ملے۔ اُس کے تاریخی، ادبی، لسانی، ثقافتی، سیاسی، سماجی پہلو متعلق ایک نقشہ آپ کے ذہن میں کھِچ جائے، جیسے کشمیر یونیورسٹی، جموں یونیورسٹی اور ملک کی د یگر یونیورسٹیوں میں ہے۔کشمیر یونی ورسٹی میں شیخ العالم چیئر ہے۔ ڈاکٹر علامہ اقبال پر ریسرچ سینٹر ہے، علاوہ ازیں یونیورسٹی کے مختلف داخلہ گیٹس کے الگ الگ شخصیات کے نام سے منسوب ہیں۔ اسی طرح جموں یونیورسٹی میں گورو نانک سنگھ کی چیئرہے۔ بریگیڈئر راجندر سنگھ آڈیٹوریم ہے۔ ماتا ویشنو دیوی یونیورسٹی میں آپ چلے جائیں تو وہاں بھی آپ کو مکمل طور ماتا ویشنو دیوی متعلق جانکاری ملے گی۔
سرحدی اضلاع راجوری اور پونچھ جنہیں عرف عام میں خطہ پیر پنجال کہاجاتا ہے ، میں کئی ایسے موضوعات ہیں جوتحقیق طلب ہیں اور اِن پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کروائی جاسکتی ہے۔مثلاً سال 1947,1965کی جنگ کا پونچھ راجوری اضلاع کی سیاست، سماجیات اور اقتصادیات پر اثر، پونچھ راولاکوٹ راہداری، سیاحتی مقامات، خطہ پیر پنجال کی حیاتات ونباتات، خطہ میں کون کون سی معدنیات، جڑی بوٹیاں ہیں۔ خطہ میں نجی سطح پر روزگار کے مواقعے پیدا کرنے کے لئے کون کون سے اقدامات اُٹھائے جاسکتے ہیں، امکانات کیا کیاہیں، جغرافیائی خصوصیات وغیرہ وغیرہ۔ جغرافیائی، بوٹنی، تاریخ، سیاسات میں کئی اہم موضوعات ہیں جن پر تحقیق ہوسکتی ہے۔ اس سے یہ فائیدہ ہوگا کہ باہر سے کوئی بھی اگر یہاں آئے تو یہ ادارہ خطہ کی اقتصادی، سیاسی، سماجی، ادبی جانکاری کا ایک مرکز ثابت ہو۔ خطہ پیر پنجال کی سیاست، سماجیات، اقتصادیات، جغرافیہ اور تاریخ متعلق کوئی تحقیق کرنا چاہئے یا لکھنا چاہئے تو اُس کو یونیورسٹی راجوری کی بدولت مستند مواد دستیاب ہو۔
ادارے میں آج تک سینکڑوں بین الاقوامی اور قومی سطح کے سیمینار، کانفرنسیں اور مباحثے ہوئے ہیں ، جن میں عالمی وملکی سطح کی اہمیت کے حامل معاملات موضو ع رہے لیکن اُس سے مقامی دانشور طبقہ، طلبا اِس ادارے کے ساتھ اُتنے جڑ نہیں سکے۔ باباغلام شاہ بادشاہ ؒؒ جس عظیم روحانی شخصیت کے نام سے ادارہ قائم ہے ،پر آج تک ایک بھی ریسرچ نہ کی گئی۔ ہاں انفرادی طورکچھ لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں لیکن ادارہ اِس بارے خاموش ہے۔یہاں پر پیر پنجال ریسرچ انسٹی چیوٹ نام کا بھی مرکز بھی ہوسکتا ہے جس میں خطہ کی سیاسی، سماجی، ادبی، علمی شخصیات ۔ ماضی حال اور مستقبل پر بات ہو۔خطہ پیر پنجال میں گوجر اینڈ بکروال اور پہاڑی قبائل کے لوگ آباد ہیں جن کی مخصوص لسانی، ادبی، ثقافتی شناخت ہے، کی جھلک بھی اِس ادارے میں ہونی چاہئے تاکہ ملک کی دیگر یونیورسٹی یا غیر ملکی اداروں سے یہاں کوئی آئے تو اُس کو خطہ کے کلچر کی بھی جانکاری مل سکے۔اس طرح کے موضوعات کی وجہ سے یہ ادارہ مقامی طلبا کوجو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، کی دلچسپی کا مرکز بن سکتا ہے۔
اِس نکتے پر غوروفکر کی ضرورت ہے کہ یہ یونیورسٹی اضلاع پونچھ اور راجوری کے طلبا کی پہلی پسند اور ترجیحی نہیں بن سکی۔ یہاں سے طلبا جموں یونیورسٹی، کشمیر یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، اسلامیہ یونی ورسٹی نئی دہلی، جے این یو، بنارس یونیورسٹی، امبیڈکر یونیورسٹی، حیدر آباد یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی کے علاوہ دیگر ریاستوں میں قائم اداروں میں جاتے ہیں، مگر آپ کو مذکورہ یونیورسٹیوں میں راجوری پونچھ کے طلبا کی اچھی خاصی تعداد ملے گی۔ اگر وہ جوچاہتے ہیں وہ باباغلا م شاہ بادشاہ یونیورسٹی میں ملے تو وہ کسی بھی صورت میں ہزاروں کلومیٹر دور نہیں جانا چاہیں گے کیونکہ جتنا صاف وشفاف ،پرسکون ماحول یہاں ہے وہ کہیں اور دستیاب نہیں ہوسکتا۔
عوامی حلقوں میں یہ تاثر بھی اِ س ادارے سے متعلق ہے کہ یہاں پر اپنے مزاج کے مطابق قواعد وضوابط بنتے ہیں۔داخلہ، ہوسٹل، امتحان، پی ایچ ڈی میں داخلہ عمل کے دوران کیا کیاتجارت ہوتی ہے، اللہ معاف کرے، اُس پر پردہ ہی رہے تو بہتر۔ عوامی حلقوں کا ماننا ہے کہ اِس بزرگ روحانی شخصیت سے منسوب ادارے میں رہ کر اپنے منصب سے خیانت کرنے والوں کو دیر سویر قیمت چکانی بھی پڑے گی اور بہت ساروں کو چکانی بھی پڑی ہے ۔ یہاں پر شخص یا شخصیات کی ترقی نہ ہوبلکہ ادارے کی مجموعی ترقی ہونی چاہئے۔ یہ چند لوگوں کے لئے باز آبادکاری مرکز ثابت نہ ہو۔ خطہ پیر پنجال کو علم وادب، تحقیق میں اِس ادارے کا فائیدہ کتنا ہوا، یہ اہمیت کا حامل ہے۔وگر نہ ایسٹ انڈیا کمپنی بھی تومنافع بخش اور مشہور ہوئی تھی ۔ اِس خطہ میں ادارے قائم ہے تو اِس کا فائیدہ بھی یہاں ہونا چاہئے۔ نہ کہ یہ صرف ایک انڈسٹری یونٹ کی طرح ہو جہاں پڑھنے والے بھی زیادہ باہر سے اور پڑھانے والے بھی باہر سے ۔طلبا، عملہ،موضوعات سب کچھ’امپورٹیڈ ہونے کے بجائے ’Vocal for local‘پر بھی توجہ دی جانی چاہئے۔
صوفی ازم اور تصوف ایک بہت بڑا سبجیکٹ ہے۔چونکہ یہ یونیورسٹی ایک ایسے ولی اللہ کے نام سے منسوب ہے، جن کے ہاں روزانہ ہزاروں عقیدتمند بلالحاظ مذہب وملت فیض پانے آتے ہیں۔اس لئے اِس ادارے میں ’صوفی ازم‘پر باقاعدہ ایک شعبہ یہاں قائم ہوسکتا ہے جس میںریسرچ ہو اور جموں وکشمیر بھر کے اولیاءکرام اور بزرگان ِ دین کی حیات وخدمات پر تحقیق ہو تاکہ اُن کے چاہنے والے مستفید ہوسکیں۔پہاڑی اور گوجری موسیقی بھی منفرد ہے، اِس کی ترقی کے لئے بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اُمید ہے کہ موجودہ وائس چانسلر کی قیادت میں یونیورسٹی انتظامیہ اِن سبھی معاملات پر غور کرے گی ۔جموں وکشمیر بالعموم اور بالخصوص خطہ پیر پنجال وہ موضوعات جن پر کسی دوسری یونیورسٹی میں کام نہیں ہوا، اگر اُن کو راجوری یونی ورسٹی اِن کو تحقیق وتدریس کا موضوع بنائے گی تو یقینی طور اِس کا بہت فائیدہ ہوگا۔