پچھلے سال ۱۲ جون ۲۰۲۱ء کی تاریخ کشمیر کے ضلع بڈگام کے تحصیل خانصاحب رائیار کے علاقے میں محکمہ بجلی کی لاپرواہی کے سبب ایک دلخراش واقعہ پیش آیا تھا۔ ایک گھر کے تین افراد کھیت میں دھان کی پنیری لگا رہے تھے اسی اثناء میں سترہ سالہ نوجوان بارہویں جماعت کا طالب علم شیراز جہانگیر بجلی کی ترسیلی لائن کی زد میں آجاتا ہے اور ساتھ ہی یہ منظر دیکھ کر شیراز کے چچا اور اس کے دادا اس کی جان بچانے کی چکر میں بجلی کرنٹ لگنے سے جھلس جاتے ہیں اور نوجوان شیراز اپنی جان کھو بیٹھتا ہے۔ اہل خانہ کے دو فرد شدید طور زخمی ہوتے ہیں۔ اسی دوران مہلوک نوجوان کے دادا اور چچا ہسپتال میں علاج و معالجہ کے لئے داخل کئے جاتے ہیں جہاں وہ دونوں چوبیس گھنٹے موت و حیات کی کشمکش میں رہتے ہیں۔نوجوان شیراز نہ صرف اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا تھا بلکہ پورے کنبہ کے لئے آخری امید تھی کیونکہ پورے کنبہ میں شیراز واحد فرد تھا جو پڑھا لکھا ہو کر پورے کنبہ کی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہوکر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔پورے اہل خانہ جس صدمے سے دوچار ہوئی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ محکمہ کی لاپرواہی نے پورے کنبہ جس میں اٹھارہ ممبرز ہیں مصیبت کا پہاڑ توڑ دیا جس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ اس حادثہ کے فورا بعد محکمہ کے آفیسرز نے مگر مچھ کے آنسوں بہائے تھے لیکن اس کے بعد مہلوک نوجوان کے افراد خانہ کو اللہ کے رحم کرم پر چھوڑا جو ہمارے نظام کا حصہ ہے۔مرحوم نوجوان کی موت کے بعد اس کے امتحانی نتائج سامنے آتا ہے جسمیں وہ اسی فیصدی نمبرات حاصل کرتا ہے اور محکمہ بجلی کے اعلی حکام مرحوم کے بے بس باپ کو سرکاری دفتروں کے چکر لگانے میںمشغول رکھتی ہے جہاں وہ ایک سال کی مدت گزرنے کے باوجود بھی خالی ہاتھ منتطر ہے کہ کب ہماری بے بسی محکمہ کے لوگوں کو نظر آجائے اور وہ رحم و کرم کی درخواست کو قبول فرمایں۔مرحوم نوجوان شیراز کے دادا اور چچا جو کہ بجلی کی کرنٹ لگنے سے جھلس گئے تھے ابھی بھی ذہنی و جسمانی مریض کے ساتھ دل کے مریض بن گئے ہیں جہاں ان کے ادویات کے خرچے میں کافی ذیادہ رقومات خرچ ہو رہیے ہیں۔دراصل ہمارے یہیاں ستم ظریفی یہ ہے کہ یہیاں انسانی زندگیاں ہمارے اعلی حکام کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ کسی کا خاندان اجڑ جائے،کسی کاسہاگ اجڑ جائے ،کسی کا اکلوتا مر جائے کوئی عمر بھر معذور ہو جائے ،یہ سب باتیں ہمارے نظام چلانے والوں کے لئے نئی بات نہیں۔عوام اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لئے افسر شاہی کے نظام کے سامنے بے بس اور لاچار ہو چکی ہیں۔ جو وادی کشمیر کے عوام کی خوشحالی کے حق میں نعرہ لگا رہیے ہیں وہ صرف اپنی من مانیوں میں مگن ہے جہاںایک عام انسان کواپنے حقوق کے تعی جان کی بازی لگانی پڑتی۔نوجوان کی موت کا سبب محکمہ کی لاپرواہی ہے جو کہ خود محکمہ کے موقعہ پر پائے گئے نشانات کے دستاویزات میں درج ہے۔اس کے باوجود محکمہ نے ابھی تک لواحقین کو بے بسی اور کسمپرسی کی حالت میں پا کر بھی اہل خانہ کے ساتھ انصاف سے کام نہیں لیا۔حالانکہ اب تک تحقیقات کے نام پر اہل خانہ کوکافی ذیادہ دفتروں کے چکر لگانے پڑے جو بے سود ثابت ہو رہیے ہیں۔
آزادی کے 70 سال گزرنے کے باوجود بھی مہلوک نوجوان شیراز کے گاوئں رائیار میں HTکی لائن ان ہی سیمنٹ کھمبوں سے گزرتی تھی اور LT کے لئے وہی لکڑی کے کھمبے استمعال میں لائے گئے تھے جن کے تبدیلی اور مرمت کے لئے بار ہا متعلقہ محکمہ کو لکھا گیا تھا لیکن کوئی سننے کو تیار نہیں تھا۔ہر روز مذکورہ بجلی کی ترسیلی لائن کے لوگوں کے کانوں میں کوے اور چیلوں کے بجلی کی کرنٹ لگنے کی وجہ سے موت کے رقص کی آوازیں ضرب المثل بن چکی تھی جہاںکوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔پورے علاقے کے لاڈلے کی جانب سے قربانی نے محکمہ بجلی کے توجہ اپنی جانب مبذول کرا کے پورے گاوئں میں بجلی کی ترسیلی لائنوں کو درست کرایا۔شیراز کے موت نے نہ صرف افراد خانہ کی کمر توڑی بلکہ پورے علاقے کے لوگوں کو شدید غم و غصے کی لہر میں ڈبو دیا،کیونکہ باپ کی پوری عمر بھر کی کمائی کا ثمر کسی کی لاپرواہی سے ضایع ہوگئی۔ایک سال کی مدت کے بعد بھی نہ محکمہ کے لوگوں کو اس بات کی طرف توجہ دی کہ آخر ہمارے ہاتھوں کسی کی آخری امید لٹ گئی اور اہل خانہ کو معقول معاوضہ فراہم کیا جائے ۔ستم ظریفی سے محکمہ نے کاغذات اور دفتروں کے چکر کے نام پر اہل خانہ کو ہزاروں روپیے خرچ کرائے لیکن محکمہ نے نہ معاوضہ دیا اور نہ ہی زخمیوں کے علاج و معالجہ کے لئے کوئی رقم واگزار کی۔اہل خانہ متعلقہ حکام سے انصاف کی عرضداشت پیش کرتی ہے کہ اگر واقعی آپ کے ایوانوں میں انصاف کی فضا ابھی بھی قائم ہے تو ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے اور ان محکمہ کے ملازمین کے خلاف کڑی سے کڑی کاروائی عمل میں لائی جائے جن کی غفلت شعاری کی وجہ سے یہ دلدوز حادثہ پیش آیاتھا۔اگرچہ اہل خانہ گورنر کے دفتر تک شکایت درج کی تھی لیکن اس سلسلے میں ابھی تک کوئی بھی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی جس کے اہل خانہ کو تسلی مل سکے۔
