مہک اٹھی ہے فضا پیرہن کی خوشبو سے
چمن دلوں کا کھلانے کو عید آئی ہے (محمد اسد اللہ)
بہت سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک انتخاب کیا۔ اسے اپنے بیٹے سے پیار تھا۔ لیکن وہ اللہ سے زیادہ محبت کرتا تھا۔ اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم آیا۔ لیکن یہ اس کا بیٹا نہیں تھا جسے ذبح کیا گیا تھا ۔ یہ اس کی ہر چیز سے لگاؤ تھا جو اللہ تعالیٰ سے اس کی محبت کا مقابلہ کر سکتی تھی۔ اور ایسی قربانی کی خوبصورتی یہ ہے: ایک بار جب آپ اپنا لگاؤ چھوڑ دیتے ہیں، جو آپ کو پسند ہے وہ اب آپ کو خالص، بہتر شکل میں واپس کر دیا جاتا ہے۔ تو آئیے قربانی کے ان حسین دنوں میں اپنے آپ سے پوچھیں کہ ہمیں کس جذبے کو ذبح کرنے کی ضرورت ہے؟
دینِ حنیف میی قربانی کرنے کے لواظمات اصول و قواعد و اس کا شرعی حکم اُمالکتاب قرآن مجید کے بہ شمول احادیث کی مستند کتابوں میی حضرت ابراہیمٕ کے تواست سے وارد ہے حضرت ابراہیم اولوالعزم انبیاء کراموں میں سے ہیں یعنی "صاحبانِ عزم ” یوں تو سارے انبیاء کرام عزیم ہے پر بعض کو بعض پر فوقیت حاصل ہے اولو العزم رسول پانچ ہیں وہ یہ ہیں۔
1: حضرت نوح علیہ السلام
2: حضرت ابراہیم علیہ السلام
3: حضرت موسی علیہ السلام
4: حضرت عیسی علیہ السلام
5: حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔۔ بحوالہ تفسیرطبری ج 11 ص 303 ، الحدیث : 31329 (در منثور ج 7 ص 454 ) (بہار شریعت ج 1 ص 54)
اسلام کے اہم ارکان میں سے ایک حج، یومِ عرفہہ، عیدالاضحیٰ، قربانی، ایام خاص وغیرہ حضرت ابراہیمؑ کے تواست سے اللہ کے فضل سے ہمیں نصیب ہوئی ہے، قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔ حضرت ابراہیمؑ کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی آزمائشوں سے آزمایا اور آپ نے ہر آزمائش میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا. آپ بزرگی کی حالت میں صالح اولاد کی تمنا میں عاجزی و انکساری سے دُعائیں کیا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی دُعاء کو قبولیت بخشی اور آپ کو اسماعیلؑ کی صورت میں اولادِ صالح عطا کیا، اگر ہم غور و فکر کریں تو یہاں پر بھی بنی آدم کے لئے ایک درس اللہ تعلیٰ کو دوسری حکمتوں کے ساتھ دینا مقصود تھا مثلاً سماج میں ایسے بہت سارے شادی شدہ جوڈے ہے جو اولاد کی نعمت سے محروم ہے، روایات میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی عمر 86 سال کے قریب تھی اور حضرت ہاجرہ بھی عمر رسیدہ تھی پر جب حضرت ابراہیم نے اللہ کے دربار میں عاجزی و انکساری سے دُعاء مانگی تو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اولاد صالح سے نوازا صرف حضرت ابراہیمؑ نہیں آپ کو تواریخ کی مستند کتابوں میں بہت سارے ایسے واقعات مل جائینگے جن میں حضرت زکریا کا واقعہ میں موقع و محل کے حساب سے کرنا چاہوں گا حضرت زکریاؑ کی زوجہ جن کا نام ایشاع تھا وہ بانجھ تھی اور زندگی کے آخری پڈھاو میں تھی یعنی دونوں بوڑھے ہو چُکے تھے اور ظاہراً اس عُمر میں اولاد ہونے کے امکانات بھی ختم ہو چُکے تھے، لیکن جب حضرت زکریاؑ نے حضرت بی بی مریمؑ کے پاس بے موسمی نہایت اعلیٰ قسم کے پھل دیکھے، تو آپؑ کے ذہن میں خیال آیا کہ جب میرا ربّ بے موقع پھل عطا کر سکتا ہے، تو اس کے لیے اولاد دینا کیا مشکل ہے۔
اولاد کی خواہش نے حضرت زکریاؑ کے اندر اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ اُٹھا کر دُعاء مانگنے کی ہمّت پیدا کر دی اور پھر بے اختیار اُن کے لبوں پر یہ دُعا آ گئی’’اے میرے پروردگار! مجھے اپنی جانب سے اولادِ صالح عطا فرما۔ تُو بے شک دُعا سُننے (اور قبول کرنے) والا ہے‘‘(سورۂ آلِ عمران38)۔اللہ ربّ العزّت نے اپنے محبوب نبیؑ کی اس دُعا کو قبول فرمایا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ فوری جاو اور میرے نیک بندے زکریاؑ کو بیٹے کی بشارت دے دو۔ ارشادِ باری ہے’’ابھی وہ عبادت گاہ میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ فرشتوں نے آواز دی کہ’’ (زکریاؑ) اللہ تمہیں یحییٰ ؑ کی بشارت دیتا ہے۔ جو اللہ کے فیض (یعنی عیسیٰؑ ؑ) کی تصدیق کریں گے اور سردار ہوں گے اور عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے ہوں گے اور (اللہ) کے پیغمبر(یعنی) نیکوں کاروں میں ہوں گے۔‘‘
جن کو اولاد نہیں وہ اس نعمت سے محرومی کا درد ہر دن برداشت کرتے ہے مگر اُنہیں اُمید کا دامن نہیں چھوڑ دینا چاہیے اللہ کے دربار میں دُعاوں کا اہتمام کیا کریں وہ آپ کی دُعاء ضرور قبول کرینگے بس نا اُمید نا ہو جاے نا امیدی کفر ہے دانہ خاک میں مل کر اللہ کے حُکم سے ہی گلو گلزار ہوتا ہے اپنے سارے مصاٸب اللہ تعلیٰ کے سپرد کرے اور جن کو اللہ نے اس نعمت سے سرفراز کیا ہے وہ اپنی اولاد کی صحیح تربیعت کریں کیونکہ ماں باپ اولاد کی اولین دانشگاہ ہوتے ہیں بچہ بلغویت کی عمر تک اپنے ماں باپ سے جو کچھ سیکھتے ہیں وہ ان کے کردار میں بھی نمایا نظر آتا ہے آپ جب خود صالح ہونگے تب ہی آپ کے بچے اولاد صالحین کی صفوں میں شامل ہونگے یہ قدرت کا قانون ہے شاخِ شخستہ سے کبھی ثمر پیدا نہیں ہوتے..
کتابِ زندگی قرانِ مجید کے مطابق قربانی کا مقصد اللہ تعالیٰ کے لیے مال و جان قربان کرنے کی راہ کو ہموار کرنا ہے اس میں گوشت کھانا مقصود نہیں اور نہ اس میں ریا کاری دکھاوا آئے اور نہ کوئی اور وسوسہ آنے پائے، یہ خاص اللہ کے لئے جان اور مال کو قربان کرنا ہے۔ اور رسول اللہ کو یہ حکم دیا گیا جو امت کے ایمان کا حصہ ہے کہ:
”آپ کہہ دیجئے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میرا مرنا اللہ کے لئے ہی ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے“
حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سورۃ الصّٰفّٰت کی آیات 100 تا 112 کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی صالح اولاد کی خواہش اور دعا کو اس رنگ میں قبول فرمایا کہ حضرت اسمٰعیلؑ جیسے صالح، صابر، حلیم، بردبار اور ہر آزمائش اور قربانی میں ثابت قدم رہنے والے بیٹے سے نوازا جس کے کردار کا ہر پہلو ہمیشہ کے لیے نمونہ بن گیا اور تربیتِ اولاد کے سنہرے اصول مرتب کر گیا۔
اسماعیلؑ گیارہ بارہ سال کے ہوگئے،ایک دن ان کے والد بزرگوار آ ے ،ان کو اپنے پاس بلایا،فرمایا: بیٹے ! میں کئی دنوں سے ایک خواب دیکھ رہا ہوں ، ابو جان ! خواب میں کیا دیکھ رہے ہیں ؟ دیکھ رہا ہوں کہ میں تجھ کو راہ خدا میں ذبح کر رہا ہوں ،اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ سعادت مند بیٹے نے فوراً جواب دیا: اے ابو جان ! آ پ کو جو حکم دیا جارہا ہے کر گزریئے ،ان شاءاللہ آ پ ہم کو صابر پائیں گے،، فرماں بردار بیٹے نے مزید مشورہ دیتے ہوئے کہا : ابو جان ! جب آ پ مجھے ذبح کرنے لگیں تو آ نکھوں میں پٹی باندھ لیجئے گا،مبادا آ پ کو میری صورت دیکھ کر رحم نہ آ جائے ،ہاتھوں اور پیروں میں رسی باندھ دیجئے گا ،چھری تیز کرلیجئے گا تاکہ حکم الٰہی میں تاخیر نہ ہو
اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے چاہنے والوں کو ہمیشہ ہدایت اور برکت عطا فرمائے۔ جب ہم خوشی کے موقع پر جمع ہوتے ہیں تو ایک سونچ جوڈ دینی چاہیے اور اُن لوگوں کے لیے بھی دعا کرنی چاہیے جو دنیا بھر میں انتشار اور آفت کا سامنا کر رہے ہیں اُن ضرورت مندوں تک بھی پہنچیں جو آپ کے منتظر ہے . اِس عید پر لوگوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اچھا سلوک کرنے کی کوشش کریں اللہ آپ کے ساتھ بھی زیادہ مہربانی کے معاملے فرماینگے۔ اللہ کرے یہ عید پوری انسانیت کے لیے خیر و برکت لے کر آے تاکہ ہم امن و امان اور ہم آہنگی کے راستے پر چل سکے٠ اللہ اس موقع پر آپ کی زندگی خوشیوں سے , آپ کے دماغ کو حکمت سے، آپ کے دل کو محبت سے، آپ کی روح کو روحانیت سے سے بھر دے ، اس عید پر صرف جانور ہی قربان مت کریں اپنی ضد انا حسد اور بدگمانی کو بھی ترک کرنے کا عہد کریں٠ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے چاہنے والوں کو ہمیشہ ہدایت اور برکت عطا فرمائے۔ دل صاف کریی تاکہ قربانی کے فیض حصول ہو سکے۔
اس عید پر جب قربانی کے جانور کو اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر تکبیر پھیریں تو خدا کی رضا کے خاطر اپنے نفس پہ بھی تکبیر پھیریں ۔ اور قربانی کا گوشت ہر غریب ، مسکین ، فقیر، مستحق ، سفید پوش تک حسب استطاعت ضرور پہنچائیں تا کہ کوئی قربانی کے گوشت کی لذت سے محروم نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے چاہنے والوں کو ہمیشہ ہدایت اور برکت عطا فرمائے۔
قربانی کی کھالو کو دباغت کے بعد استعمال میں لایا جا سکتا ہے پر بہت سارے افراد ان کھالوں کو راہ عام پر پھینک دیتے ہیں جس سے ماہولیات پر منفی اثر پڈھ جاتا جاتا ہے اور آوارہ کتوں کی بھرمار سے لوگوں کو آوا جاہی میں بھی مشکلات درپیش آتی ہے انہیں یا تو دباغت کے بعد استعمال میں لاے یا انہیں موزوں جگہ پر دفنائے یاد رکھیں دوسروں کو تکلیف دیے کر آپ قربانی کے فیض حاصل نہیی کر سکتے۔ زبح کرتے وقت قربانی کے ویڈویز سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر اپلوڈ کرنا ایک غیر شرعی فعال ہے یاد رہے کہ دوسروں کے مزہبی جزبات کو زک پہنچا کر آپ دین حق کی صحیی ترجمانی پیش نہیی کر رہیے ہے۔
جو لوگ گزرتے ہیں مسلسل رہ دل سے
دن عید کا ان کو ہو مبارک تہ دل سے.