تاریخ کی رو سے یہ بات ثابت ہوئی ہے ۔ کہ دنیا کا کوئی بھی قابل ترین وکیل سچیے گواہ کو توڑ نہیں پاتاہے ۔ بشرطیہ کہ گواہ اپنے الفاظ پہ مطمئن ہو ۔ کہ اس نے جوکچھ دیکھا اور حقیقت میں سمجھاہو ، وہی گواہی پیش کر رہا ہے ۔ اسی بات کی انفرادی حثیت کو اگر ہم مجموعی طور پیش کر نے کی جسارت کریں ۔ تو یہ قوموں کے عروج و زوال سے منسو ب ہو سکتا ہے ۔ زوال یافتہ قو م کے افراد اعتراف کی صفت میں بہت کمزور ہوتے ہیں ۔ وہ عام طور پر اپنی غلطی کو حریف کے ظلم سے مشتہر کرتے ہیں ۔ اس قوم کی مثال ایک ایسے بیمار سے مشابہت رکھتی ہے ۔جو بیماری کے حالت میں نہ ڈاکٹر کی کوئی دوائی استعمال کرتا ہے ۔ اور ناہی کسی بات پر ہیز پہ آمادہ ہوتا ہے ۔ مگر درد کی حالت نا گفتہ بہ ہونے کی صورت میں معالج کی نکتہ چینی کرتا رہتا ہے ۔ جو کہ ہرلحاظ سے ایک غیر سنجیدہ عمل مانا جاتا ہے ۔ زندگی کبھی رعایتوں سے بسر نہیں ہو سکتی ۔اگر بسر ہو بھی پھر بھی اسکے دور رس نتیجے بہتر نہیں ہوتے ہیں ۔ قابل شخص یا قوم اپنے فن میں آج تک کبھی ناکام نہیں ہو ئی ہے ۔ یہ صرف کسی بھی مسلئہ کے لحاظ سے نا اہلیت ہو تی ہے جو رزلٹ کے اعتبار سے نفی ملتا ہے ۔ نا اہلیت کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اگر نجار اپنے کام کو چھوڑ کر گلکا ر کا ہنر قبول کرے ۔ پھر اس تعمیر کا ستیاناس ہو نا وقت ابتدا سے ہی طے ہے ۔ کسی بھی کام کو در دست لینے سے پہلے ۔ہر فرد کو اپنی اہلیت یا نا اہلیت سمجھنا ضرور بنتا ہے ۔ کہا جا تا ہے کہ سب سے بڑا بہارد وہ ہو تا ہے ۔ جو اپنی ذاتی کمزور یوں سے واقف ہو۔ دنیا کی بڑی جنگ انسان کے اندر ضمیر اور انا کی جنگ ہو تی ہے ۔ لہذا اپنی انا پہ قابض ہو نے والا عظیم فاتح کہلاتا ہے ۔ اپنی غلطیوں کو ماننا جھگڑے کا نصف حل ہو تا ہے ۔ پھر ان کی تصیح کرنے پہ کمر بستہ ہو نا انقلابی اقدام کہلاتا ہے ۔ چہ جا ئیکہ غلط قدم اٹھا کر ایک طویل مسافت طے کرنے کے بعد جب یہ پتہ چلے کہ راہی بٹھک چکا ہے ۔ اب اپنی حقیقی منزل تلاش کر نے کے بعد من گھڑت جواز پیش کرنا زہر کو زہر ہلاھل سے علاج کرنے کے مترادف ہو تا ہے ۔ آج کا دور رعایت کا دور نہیں بلکہ عمل اور مقابلے کا دور ہے ۔ اس دور میں تُکہ بندی اور چال بازی سے کام لینے سے بہتر ہے کہ گہری نیند میں چلا جائے ۔ جہاں بناسوچے سمجھے خوابوں کی دنیا میں ایک عظیم سلطنت قائم ہو تی ہے ۔ جس کا نہ کوئی حریف ہوتاہے ۔ نا ہی کوئی محنت و مشقت کی ضرورت پڑتی ہے ۔ تعبیر ملے یا ناملے تو بھی خوابوں کی تبدیلی یا تصحیح نہیں ہو تی ہے ۔ البتہ اگر حقیقیت کی دنیا میں کسی نظریہ سے انساں اپنے آپ کو منسلک کرتا ہے ۔ تو اس کو چاہیے کی سو بار اپنے وجود کے وکیل کو ضمیر کے گواہ کے سامنے کھڑا کر دے ۔ اور اسی عدالت سے یہ فیصلہ خود ہی اپنے آپ پہ صادر فرمائے ، کیا یہ فطرت کا بندہ کارِمذکورہ کے موافق ہے یا نہیں ۔ پھر اپنے شعور کو مطمئن کرے کہ میر ا ایک غلط قدم وقتی طور اپنے لئے نام ونمود کے لئے کسی حد تک بہتر ہو سکتا ہے ۔ مگر جو افراد اس سے مسنلک ہو جائیں گے ۔ ان کو کہیں شہد کے نام پہ زہر کھلاے جاتا ہے ۔ جہاں قوم کا اجتماعی قتل واقع ہو تا ہے۔ طاقت کے بارے میں یہ بات عیاں ہے کہ اس سے یاتو مقابلہ کیا جائے ورنہ اپنے آپ کو سپرد کیا جائے ۔ جیسے بھی امن کا نفاذ ممکن ہو ۔ مگر منافق کی زندگی میں ہمشہ یہی وطیرہ رہا ہے کہ اس کے خیر و شر سے ہمشہ دوسرا نا واقف رہتا ہے ۔ سانپ تو موزی جانور ہے ، یہ علم ہر کسی کو ودیعت ہے ۔ جہاں تک یہ بیابانوں اور جنگلوں میں موجود ہوتا ہے ۔ البتہ سانپ کا دھوکا تب قیامت لگتا ہے ۔ جب وہ اپنی کھیتی کے فصل میں اس گھاس کے رنگ کاہوتا ہے ۔ ظلم تب ہے جب گھر کے چوہے والے بل سے سانپ نمودار ہوگا۔ خیر جیسے ہر کالاکوٹ پہننے والا وکیل نہیں ہو سکتا ہے ۔ سفید گاون میں ملبوس ہر فر د ڈاکڑ نہیں ہو سکتا ۔ اگر لباس کی بنیاد پہ ان حضرات مذکورہ کا تعارف بھی ہو جائے ۔ مگر ہنر میں نہ پہلا و کالت کے اہل ہوگا۔ نہ دوسرا علاج کرنے لئے کار گر ثابت ہوگا۔ الغرض بین مضموں کا جو میرا تقاضا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کا جو عالمی اور قابل قبول نظر یہ ہے ۔ اس کو جمہوریت کہتے ہیں ۔ اور نظریہ پہ فائز افراد کو لیڈر کہا جاتا ہے ۔ لیڈر کا مقام قوم میں ایسا ہو تا ہے ۔ جیسے جسم میں سر کا ہے ۔ اسی وجہ سے لیڈر کو (سردار) بھی کہتے ہیں ۔ یہ مردم شماری میں قوم کے لئے فرد اول کہلایا جاتا ہے ۔ اس کی عقل کل قومی شعور کے مقابلے میں بھاری پڑتی ہے ۔ لیڈر کھبی مسخرہ ، غیر سنجیدہ ، ہلکا نہیں ہو سکتا ہے ۔ لیڈر کا ایک لمحہ تاریخ بن جاتا ہے ۔ مگر اس قوم کا کیا جسکے عوامی نمائدئے گاڑیوں کے القاب سے یا کپڑوں کے القاب سے جانے جاتے ہوں ۔
وائے ناکامی متاع کاروا ں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا