جموں میں آل پارٹیز میٹنگ میں گپکار اتحاد کے علاوہ کئی دوسری جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ میٹنگ میں مبینہ طور غیر کشمیری باشندوں کو ووٹ کا حق دئے جانے کے مسئلے پر غور وخوذ کیا گیا ۔ منعقدہ میٹنگ کے بعد ایک پریس کانفرنس دی گئی جس میں اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا کہ الیکشن کمیشن نے غیر کشمیری باشندوں کو جموں کشمیر میںووٹ کا حق دئے جانے کا فیصلہ کیاہے ۔یاد رہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے پچھلے دنوں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ ملک کا کوئی بھی شہری جہاں بھی چاہئے اپنے آپ کو ووٹر لسٹ میں اندراج کرکے حق رائے دہی استعمال کرسکتا ہے ۔ جموں کشمیر میں کہا جاتا ہے کہ اس اعلان کے بعد کم از کم 25 لاکھ نئے ووٹر درج ہونگے جن میں زیادہ تر غیر کشمیری ہونگے ۔ اس انکشاف کے بعد عوامی اور سیاسی حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ خاص طور سے مین اسٹریم جماعتوں نے اس پر افسوس کا اظہار کیا ۔ جموں میں اس تناظر میں ہوئی میٹنگ میں سیاسی حلقوں نے الیکشن کمیشن کی طرف سے لئے گئے فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کیا اور اس پر اپنے تشویش کا اظہار کیا ۔ سیاسی حلقوں کو خدشہ ہے کہ ایسا کرنے سے ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہوگا اور جموں کشمیر میں مرکزی سرکار کو اپنی چودھراہٹ قائم کرنے میں مدد ملے گی ۔ بلکہ کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لئے لیا گیا تاکہ جموں کشمیر میں آئندہ اس پارٹی کی سرکار قائم ہوسکے ۔ بی جے پی نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے اسے الیکشن کمیشن کی طرف سے لیا گیا فیصلہ قرار دیا گیا ۔ پارٹی لیڈروں کا کہنا ہے کہ یہ آئین کے تحت لیا گیا فیصلہ ہے جس کو چیلنج کرنا آئین کے ساتھ غداری ہے ۔ پارٹی نے فاروق عبداللہ کی طرف سے اس فیصلے کے خلاف دئے گئے بیان کو ملک دشمن سرگرمی قرار دیا ہے ۔
گپکار الائنس کی طرف سے جموں میں کی گئی میٹنگ اور دوسری سرگرمیوں سے مرکزی سرکار کے فیصلوں پر کوئی اثر پڑے گا ایسا سوچنا مشکل ہے ۔ عمرعبداللہ نے اپنے حالیہ بیان میں واضح کیا ہے کہ بی جے پی یا کسی اور مرکزی جماعت کے ہاتھوں دفعہ 370 کی بحالی ممکن نہیں ہے ۔ حالانکہ گپکار الائنس بنیادی طور اس دفعہ کی بحالی کے لئے وجود میں لایا گیا ۔ جموں میں ہفتہ کو ہوئی میٹنگ میں دوسرے کئی نکات پر بات کرنے کے علاوہ دفعہ 370 کی بحالی پر بھی زور دیا گیا ۔ اس سے واضح ہوتا ہے ک الائنس کی سوچ میں تضاد پایا جاتا ہے ۔ اس سے پہلے بھی این سی کی طرف سے کہا گیا کہ آنے والے انتخابات میں مشترکہ طور شامل ہونا ممکن نہیں ۔ الائنس مشترکہ امیدواروں کو کھڑا کرے گی یہ ممکن نہیں ہے ۔ جب ایسی بات ہے تو اتحاد کا مقصد کیا ہے یہ بتانا مشکل ہے ۔ یہاں یہ بات سامنے رکھنا ضروری ہے کہ گپکار الائنس پر عملی طور نیشنل کانفرنس کا کنٹرول ہے اور فاروق عبداللہ اس کی قیادت سنبھالنے کے علاوہ اس کے معاملات طے کرنے کے ذمہ دار ہیں ۔ نیشنل کانفرنس کے لئے مشکل ہے کہ مرکزی سرکار کے فیصلوں کے خلاف کسی طور کھڑا ہوجائے ۔ پارٹی ماضی میں مرکز کے خلاف کبھی کوئی لفظ منہ سے نکال سکی ہے نہ آج اس کے لئے ایسا کرنا ممکن ہے ۔ پارٹی لیڈروں کو پلے ہی کئی ایسے کیسوں کا سامنا ہے جن میں انہیں کڑی سے کڑی سزا ہوسکتی ہے ۔ ان مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے لئے ممکن نہیں ہے کہ سرکار کے فیصلوں کے خلاف کوئی انتخابی اتحاد بناسکیں ۔ اس اتحاد کو قبول کرنا مرکزی سرکار کے لئے ممکن نہیں ہے ۔ بی جے پی سرکار اپنے ستھر یا سو سالہ ایجنڈا پر کام کررہی ہے ۔ پارٹی پچھلی ایک صدی کے دوران لوگوں سے جو وعدے کئے ہیں خاص طور سے کشمیر کا ہندوستان میں مکمل ادغام ایسا نکتہ ہے جس پر سختی سے عمل ہورہاہے ۔ یہ طویل انتظار کے بعد ممکن ہورہاہے کہ سرکار یہاں لوگوں سے کئے گئے اپنے وعدوں کو پورا کررہی ہے ۔ دفعہ 370 ہٹانے کے بعد دوسرے مدعوں پر عمل کرنا سرکار کی پالیسی کا حصہ ہے ۔ اس کے لئے اس کو کئی حلقوں کی طرف سے مدد مل رہی ہے ۔ اس موقعے پر گپکار اتحاد یا نیشنل کانفرنس اس کے راستے میںرکاوٹ ڈالے مرکزی سرکار کے لئے برداشت سے باہر ہے ۔ نیشنل کانفرنس اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ہے کہ اقتدار اس کے ہاتھ میں رہے ۔ ایسا جب ہی ممکن ہے کہ مرکزی سرکار کے سامنے جھک کر اسے مدد دینے پر آمادہ کیا جائے ۔ گپکار الائنس کو لے کر ایسا ممکن نہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پارٹی کسی دوسرے اتحاد میں شامل ہوکر الیکشن لڑنے کے حق میں نہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ اس وقت عوام میں پارٹی کے لئے نرم گوشہ پایا جاتا ہے ۔ لیکن جو نیا سیاسی منظر نامہ بن رہاہے اس سے لگتا ہے کہ مقامی سیاسی جماعتوں کے لئے اپنا وجود بحال رکھنا مشکل ہے ۔ اقتدار تو دور کی بات سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنا بھی مشکل ہے ۔