مسلمانوں کو باحیا لباس پہننے کا حکم دیا گیا ہے۔ وہ ستر عورت کو ظاہر نہیں کر سکتے۔ قرآن نے کئی مقامات پر مسلمان مردوں اور عورتوں کو حیا کا لباس پہننے، نظریں نیچی کرنے اور تقویٰ کا لباس اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اب حیا کیا ہے اس کی سمجھ ہر انسان کے نزدیک مختلف ہے۔ مقامی موسم، ثقافت اور سماجی ماحول کی بنیاد پر مسلمانوں کے لباس ہمیشہ مختلف رہے ہیں۔ مسلم خواتین کا لباس تنازعہ کا موضوع بن چکا ہے کیونکہ اسلام کی صنفی اعتبار سے متعصبانہ تشریح، استعماریت، پدرسرانہ نظام، زن بیزاری اور غیرت و عزت کی صنفیت پرست تعبیر کی وجہ سے مسلمان خواتین سے لباس کے معاملے میں ایک مخصوص نمونے کی پیروی کی توقع کی جاتی تھی۔
جدیدیت اور اس کے بعد دور استعماریت کی آمد کے ساتھ، چند مسلمان جنہیں ماڈرنسٹ کہا جاتا ہے، جن میں کچھ جنہوں نے استعماری آقاؤں کے ہاتھ سے ہاتھ ملائے، اور کچھ جنہوں نے ان کی مخالفت کی، پھر سے خواتین کے لباس کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ وہ ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی اور ترکی کے مصطفی کمال اتاترک کی طرح مانتے تھے کہ مسلمان خواتین کو جدید لباس کے حق میں اپنے روایتی لباس کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔
اس لیے خواتین کے بال ڈھانپنے پر پابندی لگا دی گئی اور ریاست نے اپنے تمام وسائل کو خواتین کو حجاب دور کرنے کے لیے استعمال کیا۔ لہٰذا پہلوی اور اتاترک کے نزدیک یہ جدیدیت کی علامت تھی، ٹیکنالوجی، سائنسی مزاج اور ترقی پسند صنعت کاری پر توجہ دینے کے بجائے، مسلم خواتین کو حجاب سے بچانے کی ان غلط کوششوں کے نتائج بھی تباہ کن برآمد ہوئے۔ یہی ذیلی علماء کا خیال ہے کہ “مستشرقین مشرقی عورت کو بچانے اور ان کی بار آبادکاری کرنے کی ضرورت ہے۔” اس جابرانہ کوشش نے ان حکمرانوں کی غلط ترجیحات کی عکاسی کی، ان ریاستوں کی بہت سی تخلیقی توانائی کو تباہ کر دیا کیونکہ ان کا مقابلہ اور ان کی مزاحمت علمائے کرام نے کی۔ علمائے کرام نے انہیں اسلام کے دشمنوں، مغرب کی کٹھ پتلیوں اور ہمارے دور کے فرعونوں کے طور پر پیش کیا، تو بالآخر اس کا نتیجہ معاشرے میں علمائے کرام کے قدامت پسند طبقوں کی فتح کی صورت میں نکلا۔
یہ علمائے کرام اور سیاسی قیادت میں ان کے پیروکاروں نے مسلم خواتین کے لباس بالخصوص حجاب کو مزاحمت کی ایک شکل کے طور پر استعمال کیا۔ امام آیت اللہ خمینی نے اپنی طاقت کے ذریعے ایران میں شاہ کی حکومت کے خلاف حجاب کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ یہی بات رجب طیب اردگان کے لیے بھی درست ہے جنہوں نے انتخابی مسئلے کے طور پر عوامی مقامات اور دفاتر میں حجاب کے آلے کو بھی استعمال کیا۔ با حجاب خواتین کو ترکی کے سرکاری اداروں میں جانے کی اجازت نہیں تھی اور ایک بار جب وہ برسراقتدار آئے تو انہوں نے سرکاری اداروں میں با حجاب خواتین کے داخلے پر پابندی ہٹانے کے اپنے وعدے کو پورا کیا۔ اب حجاب والی خواتین کسی بھی سرکاری ادارے اور دفتر میں جا سکتی ہیں۔ لہذا، سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے قدامت پسندوں نے جارحانہ جدیدیت کے خلاف مزاحمت کے طور پر حجاب کو ایک آلے کے طور پر استعمال کیا۔
دوسری طرف افغانستان میں شدید زن بیزار اور پدرسرانہ طالبان حکومت نے اسی حجاب کو افغانستان میں مسلم خواتین کے خلاف جبر کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ طالبان کے لیے حجاب کا مطلب خواتین پر مکمل اختیار اور دبائو ہے۔ جس سے خواتین گھروں کی چار دیواری تک محدود رہنے پر مجبور ہوئیں۔ لڑکیوں اور خواتین کو اسکولوں اور کالجوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے جبکہ انہیں کسی بھی سرکاری دفاتر میں جانے یا نوکری کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ طالبان کے نزدیک خواتین فتنہ (شریر اور زمین پر فساد پھیلانے کا باعث) ہیں۔ فتنہ پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی کسی بھی عوامی سرگرمی میں شرکت پر پابندی لگا دی جائے۔ ان کے لیے کوئی بھی تعلیم فتنے کے دروازے کھولنے اور مردوں کو زنا پر ابھارنے کے مترادف ہے۔ اگر انہیں عوام میں کسی کام کے لیے باہر آنے کی ضرورت ہو تو انہیں جلباب (ایک ایسا لباس جو عورت کو سر سے پاؤں تک ڈھانپتا ہے) پہن کر آنا ضروری ہے۔ تب بھی طالبان خواتین کے جسم سے ڈرتے ہیں۔
ایران، ترکی اور افغانستان کی حکومتوں میں بڑا ہیں۔ امام خمینی کی قیادت میں ایران نے خواتین کے حقوق میں انقلاب برپا کیا اور حجاب اور اس کا تبدیل شدہ لباس عبایا جو جلباب سے مختلف ہے بین الاقوامی بن گیا۔ اب عبایا کو مختلف ممالک میں زیادہ تر مسلمان خواتین ڈھیلے ڈھالے لباس کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ اس نے خواتین کو بااختیار بنانے اور عوامی زندگی میں فعال طور پر حصہ لینے میں مدد کی ہے۔
حجاب کے تنازعہ کو ہندوستان میں پھر ایک نئی زندگی ملی ہے کیونکہ دائیں بازو کی بی جے پی کی حکومت والی کئی ریاستوں نے خاص طور پر تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس پابندی کی وجہ سے بہت سی لڑکیوں کو تعلیم چھوڑنا پڑی۔ یہ کافی حیران کن ہے کہ 21ویں صدی میں شناخت کی سیاست نے انتخابی فوائد میں اتنا اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔ تعلیم، شہریوں کی فلاح و بہبود، لوگوں کی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی پر توجہ دینے کے بجائے حجاب جیسے مسائل کو جنم دیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کے دل و دماغ کو اصل مسئلے سے ہٹایا جا سکے۔ ہندوستان میں حجاب کو اب ہندو اکثریت پر حملے اور خطرے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا اب حجاب کے اوپر سیاست کی جا رہی ہے جو کہ حقیقت میں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
حال ہی میں وادی کشمیر میں سرینگر کے علاقے ریناواری میں واقع ایک بڑے مشہور ہائر سیکنڈری اسکول، وشو بھارتی اسکول میں، اسکول کے حکم کے بعد طالب علم سڑکوں پر نکل آئے کیونکہ انہیں عبایہ اور حجاب نہ پہن کر اسکول آنے کا حکم دیا گیا تھا۔ انہوں نے خاتون پرنسپل کے خلاف احتجاج کیا جنہوں نے طالب علموں کے الزامات کے مطابق یہ کہا تھا کہ اگر وہ حجاب اور عبایہ پہننے پر اصرار کرتی ہیں تو انہیں مرکزی دھارے کے اسکولوں میں نہیں بلکہ کسی دارالعلوم (اسلامی مدارس) میں جانا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ پرنسپل نے ان سے کہا کہ تم بدکرداری اور جرائم میں ملوث ہو اس لیے تم حجاب / عبایہ پہننے پر اصرار کرتی ہو تاکہ تم بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی تخریبی سرگرمیاں آزادانہ طور پر جاری رکھ سکو۔ یہ مظاہرے وائرل ہو گئے جس کی وجہ سے مسلمان خاتون پرنسپل نے معافی مانگ لی اور کہا کہ میرے الفاظ سیاق و سباق سے ہٹا کر نقل کیے گئے ہیں۔ اس دوران کچھ عسکریت پسند تنظیم نے پرنسپل کے خلاف دھمکی بھی جاری کر دیے۔ سیاسی قائدین بھی ان تنازعات میں کود پڑے اور بیانات جاری کئے۔
تاہم اصل معاملہ الزامات اور جوابی الزامات کی بوچھار میں گم ہو گیا۔ اصل مسئلہ اسکولوں میں یونیفارم کا ہے۔ اگر یونیفارم نافذ کیا جانا چاہیے تو عبایا بھی یونیفارم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ لہذا، عبایا جیسا کوئی لباس یونیفارم کا حصہ بن سکتا ہے۔ عبایا خواتین کو اندر سے کوئی بھی لباس پہننے کی آزادی عطا کرتے ہیں کیونکہ یہ پورے جسم ڈھانپ لیتا ہے۔ طلباء کے مطابق پرنسپل چاہتی تھیں کہ لڑکیاں اپنے عبایہ کو اسکول کے احاطے میں اتاریں اور صرف یونیفارم میں اسکول کے اندر رہیں۔ لیکن انہوں نے اس کی مزاحمت کرتے ہوئے دیکھا کہ پرنسپل صاحبہ نے اسکول کو ایک کو-ایجوکیشن ادارے میں تبدیل کر دیا ہے۔ لہٰذا یہ مسئلہ اک تنازعہ کی شکل اختیار کر گیا اور پرنسپل کو طلبہ کے مطالبات کے سامنے جھکنا پڑا، کیونکہ مسلم معاشرے نے اسے مسلم اکثریت کے خلاف حملہ مان لیا تھا۔ یہ بہت اچھی طرح سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ صرف حجاب کو ایک جذباتی مسئلہ بنایا جا سکتا ہے اور اس میں معاشرے کے امن و سکون کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔(نیو ایج اسلام(