معذور افراد کے حقوق کے کنونشن کا آرٹیکل 9 کہتا ہے کہ معذور افراد کے لیے رسائی ایک پیشگی شرط ہے کہ وہ آزادانہ طور پر زندگی گزاریں اور معاشرے میں مکمل اور یکساں طور پر حصہ لیں۔ بہت سے والدین غربت کی وجہ سے ان معذور خواتین،لڑکیوں اور بچیوں کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر سکتے جس وجہ سے ان کو بہت سی دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔ سب سے ذیادہ مشکل ان لڑکیوں اور خواتین کو ماہواری کے دوران پیش آتی ہے۔ایسی خواتین،لڑکیاں اور بچیاں جنہیں کوئی معذوری ہے، باوجود اس کے وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس لیے انکی صحت کی راہ میں حائل روکاوٹوں کو دور کرنا چاہئے تاکہ یہ تمام خواتین اچھی صحت کے ساتھ اس ملک کے لیے اپنی خدمات دیتی رہیں۔ لیکن ایسی خواتین یا لڑکیوں کو زندگی میں کس طرح کی دشواریاں پیش آتی ہیں اس کی ایک مثال فریدہ بیگم ہیں۔ جموں کے سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے گاؤں ڈنہ دھکنا فتحپور کی رہنے والی فریدہ کی عمر تیس سال ہے۔ وہ ایک معذور لڑکی ہے۔ اس کے ہاتھ پاؤں بلکل حرکت نہیں کرتے ہیں۔فریدہ ہاتھوں کے سہارے چلتی ہے۔ ہاتھوں کے سہارے صرف اپنے گھر میں ہی تھوڑا چل سکتی ہے۔ باقی واشروم وغیرہ اُسکی ماں یا بہن لے کر جاتی ہے۔ اس نے صرف دسویں تک پڑھائی کی ہے۔ یہ پڑھائی کے معاملے میں بہت ذہین تھی لیکن قسمت نے اسکا ساتھ نہیں دیا۔ اسکا سپنا تھا کہ میں کوئی بڑی پوسٹ لے کر اپنے علاقے کے لئے کام کرے گی۔ اپنے علاقے اور اپنی پوری فیملی کا نام روشن کرو گی۔ اس کی کوشش ابھی بھی ہے کہ اگر میں ٹھیک ہو جاؤں تو اپنی زندگی میں بہت کچھ حاصل کر لوں گی۔
دراصل فریدہ پندرہ سال کی عمرتک بالکل ایک نارمل لڑکی کی طرح ٹھیک تھی۔لیکن ایک دن اچانک اس کے جسم میں کچھ اٹیک آیا جسکے بعد یہ بلکل نہیں چل پائی۔ اب فریدہ کہتی ہے کہ”اگر گورنمنٹ کی طرف سے مجھے مفت علاج کے لئے کچھ حاصل ہو جائے تو میں بھی اپنی زندگی کے چار دن اچھے سے اچھے گزار پاؤں گی۔مجھے وہیل چیئر کی بہت ضرورت پڑتی ہے کیونکہ میرے ماں باپ یا بہن بھائی میرے پاس ہر وقت موجودنہیں ہوتے کہ وہ مجھے اٹھا کر چلاتے رہیں گے۔ میری زندگی کو بہت خطرہ ہے۔ میرے ساتھ کبھی بھی کسی بھی قسم کا حادثہ ہو سکتا ہے۔ میری یہی اپیل ہے کہ میرے لئے کچھ وسائل کیے جائے تا کہ میری جسمانی بیماری دور ہو جائے۔ “اسی حوالے سے مقامی سماجی کارکن شمشاد اختر کا کہنا ہے کہ معذور افراد کے لیے نقل و حرکت، ٹیکنالوجی، معلومات اور عوام کے لیے کھلی جگہوں تک رسائی کا حق عوامی زندگی میں شرکت کے حق سمیت دیگر بہت سے حقوق کو پورا کرنے کے لیے ایک شرط ہے ۔ لیکن مجھے یہ شرط کہیں نظر نہیں آ رہی ہے۔فریدہ بیگم کوجب اس حال میں دیکھتی ہوں تو آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں کہ”اے خدا کہ کاش یہ بھی میری طرح صحیح سلامت ہوتی“۔شمشاد اختر کہتی ہیں کہ گورنمنٹ کی طرف سے بہت ساری اسکیمیں آئی لیکن اسکو اُن اسکیموں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ فریدہ کو اس وقت وہیل چیئر کی اشد ضرورت ہے۔ یہ چل پھر نہیں سکتی اسکے گھر کے افراد اسکو اٹھا کر اندریا باہر لے جاتے ہیں۔میں یہی چاہتی ہوں کہ معذوروں کو اُنکے حقوق دیئے جانے چاہیے۔ لیکن ان کو اُنکے حقوق نہیں دیے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ معذور خواتین سے اکثر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔
انہیں شادی کے مناسب شراکت داروں کی حیثیت سے مسترد کردیا جاتا ہے یا کام کی جگہ پر ’غلط‘ شبیہہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تعلیم دستیاب ہو تب بھی معذور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں، معذور بچوں کے خصوصی اسکولوں میں بھی لڑکیوں کے مقابلے لڑکوں کو عام طور پر ترجیح ملتی ہے۔ معذور خواتین کو کسی بھی قسم کے کام کی تربیت حاصل کرنے کا امکان نہیں ہے۔ وہ جسمانی، جذباتی اور جنسی طور پر بدسلوکی کا سامنا کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے خاندان والے بھی صرف اس وقت تک ہی ان کو چاہتے ہیں جب تک وہ ان کے لئے قیمتی ثابت ہوں – میں چاہتی ہوں کے فریدہ بیگم کو گورنمٹ کی طرف سے مفت علاج، وہیل چیئر اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی تمام چیزیں دی جایں۔فریدہ کے سلسلے میں مقامی سرپنچ محمد اسلم بتاتے ہیں کہ 2007 میں اسے اچانک سے اسکول میں اٹیک آیا۔ اسکے بعد سے آج تک وہ بلکل چل پھر نہیں سکی۔ گھر کے معاشی حالات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اسکا علاج بھی اچھے سے نہ ہو پایا۔ جسکی وجہ سے آج تک وہ ایسی ہی حالت میں ہے۔ معذوری کی وجہ سے دوہری پسماندگی کا شکار اور خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بنیادی انسانی حقوق جیسے کہ صحت، تعلیم، ہنر اور روزگار جیسی سہولیات سے بھی محروم ہے۔ہم سب چاہتے ہیں کہ اس بچی کے لئے اچھے سے اچھے اقدامات کیے جائیں تا کہ وہ چلنے پھرنے کے قابل ہو جائے۔
فریدہ کی ماں منیرا بی اور والد محمد بشیر اپنی بیٹی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ بہت ذہین اور ہر کلاس میں اول نمبرلانے والی لڑکی تھی۔لیکن گذشتہ پندرہ سال سے وہ معذوری کی شکار ہے۔ ہم اس کے لئے کافی فکرمند ہیں۔ دن رات اسی کی سیوا میں لگے رہتے ہیں۔ماں منیرا بی بتاتی ہیں کہ اسکا پورا جسم اچھے سے حرکت نہیں کرتا ہے۔وہ ہاتھوں کے بل چلنے کو مجبور ہے۔اس کی وجہ سے اس کے دونوں ہاتھ کافی زخمی ہوچکے ہیں۔ جب یہ تھوڑی اِدھر اُدھر ہاتھوں کے بل چلتی ہے تو اسکو ان زخموں سے خون آنے لگتا ہے۔ اسکی تکلیف اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ باہم یہ معذوری کے تولیدی عمل کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اسکو تولیدی صحت کے دوران کافی دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔ فریدہ کے والد محمد بشیر کہتے ہیں کہ میں اسکی وجہ سے مزدوری کرنے کے لئے بھی نہیں جا سکتا۔وہ کہتے ہیں کہ کاش میرے پاس پیسے ہوتے تو میں اپنی بیٹی کااچھے سے علاج کرواتا۔پہلے قدرت اور اب انتظامہ کی جانب سے میری بیٹی کے ساتھ ہی ناانصافی کیوں؟انہیں امید ہے کہ ان کی بیٹی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی اورسرکار، مقامی انتظامہ اور محکمہ سماجی بہبودکی طرف سے فریدہ کی بہتر زندگی کے لئے بہتر اقدامات کیے جائیں گے تاکہ اس کی زندگی آسان ہو سکے۔اس وقت فریدہ بیگم کو سب سے زیادہ ضرورت وہیل چیئر کی ہے۔(چرخہ فیچرس)