وادی کشمیر جس کو جنت بے نظیر بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ علمدار کشمیر اور شاہ ہمدان کا کشمیر ہے لیکن اب یہی کشمیر جہنم کا نظارہ پیش کر رہا ہے اور بے حیائی کی آماجگاہ بن چکا ہے ، شیطانی حرکتوں کا اڈہ بن گیا ہے آج کل بد بخت اور ذلیل قسم کے انسان بنا سوچے سمجھے ایسے کام کرتے ہیں جن سے پوری انسانیت شرمسار ہو جاتی ہے جیسے منشیات فروشوں ۔ اب وادی میں عصمت دری جیسی شیطانی حرکتیں ہر گزرتے دن ہوتی جا رہی ہیں آئے دن نابالغ بچیوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی اور چھیڑ چھاڑ حد درجہ تشویشناک ہے۔ ایک تو انہیں لوگوں کو سمجھنے کا شعور نہیں دوسرے یہ معصوم آسانی سے کسی کے بھی بہکاوے میں آجاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ معصوم لمس کے فرق کو نہیں سمجھتے ہیں ۔ ان کے ساتھ ہورہی ایسی کسی بھی نازیبا حرکت پر وہ ذہنی طور پر پریشان ہوجاتی ہیں شائد ہی کوئی دن گزرا ہو جب ریپ یا چھیڑ چھاڑ کی خبریں پڑھنے کو نا ملتی ہوں۔ ایسے کئی واقعات محض چند دنوں کے اندر ہی رونما ہوئے ہیں۔ خواتین اور بچیوں کے خلاف ہراسانی اور عصمت دری کی کئی ہولناک خبریں ایک کے بعد ایک سامنے آئی ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ کچھ اسکولوں میں بھی اس طرح کے وقعات پیش آئے ہیں جن سکولوں سے انسان تعلیم سے روشناس ہو کر علم کی دنیا میں آتا ہے اور بے حیائی جاہلیت سے دور ہو کر آتا ہے انہیں اسکولوں میں اب اس طرح کے کام ہو رہے ہیں یہ ایک افسوس کا مقام ہی نہیں بلکہ معاشرے کی بدبختی بھی ہے اور یہی نہیں اس کے علاوہ سماج میں کچھ شخص 45 اور 50 سال کی عمر میں بھی اس طرح کی بد حرکت سے اپنے اپ کو بچا نہیں سکتے گزشتہ دن کنٹھ پورہ، سوگم کپواڑہ کا رہنے والا ایک 46 سالہ محمد اقبال شیخ جو ایک 15 سالہ لڑکی کی عصمت دری کے کیس میں گرفتار کیا گیا۔ اس سے پہلے اس طرح کا ایک اور واقعہ شہر سرینگر کے برزلہ میں پیش آیا تھا جہاں 22 سالہ زید فیروز نامی شخص نے 12 سالہ بچی کے ساتھ عصمت دری کے کیس میں گرفتار کیا گیا ہے اور اس طرح کا ایک واقعہ کچھ مہینے پہلے جنوبی کشمیر کے پامپور میں پیش آیا تھا جہاں ایک درندہ صفت انسان نے اپنی بھابی کے ساتھ عصمت دری کی اور اس کا گلا دباکر اسے قتل کردیا گیا تھا۔ ایسے کتنے ہی اندوہناک واقعات ہوتے ہیں جنہیں ہم دیکھ کر افسوس کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ ریپ اپنے آپ میں ہی ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ جن کے ساتھ ایسے دردناک حادثے ہوتے ہیں وہ کس جسمانی اذیت اور ذہنی کرب سے گزرتے ہیں اس کا اندازہ بھی ہم نہیں کرسکتے ۔ ان درندوں کو یہ حق کس نے دے دیا ہے کہ ایک اچھے خاصے خوش باش انسان کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر اسے عرصے تک ذہنی اور جسمانی اذیت میں مبتلا کردیں۔ اس طرح کی کتنی ہی دل دہلا دینے والی خبریں آتی رہتی ہیں۔لیکن حقیقت میں اس جرم کی روک تھام اور خواتین کے تحفظات کو یقینی بنائے جانے کے لئے کبھی پوری سنجیدگی سے غور وفکر ہی نہیں کیا گیا۔ اگر ریپ کی کوئی خبر اخبارات اور نیوز چینلز کی ہیڈ لائن بن جائے یا عوام کی طرف سے شدید رد عمل آنے لگے تو وقتی طور پر کچھ ایکشن ضرور لئے جاتے ہیں بعد میں پھر بھول جاتے ہیں ایسا ہی ایک عرصے سے یہی ہوتا آرہا ہے۔کہیں نا کہیں بلقیس کے مجرموں کی رہائی نے ان وحشیوں کے دماغ پر ایک منفی اثر ضرور ڈال دیا ہے کہ اس طرح کے جرم کرنے اور پکڑے جانے کے بعد انہیں بھی بہرحال رہائی مل ہی جائے گی۔ قانون کا خوف ان کے دلوں سے نکلتا جا رہا ہے۔ خواتین کے تحفظات کو یقینی بنائے جانے کے لئے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے پر غور و فکر کرکے متفقہ طور پر لڑکیوں کی عزت پامال کرنے والوں کے خلاف ایک سخت قانون پاس کرنا چاہئے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ عصمت دری کے کیس کی تفتیش اور عدالتی کارروائی سست روی کے بغیر ہو اور مجرم کو جلد از جلد سخت سزا دی جائے اور ریپ کے مجرموں کے خلاف سخت قانون لانے کی ضورت ہے تاکہ انہیں اپنے قصور کی سزا ملے اور سماج کے دوسرے نوجوانوں کو بھی ہدایت ملے اور ان گھوم رہے درندوں کے دلوں میں بھی کچھ خوف پیدا ہو۔