
انسان نے اپنے علم کی بدولت نت نئی مفید ایجادات کی ہیں۔موبائل فون اور انٹر نیٹ دور جدید کی چند ایسی اہم ایجادات میں سے ہے جس نے انسانی زندگی کا رخ بدل کر رکھ دیا ہے۔ساری دنیا موبائل فون اور انٹر نیٹ کے زیر تسلط آچکی ہے۔ انٹر نیٹ ایک ایسی ایجاد ہے جس کا وجود انسان کی ترقی اور معلومات کی فراہمی کے لیے ناگزیز ہے اوریہ حقیقت ہے کہ اس کی بدولت دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اور ہزاروں میل دور انسانوں کو آپس میں جوڑ دیا ہے۔
موجودہ دور میں موبائل اور انٹر نیٹ ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں میں بہت آسانیاں پیدا کی ہیں خاص طور پر پروفیشنلی معاملات میں یہ بہت مددگار ثابت ہوئی ہے اور اس پر انحصار کافی بڑھ گیا ہے۔
وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی نے نہ صرف پروفیشنل لائف بلکہ پرسنل لائف کو بھی متاثر کیا ہے۔
گھر ہو یا آفس انٹرنیٹ ،لیپ ٹاپ ،آئی پیڈ، موبائل ہر جگہ موجود ہے اور ہر دوسرا فرد اس کا استعمال کرتا نظر آتاہے۔آج کل کے بچے بھی اس کا استعمال بے دریغ کرتے نظر آتے ہیں اور والدین یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ بچے اپنا قیمتی وقت زیادہ تر موبائل پر ضائع کرتے ہیں جب سے سمارٹ فون کا آغاز ہوا تو اس کا استعمال بہت تیزی سے پھیلا اور لوگ اس کے عادی ہوتے چلے گئے اور آہستہ آہستہ یہ عادت لت میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔
نئی نسل کے بچے بہت زیادہ چست ،ہوشیار اور بے چین طبیعت کے مالک ہیں اوراپنا وقت ٹی ۔وی اور موبائل کے ساتھ گزارنا پسند کرتے ہیں۔سمارٹ فون میں ایک ایسی دنیا ہے جس میں ہر عمر اور جنس کی دلچسپی کا سامان ،چاہے وہ معلوماتی ہو یا تفریحی موجود ہے۔
بچوں کو موبائل فون کا عادی بنانے میں والدین کا بہت بڑا کردار ہے، بعض اوقات والدین مصروف ہوتے ہیں اور بچے ان سے بات کرنا چاہتے ہیں تو والدین ان کو موبائل پر گیم کھیلنے پر لگادیتے ہیں یا یوٹیوب پر ویڈیوز چلا دیتے ہیں، اور بچے اس میں بہت دل چسپی لیتے ہیں۔جب کبھی بچے اپنے والدین سے موبائل کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر والدین بچے کو موبائل فون نہ دیں تو بچے رونا شروع کر دیتے ہیں، اور والدین یہ سوچ کر کہ ہمارا بچہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوجائے اور وہ بچوں کو موبائل دے دیتے ہیں۔
آج کل بچوں کی بہت سی تعلیمی سرگرمیاں اور اسائمنٹس انٹرنیٹ کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی اس لیے بھی انٹرنیٹ اور موبائل بچوں کی ضرورت بن چکا ہے۔کچھ ایسے بھی بچے ہیں جنہوں نے مختلف apps اور گیمز بنا کر کامیابی اور دولت کمائی ہے،
ایک سروے کے مطابق پچھلی صدی کی سب سے بہترین اور بدترین ایجاد موبائل فون ہے۔ بات کچھ عجیب لگتی ہے کہ ایک ہی چیز ایک ہی وقت میں فائدہ مند اور نقصان دہ کیسے ہو سکتی ہے؟اگر دیکھا جائے تو کسی بھی ایجاد کو اس کا استعمال اچھا یا برا بناتا ہے۔ موبائل فون نے، جہاں رابطوں کو آسان کیا ہے، وہیں اس کے بے جا استعمال نے بہت سی نفسیاتی الجھنوں کو بھی جنم دیا ہے۔بات تب خطرناک ہو جاتی ہے، جب ایک چھ ماہ کے بچے کو بہلانے کے لیے موبائل کی سکرین کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بچے کا ذہن، جس کے لیے ہر رنگ برنگی اور حرکت کرتی چیز کشش اور سکون کا باعث ہوتی ہے، وہ اس کی جانب کھنچ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کا عادی ہو جاتا ہے۔ والدین اسی بات کو سکون سمجھ کر سکھ کا سانس لیتے ہیں بنا یہ جانے کہ وہ خود اپنے بچے کے لیے ایسا شکنجہ تیار کر رہے ہیں، جس سے نکلنا نا ممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔ایک تحقیق کے مطابق بچوں کا ذہن بڑوں کے مقابلے میں دو گنا ریڈیو ایکٹیو ویویز جذب کرتا ہے اور یہی لہریں بون میرو بڑوں کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ جذب کرتا ہے۔ اسی لیے موبائل سکرین کا ابتدائی عمر میں استعمال اور بے تحاشا استعمال بہت سی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ موبائل اور انٹرنیٹ جدید دورکی ایک ضرورت بن چکا ہے ا ور اس کے استعمال کو روکا نہیں جا سکتا ہے لیکن اس کا بچوں پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
بچے ہر وقت اپنے موبائل ،آئی پیڈ،لیپ ٹاپ میں مصروف رہتے ہیں وہ جسمانی کھیل اور سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں اس سے بچوں میں موٹاپا بڑھ رہا ہے۔ کچھ گیمز ایسی بھی ہیں جن کی وجہ سے بچے میں جارحانہ رویہ نمو پاجاتا ہے اور والدین بچوں کے جارحانہ رویے کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں، ضرورت سے زیادہ وقت موبائل اور آئی پیڈ پر گزارنے سے بچے کی تعلیمی کارگردگی متاثر ہوتی ہے، بچے کی تخلیقی صلاحیت متاثر ہوتی ہے،بچہ قدرتی ماحول سے دور ہو جاتا ہے۔
والدین اوربچے ایک دوسرے سے بات چیت کم کرتے ہیں تو ان میں کمیونیکیشن گیپ بڑھ جاتا ہے۔بچے جب زیادہ تر وقت گھر پر گزاتے ہیں تو دوسرے لوگوں سے میل جول بھی کم ہوتا ہے اور بچے میں تعلقات بنانے کا رویہ نمو نہیں پاتا ہے۔ریسرچز سے ثابت ہوا ہے کہ موبائل ،آئی پیڈ ،لیپ ٹاپ اور نیٹ کا بے جا استعمال دماغ کے نیورو ٹر انسمیٹر پر اسی طرح اثر انداز ہوتا ہے جیسا کہ عام نشہ آور اشیاء اثر انداز ہوتی ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ والدین کون سے اقدامات اٹھائیں جن کی مدد سے بچوں کو موبائل اور انٹر نیٹ کے بے جا استعمال اور اس کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے۔سب سے پہلے تو والدین ان کے رول ماڈل بنیں،بچہ ہمیشہ اپنے والدین کی پیروی کرتا ہے اگر والدین کتاب پڑھیں گے تو بچے میں بھی پڑھنے کا رجحان ہو گا ،اگر والدین زیادہ تر وقت موبائل اور ٹی وی پر گزاریں گے تو بچے بھی ایسا کریں گے سب سے پہلے والدین کو چاہیے کہ جب بھی فیملی اکٹھی ہو تو موبائل یا آئی پیڈ کا استعمال نہ کریں،بچوں کی باتوں کو توجہ اور دھیان سے سنیں۔
والدین کوچاہیے کہ گھر کے اصول بنائیں جیسا کہ ٹی ،وی ،موبائل کو استعمال کرنے کے وقت مختص کیے جائیں۔بچوں کو جلد سونے کا عادی بنائیں،بچوں کو جسمانی کھیل کھیلنے کی حوصلہ افزائی کریں ،والدین بچوں کو پارک لے کر جائیں اور ان کے ساتھ کھیلیں۔
ان کو مختلف گیمز جیسے کہ لڈو،کیرم بورڈ اور سکریبل لا کر دیں اور ان کے ساتھ مل کر کھیلیں۔والدین کوشش کریں کہ گھر میں کم از کم آئی پیڈ ،موبائل اور لیپ ٹاپ رکھیں اور ہر بچے کا وقت مقرر کر دیں کہ وہ مقرر وقت تک اس کو استعمال کر سکتا ہے جب بچے موبائل یا انٹر نیٹ کا استعمال کر رہے ہوں تو ان کی انٹرنیٹ سرچنگ پر نظر ضرور رکھیں۔
ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لیے والدین کو ہی اقدامات اٹھانا پڑیں گے۔ بڑھوتری کی عمر میں ان کا تدارک کر لیا جائے تو بچوں کا مستقبل محفوظ ہو جائے گا۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ بچے کو بہلانے کے لیے یا چپ کروانے کے لیے موبائل کا استعمال نہ کریں خاص طور سے اگر وہ دو سال سے چھوٹا ہے۔ اتنی عمر کے بچے توجہ حاصل کرنے کے لیے زیادہ تر روتے ہیں، اس لیے ان کو توجہ دیں موبائل نہیں۔
دن میں کچھ گھنٹے کے لیے انٹر نیٹ کا استعمال کرنے پر پابندی لگا دیں ۔ آج کل کے بچوں کو اصولوں پر عمل درآمد کروانا مشکل کام ہے لیکن اگر والدین دلائل سے بات کریں توبچے سمجھ جاتے ہیں جیسا کہ والدین بچوں کو بتائیں کہ ضرورت سے زیادہ موبائل اور انٹر نیٹ کا استعمال ذہنی اور جسمانی طور پر کتنا نقصان دہ ہے اور جذباتی ذہانت کتنی متاثر ہوتی ہے۔
