تحریر: محمد انیس
صلح حدیبیہ سے قبل پورے عرب میں جنگ و جدال کا ماحول تھا۔ اس ماحول میں کوئی شخص محفوظ نہیں تھا۔ نہ مسلمان نہ کفار۔ قریش مدینہ جاکر مسلمانوں پر تین بار فوج کشی کرچکے تھے۔ انہوں نے مدینے کا معاشی بائیکاٹ کا بھی اعلان کر رکھا تھا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو سنگین غذائی مسئلہ درپیش تھا۔ ایسے میں حکم الٰہی کے تحت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے کا قصد کیا۔ آپؐ اپنے 1400 اصحاب کے ساتھ سال 628ء میں عمرے کیلئے روانہ ہوئے۔ کئی دن کی مسافت کے بعد جب آپؐ مکہ کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ قریش آپ کے قافلے کو روکنے پر آمادہ ہیں۔ قریش سے ٹکراؤ نہ ہو ، اس واسطے آپؐ نے راستہ بدل دیا اور مشکل راہوں سے گزرتے ہوئے جدہ کی جانب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے۔ وہاں پڑاؤ ڈال کر آپ نے اپنا نمائندہ قریش کے پاس بھیجا۔ قریش کے نمائندے بھی بات چیت کیلئے حدیبیہ آتے جاتے رہے ۔ اس طرح قاصدوں کے ذریعے طویل قیل و قال کے بعد بالآخر سہیل بن عمرو کی قیادت میں قریش کا وفد آیا۔ وفد نے اپنی شرطوں پر رسولِ خدا سے معاہدہ کرنا چاہا۔ ان کی پہلی شرط یہی تھی کہ اس بار مسلمانوں کو عمرے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ عمرہ کرنا ھے تو اگلے سال آئیں’ ورنہ پھر یہ ارادہ ترک کردیں۔ اصحاب رسول نے ان کی شرط کو یک لخت مسترد کر دیا۔ کیونکہ کعبہ کی زیارت سے روکنا اس وقت عام دستور کے خلاف تھا۔ علاوہ ازیں انہیں عمرہ کئے بغیر قریب 450 کیلومیٹر دور مدینہ واپس جانا بھی منظور نہیں تھا۔ لیکن عام رائے کے برعکس رسولِ خدا نے ان کی شرط مان لی اور ان سے صلح کیلئے تیار ہوگئے۔ اس کے بعد قریش نے ایک دوسری شرط رکھی جو اور زیادہ سخت تھی۔ وہ شرط یہ تھی کہ آئندہ قریش کا کوئی فرد اگر مسلمان ہوکر بھاگ کر مدینہ جائے تو مسلمان اسے قریش کے حوالے کردیں گے، لیکن مسلمانوں کا کوئی فرد اگر بھاگ کر قریش سے جا ملے تو قریش اسے مسلمانوں کے حوالے نہیں کریں گے۔ یہ شرط بھی قریش کی زیادتی پر مبنی تھی۔ لیکن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط کو بھی منظور فرما لیا۔ اس کے بعد جب صلح نامہ لکھا جانے لگا تو ایک فریق کی طورپر حضرت علیؓ نے رسولِ خدا کا نام اس طرح لکھا۔— محمد الرسول اللہ۔ —- لیکن یہاں بھی وفد قریش نے شرارت کی ۔ انہوں نے لفظ رسول پر اعتراض کیا کہ صلح نامہ سے لفظ رسول ہٹادو۔ کیونکہ ہم آپ کو رسول نہیں مانتے۔ حضرت علی ؓ نے اس لفط کو ہٹانے سے انکار کردیا۔ ، لیکن رسول اکرمؐ نے اس لفظ کو بھی ہٹا دیا اور قریش کی شرط پر صلح نامہ میں صرف محمد لکھنے کا حکم دیا۔ اس معاہدے میں صرف ایک شرط مسلمانوں کے حق میں تھی ۔ اور وہ یہ تھی کہ قریش اگلے دس سال تک مسلمانوں سے جنگ نہیں کریں گے۔ یعنی دس سالہ ” ناجنگ معاہدہ (No War Pact) کیلئے رسولِ اکرم نے ان کی تمام شرطوں کو مان لیا۔
تاہم جس طرح آجکل ہر قوم اپنی شرطوں پر معاہدہ کرنا چاہتی ہے اسی طرح اس وقت بھی لوگ یہی چاہتے تھے۔ چنانچہ تقریباً تمام اصحاب رسول اس معاہدے کے خلاف ہوگئے سوائے حضرت ابوبکر صدیق ؓاور حضرت علیؓ کے۔ سب نے یہ محسوس کیا کہ مسلمان کفار کے سامنے جھک گئے ہیں۔ وہ اسے اپنی پسپائی اور شکست سے تعبیر کرنے لگے۔
اس دوران ایک اور واقعہ رونما ہوا ۔ ابو جندل نامی ایک شخص قریش کی گرفت سے نکل کر کسی طرح حدیبیہ پہنچ گیا۔ مکہ میں مسلمان ہونے پر انہیں طرح طرح سے ٹارچر کیا جارہا تھا۔ وہ حدیبیہ پہنچ کر اب مسلمانوں کے ساتھ مدینہ جانا چاہتا تھا ۔ لیکن قریش کے وفد نے معاہدے کے مطابق اسے واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔ رسولِ خدا نے معاہدے کی دوسری شرط کا پالن کرکے اسے دوبارہ قریش کے حوالے کردیا۔ آپ ؓ نے ابوجندلؓ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ” صبر کرو ابوجندل۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کوئی راستہ نکالےگا”۔ اس طرح مسلمانوں کے سامنے سے قریش ابوجندل کو لےکر چلے گئے۔ اس دلخراش نظارہ کو دیکھ کر لوگوں کی مایوسی اور بڑھ گئی۔
رسولِ خدا کا یہ قافلہ عمرہ کئے بغیر جب مایوسی کے عالم میں مدینہ واپس ہوا تو اس دوران قرآن کریم کی سورہ فتح نازل ہوئی جس میں اس معاہدہ کو فتح مبین ( clear victory) سے تعبیر کیا گیا۔ تمام اصحاب کی ناراضگی کے باوجود رسولِ خدا نے اسے اب تک کی سب سے بڑی فتح فرار دیا۔
یہاں بڑا سوال یہ ہے کہ قریش کی تمام زیادتیوں کے پیش نظر بظاہر شکست نظر آنے والی اس صلح کو اللہ تعالیٰ نے فتح کیوں کہا ۔ اور صرف فتح نہیں بلکہ فتح مبین قرار دیا ۔ اس سوال کا جواب ہمیں تب ملتا ہے جب ہم اس معاہدے کے دور رس اثرات کو دیکھتے ہیں۔ اس صلح کے بعد مسلمانوں کے خلاف قریش کی طویل مدتی دشمنی قریب قریب ختم ہوگئی۔ دونوں طرف سے لوگ ملنا جلنا شروع کردئے۔ مسلمانوں کے خلاف قریش کا عائد کردہ economic sanction آپ سے آپ ختم ہوگیا۔ اس پرامن ماحول میں رسولِ خدا کو اسلام کا پیغام عرب کے دیگر علاقوں تک پھیلانے کا موقع فراہم ہوا۔ صلح کے نتیجے میں جب جبر اور تشدد کا ماحول ختم ہوگیا اور امن و امان کی فضا قائم ہوگئی تو لوگ جوق در جوق اسلام اختیار کرنے لگے۔ اس وجہ سے مسلمانوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ صرف دو برس میں ان کی تعداد آٹھ گنا سے زیادہ بڑھ گئی۔ صلح حدیبیہ میں جہاں آپؐ کے ساتھ 1400 اصحاب تھے ۔ اس کے دو برس بعد جب آپ فتح مکہ کے لئے روانہ ہوئے تو آپ کے ساتھ دس ہزار سے زیادہ مسلمان تھے۔
اسوہ رسول کے اس بے مثال واقعہ سے سمجھا جاسکتا ھے کہ دعوت الی اللہ اور اس کی کامیابی کیلئے پرامن اور سازگار ماحول کا ہونا کتنا زیادہ ضروری ہے۔ اس سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ کسی عظیم مقصد کو پانے کیلئے درمیانی جھگڑوں کو ختم کیا جاسکتا ہے خواہ اس کیلئے فریق ثانی کی دلخراش شرطوں کو کیوں نہ ماننا پڑے ۔ بالفاظ دیگر اگر دعوت الی اللہ کے فریضہ کو انجام دینے کا ارادہ ہو تو ان تمام چیزوں کو چھوڑا جاسکتا ہے جو اس راہ میں حائل ہوں۔ لیکن موجودہ زمانے میں سنجیدہ قیادت کا فقدان ہے۔ اب کوئی صلح حدیبیہ جیسا اقدام کرکے مسلم عوام کی ناراضگی نہیں لینا چاہتا۔ اب ہم نے اپنی سہولت کے حساب سے نظریہ سازش کو اختیار کرلیا ہے جس کے تحت تمام جھگڑوں کے ذمہ دار دوسری قومیں قرار پاتی ہیں ۔ لیکن آج بھی ان سب مسائل کا واحد حل یہی ہے ے کہ صلح حدیبیہ کے اوپشن کو پھر سے اختیار کیا جائے’ کیونکہ صلح حدیبیہ کے وقت تو ہر طرف سازش ہی سازش تھی۔ اس سے بڑی سازش کم از کم موجودہ زمانے میں تو نہیں ہے۔