موجودہ انتظامیہ نے جب سے وقف بورڈ کی تشکیل نو کی اس دن سے اصلاحات کا سلسلہ جاری ہے ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ وقف بورڈ کے سرپرست اور دوسرے ممبران اپنے مفاد کے بجائے وقف املاک کے مفادات کے پیچھے لگے ہیں ۔ اس سے پہلے مسلم وقف بورڈ ایک گم نام ادارہ تھا ۔ اس پر سوار چند افراد کے سوا کسی کو ادارے کے لئے بہبودی کا کام کرنے کی فکر تھی نہ فرصت میسر تھی ۔ ایسے نام نہاد افراد بورڈ میں رہ کر اپنے لئے فائدے سمیٹ رہے تھے ۔ اس وجہ سے وقف بورڈ خاطر خواہ آمدنی کے باوجود عوامی مفادات کے لئے کوئی مثبت قدم اٹھانے سے قاصر تھا ۔ کئی بار اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ سکھ گردواروں می نہ صرف سکھ برادری کے لئے بلکہ پوری انسانی آبادی کے لئے فلاحی کام ہورہے ہیں ۔ گوردوارہ پرہ بندھک بورڈ کی طرف سے فلاح و بہبود کے جو کام انجام دئے جاتے ہیں مسلم اداروں سے ان کا تصور بھی نہ کیا جاتا ۔ اس سے انکار نہیں کہ اسلامک یونیورسٹی کے علاوہ بنیادی تعلیم کے کچھ ادارے وقف بورڈ کے تحت کام کرتے ہیں ۔ لیکن ان اداروں پر دھاندلیوں اور ہیرا پھیری کے جو الزامات لگائے جاتے تھے وہ بے بنیاد نہیں تھے ۔ بلکہ یہاں بھی ایک مخصوص طبقے کے مفادات کا ہی خیال رکھا جاتا تھا ۔ عوام وقف بورڈ کی ان بدبختیوں سے تنگ آکر کافی متنفر نظر آتے تھے ۔ اب موجودہ انتظامیہ کی طرف سے درخشاں اندرابی صاحبہ کے زیر قیادت جس طرح کا نظام معرض وجود میں لایا گیا مفاد پرست طبقوں کو کسی طور ہضم نہیں ہوتا ۔
وقف بورڈ میں اصلاحات کے حوالے سے ایک اہم قدم اس وقت اٹھایا گیا جب زیارتوں پر کئی دہائیوں سے قابض مجاوروں کو وہاں سے ہٹایا گیا ۔ یہ مجاور کھلے عام زائرین کا استحصال کرتے تھے اور مبینہ طور لوٹ کھسوٹ میں بھی ملوث تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام الناس نے ایسے ناجائز تجاوزات ہٹانے پر راحت کا سانس لیا اور اس اقدام کو بڑے پیمانے پر پسند کیا گیا ۔ اس اقدام سے نہ صرف عوام کو کافی سہولت ملی بلکہ وقف آمدنی میں بھی اضافہ ہونے کا اندازہ ہے ۔ یہ قدم اٹھائے جانے کے موقعے پر بھی کئی طبقوں نے وقف سربراہ کی مخالفت کی ۔ لیکن عوام نے بحیثیت مجموعی اس کی تعریف کی ۔ وقف بورڈ کی طرف سے کئے جارہے اصلاحات کے حوالے سے تازہ بیان یہ سامنے آیا کہ مسجدوں کے لئے موذنوں اور اماموں کی بہتر تقرری عمل میں لائی جارہی ہے ۔ ان نشستوں کو سیاسی نقطہ نظر یا روایتی طریقے پر بھرتی کے بجائے میرٹ کی بنیاد پر پر کرنے کی تجویز سامنے لائی گئی ۔ اگر واقعی ان اسامیوں کے لئے قابلیت کی بنیاد پر تقرری کی جارہی ہے تو اس میں کیا غلط ہے ۔ سرینگر سے لے کر دوردراز کے علاقوں کی ہر مسجد میں اب بہترین قران خوان نماذ پڑھاتے ہیں ۔ ان مساجد سے جب اذان دی جاتی ہے تو دل میں سکون و سرور پایا جاتا ہے ۔ اب وہ زمانہ گزر چکا ہے جب ان پڑھ لوگ مساجد میں نماز کی قیادت کرتے تھے ۔ یہ بات کسی کو پسند نہیں کہ باپ دادا کی وراثت سمجھ کر ایسی جگہوں کو تحویل میں لیا جائے ۔ اب کوشش یہی رہتی ہے کہ بہتر امام و موذن موجود ہوں ۔ مساجد میں پڑھے لکھے نوجوان بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں ۔ ایسے نوجوانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ بہتر امام و موذن نماز کی قیادت کریں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ صوفیا کے مزار اور ایسی جگہوں پر واقع مساجد یا آستانے مسخروں کی نشست گاہیں نہیں ہیں ۔ یہ سادہ لوح عوام کو لوٹنے کی غرض سے تعمیر نہیں کئے گئے ہیں ۔ بلکہ یہاں سے جانے والا پیغام انسانیت کی فلاح و بہبود کا پیغام رہا ہے ۔ آج کل کے زمانے میں اس بات کی زیادہ ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ صوفیا کے پیغام کو عام کیا جائے ۔ یہ جب ہی ممکن ہے کہ ایسی جگہوں پر عالم و فاضل اور روحانیت سے روشناس افراد موجود ہوں ۔ اس تناظر میں اگر کوئی کوشش کی جائے تو طبقاتی کش مکش یا فرقہ وا ریت کی بنیاد پر اس کی مخاصمت نہیں ہونی چاہئے ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ بی جے پی کے دائرہ کار میں کام کرنے والے کارکنوں کی دینی معاملات میں مداخلت کو عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ ایسے میں کوئی بہتر پیغام بھی دیا جائے تو اس کو شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ بلکہ اس کی مخالفت ضروری سمجھی جاتی ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ لوگ ان کے پاس اپنے مسائل لے کر جاتے ہیں ۔ اس میں کوئی عیب نہیں ۔ کئی خانقاہوں کے لئے فنڈس بی جے پی لیڈروں کی طرف سے واگزار کرائے گئے ۔ قبرستانوں اور دوسرے مذہبی مقامات کے لئے فنڈس حاصل کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ پریشانی اگر ہے تو وقف بورڈ کے اصلاحات میں ۔ یہ صحیح سوچ نہیں ۔ بلکہ اس حوالے سے حقیقت پسندی سے کام لینا ضروری ہے ۔ دینی تقاضے بہر حال فوقیت کے حامل ہیں ۔ اس کے بعد وقف بورڈ اور عوام الناس کے مفادات کو مدنظر رکھنا ہوگا ۔ جہاں ایسی کوئی شکایت نہیں تو محض مخالفت برائے مخالفت پسند نہیں کی جانی چاہئے ۔ نئی نسل ایسی سوچ کی حمایت کرنے کو تیار نہیں ۔