تحریر:محمد اسد اللہ
۵ ستمبر ۸۸۸۱ کو مدراس کے ایک برہمن خاندان میں ایک لڑ کا پیدا ہوا ۔ اس کی والدہ کا نام ترومتی سیتا اور والد کا نام ویرا سوامی تھا ۔ ماں باپ نے اس بچے کا نام رادھا کرشنن رکھا ۔بڑے ہو کر رادھا کرشنن ایک عظیم فلسفی اور ماہرِ تعلیم کے طور پر مشہور ہوئے ۔ آ گے چل کر وہ ملک کے صدر بھی بنے ۔
ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد رادھا کرشنن کو مشن اسکول میں داخل کیا گیا ۔ اپنی ذہانت کے سبب وہ امتحان میں اچھے نمبرات حاصل کر لیا کرتے تھے ۔ انھوں نے اعلیٰ تعلیم ویلّور اور چینئی کے کالجوں میں مکمل کی ۔۸۰۹۱ میں فلسفے میں ایم۔ اے کا امتحان پاس کر کے وہ پریسیڈینسی کالج چینّئی میں پروفیسر بن گئے ۔ اپنی قابلیت ، سادہ مزاجی اور ملنساری سے وہ طلبہ کے دل جیت لیتے تھے ۔ جب ان کا تبادلہ میسور سے کلکتہ ہوا تو الوداع کہنے کے لیے طلبہ نے انھیں ایک رتھ پر سوار کیا اور اسے کھینچتے ہوئے ریلوے اسٹیشن تک لے گئے ۔ڈاکٹر رادھا کرشنن اپنے شاگردوں کی اس عقیدت اور محبت سے بہت متاثر ہوئے۔
ڈاکٹر رادھا کرشنن ایک کامیاب مدرس تھے اور مصنف بھی ۔ ان کی تصانیف اور مرتب کی ہوئی کتابوں کی تعدادڈیڑھ سوسے زیادہ ہے ۔طالبِ علمی کے زمانے میں ، ویدوں کی تعلیمات سے متعلق انھوں نے ایک کتاب لکھی،اس وقت وہ صرف بیس برس کے تھے ۔ ان کی یہ کتاب بہت مشہور ہوئی جسے پڑھ کر رادھا کرشنن کے پروفیسر نے انھیں ایک سند دی ۔ یہ ان کے لیے بڑا اعزاز تھا ۔ان کی ایک اور کتاب ” انڈین فلاسفی “ دنیا بھر میں مشہورہوئی ۔اسی بنیاد پرانھیں آکسفورڈ یونی ورسٹی میں مدعو کیا گیا تھا۔ اپنی تعلیمی لیاقت کی وجہ سے ۲۵۹۱ میں اس یونی ورسٹی کے اعزازی فیلو بنائے گئے ۔وہ پہلے ہندوستانی تھے جنھیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔
ڈاکٹر رادھا کرشنن ایک جادو بیان مقرر تھے ۔ وہ کئی زبانیں جانتے تھے ۔ فلسفے اور دیگر علوم پر ان کی گہری نظر تھی ۔انگریزی میں روانی کے ساتھ تقریر کی صلاحیت کے سبب برٹش اکیڈیمی نے انھیں تقریر کی دعوت دی۔ حکومتِ ہند کی جانب سے انھیں ۴۵۹۱ میں ہندوستان کے سب سے بڑے اعزاز ” بھارت رتن “ سے سر فراز کیا گیا ۔ ان کی علمی صلاحیتوں کے اعتراف میں دنیا کی سترہ یونی ورسٹیوں نے انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں سے نوازا تھا۔
ڈاکٹر رادھا کرشنن نے اپنی ساری زندگی علمی خدمات کے لیے وقف کردی ۔انھیں اپنے پیشے پر بڑا ناز تھا۔ وہ فخر سے کہا کرتے ، ” میں ایک مدرس ہوں “ ۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی پیدائش کے دن کو ’ یومِ اساتذہ‘ کے طور پر منایا جائے ۔ ان کی اس خواہش کے احترام میں ہمارے ملک میں ۵ ستمبر ۲۶۹۱ سے” یومِ اساتذہ “منایا جاتا ہے ۔ اس موقع پر مرکزی اور ریاستی حکومتیں مثالی مدرسین کا انتخاب کر تی ہیں اور انھیں انعامات سے نوازتی ہےں ۔
پنڈت جواہر لعل نہر نے رادھا کرشنن کی تعلیمی لیاقت کے پیش نظر انھیں روس کا سفیر مقرر کیاتھا۔ جب وہ روس پہنچے تو وہاں کے صدر اسٹالن خود ان سے ملاقات کے لیے آ ئے ۔ اسٹالن ڈاکٹر رادھا کرشنن کی شخصیت سے بہت متاثر تھے ۔ ایک مرتبہ اپنے ملک روس کی ترقی کو فخر سے بیان کرتے ہوئے اسٹالن نے ان سے کہا تھا، ” سائنس کی ترقی کی بنیا د پر ہمارا ملک آ پ کو یہ سکھا سکتا ہے کہ مچھلیوں کی طرح سمندر میں کیسے تیرا جائے اور پرندوں کی طرح آ سمان میں کیسے اڑا جائے ۔“ رادھا کرشنن نے جواب دیا ۔ ” اور ہمار املک آ پ کو یہ سکھا سکتا ہے کہ انسانوںکی طرح زمین پرکس طرح چلا جائے ۔ “
ڈاکٹر رادھا کرشنن روس سے رخصت ہونے لگے تو صدر اسٹالن رات کے ایک بجے ان سے ملنے آئے ۔ روس کے تمام افسر اور عوام اسٹالن سے ہمیشہ خوف زدہ رہتے تھے اور ہمیشہ ان سے دور رہنے کی کوشش کرتے تھے ۔ اس ملاقات کے دوران ڈاکٹر رادھا کرشنن نے بڑی شفقت اور محبت سے اسٹالن کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پیٹھ کو تھپتھپایا تو ان کی زبان پر بے ساختہ یہ الفاظ آ ئے ۔،” آ پ پہلے شخص ہیں جومیرے ساتھ ایک انسان کا برتاؤ کر رہے ہیں اور مجھے کوئی بھوت یا ظالم نہیں سمجھ رہے ہیں ۔ “
ڈاکٹر رادھا کرشنن آ زاد ہندوستان کے نائب صدر کے عہدے پر دو بار منتخب ہوئے ۔۲۶۹۱ میں انھیں ملک کا صدر بنایا گیا صدارت کے عہدے کی مدت پوری ہونے کے بعد وہ مستقل طور پرچینّئی میں رہنے لگے تھے ۔ ۷۱اپریل ۵۷۹۱ کو دل کی حرکت بند ہونے سے ان کا انتقال ہو گیا ۔
اپنے علم قابلیت اورخدمات سے ساری دنیا کو متا ثر کرنے والی اس شخصیت کے کارنامے یقینا ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔