تحریر:شری اتل کمار تیواری
جس انداز سے کام انجام دیا جاتا ہے، اس لحاظ سے ہم ایک زبردست عالمی تبدیلی کے درمیان ہیں، اس کا اظہار کئی پہلوؤں سے ہوتا ہے کیونکہ آئی آر 4.0 کی قوت سے کام کے مستقبل ، توانائی تغیر اور نئے عہد کی تکنالوجیوں کا اظہار ہو رہا ہے۔ یہ نئی تکنالوجیاں، کام کی جگہ اور افرادی قوت کی سطح پر تبدیلیاں لانے کا باعث ثابت ہو رہی ہیں۔ ہم مختلف شعبوں میں روزگار کے مرکب کے معاملے میں مثالی تبدیلیاں ملاحظہ کر رہے ہیں جن میں اعلیٰ سطحی حسیت اور سماجی۔جذباتی ہنرمندیوں کے تقاضے کے حامل نئے روزگار کے مواقع بطور خاص ابھر کر سامنے آر ہےہیں۔ تمام تر سماجی ۔اقتصادی دائروں میں کافی بڑے پیمانے پر امید اور تشکیک کی صورتحال پائی جاتی ہے جسے کام کے مستقبل کے ساتھ تطبیق کے عمل سے گزارنا ہوگا۔
اس پیمانے کے عالمی تغیر کے لیے عمیق گفت و شنید، غورو فکر درکار ہوگی اور جی20 جو 85 فیصد کے بقدر عالمی جی ڈی پی اور تقریباً دو تہائی عالمی آبادی کی نمائندگی کرتی ہے وہ کام کے مستقبل کے موضوع پر تبادلہ خیال کے لیے مناسب پلیٹ فارم ہے کیونکہ اس کے تمام تر اقتصادی او رسماجی زاویے اس کا احاطہ کرتےہیں۔ جی 20 جس لائحہ عمل کے ساتھ سامنے آسکتی ہے یعنی عالمی فلاح و بہبود کے لیے تکنالوجی کو جس انداز میں بروئے کا رلا سکتی ہے، اس میں مختلف ممالک کی جانب سے امدادی قوتیں فراہم کرنی ہوں گی تاکہ کام کے مستقبل سے ابھرکر سامنے آنے والے رجحانات کا انتظام ممکن ہو سکے۔ بھارت کی جی 20 صدارت نے جی 20 ہنرمندیوں کی حکمت عملی کو ایک سمت عطا کی ہے اور اس کے متعلقہ پہلوؤں کو صلاحیت سازی، تاحیات سیکھنے اور نگرانی کے لیے تیار کیا ہے۔ یہ تبادلہ خیالات کا ایک اہم عنصر ہوگا، اس طرح منعقد ہونے والی گفت و شنید کی افادیت مکمل دنیا کے لیے نافذ العمل ہوگی۔ یہ جی 20 کو ایک موقع فراہم کرتی ہے اور صرف اسے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو ایک موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ تعلیمی اور تربیتی نظام کی تشکیل نو کر سکے تاکہ سیکھنے والوں کو ضروری ہنرمندیوں سے آراستہ کیا جا سکے تاکہ وہ زندگی کے تقاضوں پر پورا اتر سکیں، سماج کو اپنا تعاون دے سکیں اور ابھرتی ہوئی روزگار منڈیوں میں اپنا مقام حاصل کر سکیں۔
کام کے مستقبل کے چند کلیدی امکانات اور مظاہر تیز رفتار تکنالوجیوں رخنہ اندازیوں کی شکل میں سامنے آرہے ہیں جو ہمارے چاروں طرف برپا ہو رہی ہیں، ان میں آٹو میشن ، بگ ڈاٹا، مصنوعی انٹیلی جینس اور دیگر تکنالوجیاں شامل ہیں، جہاں ایک جانب اس نے پیداواریت میں مثالی نمو کا راستہ ہموار کیا ہے، ساتھ ہی ساتھ اس نے دائرہ امکان، سائز اور مستقبل میں روزگار کی منڈی کی شمولیت سے متعلق سوالات بھی ابھارے ہیں۔ پوری دنیا میں آبادی میں جو موڑ آرہے ہیں ان میں سے چند سرکردہ معیشتوں کے بارے میں اندازہ ہے کہ ان کے یہاں کام کاج کے لائق آبادی 2050 تک 25 فیصد سے کم ہوگی۔ یہ چیز انتباہ دے رہی ہے، تعلیم اور لیبر ورکنگ گروپ کے موضوع پر جی 20 میں منعقد ہونے والی گفت و شنید دراصل چند شعبوں میں رونما ہونے والی اہم پیش رفت سے مملو تھی، ان میں اجتماعی جی20 ہنرمندی حکمت عملی کے نفاذ کے اشاریے شامل تھے اور اس کے بارے میں تصور کیا گیا تھا کہ یہ تعلیم اور تدریس کے شعبوں میں اصلاح کرے گی اور سامنے آنے والے نتائج اسکول کی سطح پر بھی نافذ ہوں گے اور انہیں ٹی وی ای ٹی میں بھی بروئے کار لایا جائے گا۔
قومی تعلیمی پالیسی 2020 تمام سطحوں پر ہر طرح کے سقم سے پاک قرض کے اجتماع اور تبدیلیوں، پیشہ وارانہ سے لے کر عام تعلیم اور اسی انداز سے ایک دوسرے کے بالمقابل دیگر پہلوؤں کے ساتھ اور پورے تعلیمی نظام میں ہنرمندیوں اور بنیادی ڈھانچہ پر مبنی ہنرمندی کے توسط سے ایک میکنزم کے ذریعہ پیشہ وارانہ تعلیم میں تمام ہنرمندیوں کو یکجا کرنے کا ایک فریم ورک فراہم کرتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہنرمندی سے متعلق بنیادی ڈھانچہ جو مختلف النوع وزارتوں ، محکموں ، ریاستوں کے تحت آتا ہے، انہیں بھی مربوط کرنے کی بات کرتی ہے۔ اس کا مقصد سیکھنے سکھانے کے عمل کو زیادہ سے زیادہ عملی پہلوؤں سے آراستہ کرنا، مربوط بنانا اور اس کے اندر روزگار حاصل کرنے کی خوبیاں پیدا کرنا ہے۔ اس کے تحت یہ انتظام بھی کیا گیا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام اور ہنرمندی سے متعلق ادارے ایسے افراد تیار کر سکیں جو معیشت اور روزگار کی منڈی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کر سکیں اور ان کے اندر درکار لچک موجود ہو۔
کام کے مستقبل کے لیے افرادی قوت کی تیاری ایک کثیر زاویہ جاتی اور کثیر پہلوئی شراکت داری پر مبنی ذمہ داری ہے۔ دائرہ کار اور ثقافتی ہنرمندیوں کے علاوہ تعلیم-ہنرمندی ایکو نظام میں خلاقیت کی ہنرمندیاں بھی شامل کی جانی چاہئیں۔ اس میں مسائل کو حل کرنے اور تجزیہ جاتی انداز فکر بھی طلبا میں پیدا کیا جانا چاہئے تاکہ وہ نئے عہد کی معیشت کے لیے تیار ہو سکیں۔ ہم اکثر و بیشتر مشاہدہ کرتے ہیں کہ فعال ہنرمندی جائزہ درکار ہے اور مینوفیکچرنگ اور خدمات دونوں شعبوں میں اس کی ضرورت ہے کیونکہ آٹومیشن کاروباری پیمانے پر تبدیلیاں لاتا ہے اور صارفین کے ساتھ ربط ضبط کرنے کے طریقے بھی اس سے متاثر ہوتےہیں۔ ہنرمندی بنیادی ڈھانچہ اس امر کا بھی متقاضی ہوگا کہ اسے لائق تبادلہ روزگار فراہم کرنے والی ہنرمندیوں پر افزوں طور پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے متعلقہ دنیا کی تفہیم کے فلسفے سے بھی جوڑا جائے۔ ہمیں تمام تر مقامی/ضلعی، ریاست اور قومی سطح کے شراکت داروں کو نفاذ کے شراکت داروں کی حیثیت سے ان کی صلاحیت میں اضافے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے اور صحیح معنوں میں لفظی اور عملی طور پر تغیر کے نفاذ میں ہنرمندی کی تحریک جاگزیں کرنی چاہئے۔ تکنالوجیوں کے ساتھ، کام کا مستقبل اس بات کا بھی متقاضی ہے کہ شمولیت سازی کے لیے نئی کوششیں کی جائیں اور سماجی چنوتیوں مثلاً لیبرفورس میں خواتین کی شراکت داری، محروم طبقات میں ہنرمندی تک رسائی حاصل کرنے کے پہلو، ایسے جغرافیائی علاقوں پر توجہ جہاں ہنرمندیاں بہم پہنچائی جانی ضروری ہوں، اور ایسے طبقات کو مدد بہم پہنچانا جو نئی معیشت کی مشکلات کی وجہ سے اہم دھارے میں نہیں آسکتے ، ان تمام مسائل کو بھی اس کے تحت زیر غور لایا جانا چاہئے۔
بھارت کی قیادت میں گلوبل ساؤتھ نے اپنی تعلیمی ہنرمندیوں کےنظام کو کام کے مستقبل کے لیے ضروری اصلاحات سے ہمکنار کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ہے، اس نے فطری طور پر اشتراک اور مختلف ممالک کے مابین موبیلٹی کے معاون مواقع کا ایک پورا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور یہ تمام کام جی20 ممالک کے تحت ہونے ہیں جنہیں برعکس آبادی اور اقتصادی چنوتیوں کا سامنا ہے۔