تحریر:سید بشارت الحسن
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ والدین ایک بچے کو جنم دیتے ہیں اور ایک استاد اس بچے کو یعنی ایک آدمی کو انسان بنانے میں اپنا قلیدی کردار ادا کر تا ہے۔ایک استاد ایک باغ کے مالی کی طرح آبیاری کرتا ہے، تب جا کر ایک آدمی ایک انسان بنتا ہے۔ وطن عزیز کے سائنس دان اس وقت چندریان 3کے مشن کو کامیاب کر کے اور سورج کی جانب قدم بڑھا کردنیامیں اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔ان سائنسدانوں کی کامیابی کے پیچھے یقینا ان کے اساتذہ کی ہی محنت ہے۔ وطن عزیز کو ایٹمی قوت بنانے والے میزائل مین نے بھی اساتذہ کی بے حد تعریف کی ہے اور اساتذہ کی محنت کو انہوں نے ہمیشہ سلام کیا۔ آج کے اس دور میں ہم جہاں ڈیجیٹلائزیشن کی جانب بڑھ رہے،انقلاب برپا کر رہے ہیں تو اس ساری کامیابی کے پیچھے ایک استاد کی ہی محنت ہے۔یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ مدرس قوم کی بنیاد کا معمار ہوتا ہے۔ جموں وکشمیر میں اساتذہ اپنی کاوشوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ دور دراز اور پسماندہ علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے امیدوار یو پی ایس سی میں سرخروئی حاصل کر کے اپنے اساتذہ کا نام روشن کر رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کے بعد قومی تعلیمی پالیسی بنائی گئی جس کی وجہ سے تعلیمی میدان میں کئی انقلاب بھی آئے۔آج ہمارے ملک کے تعلیمی میدان کے چرچے عالمی سطح پر ہو رہے ہیں۔سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جب اپنی اہلیہ کے ساتھ ہندوستان دورے پر آئے تھے،تو انہوں نے دہلی کے ایک اسکول میں جانے کی خواہش کی جوہمارے تعلیم نظام کی بہتر عکاسی کرتا ہے۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہندوستان نے تعلیمی میدان میں مایا ناز ہستیاں پیدا کیں اور تعلیمی انقلاب نے یہاں ایک انقلاب برپا کر دیا۔آج ہم زوجیلا میں ٹنلوں کی تعمیر میں مشغول ہیں،سیاچن میں ہماری افواج سرحدوں کی حفاظت کر رہی ہیں۔چندریان مشن کامیابی کے ساتھ چاند کے جنوبی قطب پر لینڈ ہوچکاہے،بلند و بالائی علاقہ جات میں شاہراہیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ان سب کے پیچھے ہماری جدید ٹیکنالوجی ہے اور اس ٹیکنالوجی کے پیچھے استاد کی محنت ہے۔
جموں و کشمیر میں لگ بھگ دو دہائیوں قبل آ ر ای ٹی اسکیم کا نفاذ ہوا اور گاؤں،پنچائت سطح پر اساتذہ کی تعیناتیاں ہوئیں۔اسکول کھل گئے، تعلیم کا دور دورہ شروع ہوا گیا۔کئی برسوں تک اس اسکیم کے تحت تعیناتیاں ہوتی رہیں اور ہمارے دور دراز کے علاقہ جات میں استاد اسکولوں میں طلباء کے تعلیمی سفر کو لیکر رواں دواں ہو گئے۔اس دور میں انہوں نے مشکلات کا سامنا بھی کیا اور کم اجرتوں پر اپنے فرائض منصبی انجام دئے۔گویا انہوں نے قوم کی بنیاد بنانا شروع کر دی۔جموں وکشمیر میں آر ای ٹی اساتذہ نے اپنے معاملات و مسائل کو لیکر کئی احتجاج بھی کئے اوراپنی قوم کی خدمات انجام بھی دیتے رہے۔یہ وہی آ ر ای ٹی اساتذہ ہیں جنہوں نے اوائل میں پندرہ سو روپئے ماہانہ پر اپنی خدمات انجام دیں،احتجاج کئے، ڈنڈے بھی کھائے،آنسو گیس بھی دیکھی،سردی گرمی،دھوپ بارش یعنی ہر حال میں انہوں نے اپنی خدمات انجام دیں۔ آج بھی یہ اساتذہ جموں وکشمیر انتظامیہ سے ٹرانسفر پالیسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔پرائمری اور مڈل اسکولوں میں آر ای ٹی اساتذہ کی اکثریت ملتی ہے جنہوں نے آر ای ٹی کے تحت اپنی خدمات کا آغاز کیا تھا۔کہیں پرائمری میں ایک اور کہیں مڈل میں دو ہی اساتذہ پورے اسکول کے تعلیمی سفر اور قوم کے مستقبل کو لیکر رواں دواں ہیں۔انہیں صرف پڑھانے لکھانے کا کام ہی نہیں بالکہ انہیں مڈ ڈے میل انچارج، بی ایل او،سروے اور کئی کاموں میں اپنی خدمات انجام دینا پڑتی ہیں لیکن یہ قوم کے مستقبل کو اپنے ہاتھوں میں تھامے اپنی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جموں وکشمیر میں آر ای ٹی اسکیم بے حد کامیاب ہوئی۔ تعلیمی میدان میں آر ا ی ٹی اسکیم نے گویا ایک انقلاب لایا کیونکہ کئی اسکول اس اسکیم کے بعد آباد ہوئے۔
بے روزگاری کے مسائل کا سامنا کرنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں نے اُس وقت آ رای ٹی اسکیم کے تحت نوکریاں حاصل تو کر لیں لیکن ان کے پروان چڑھتے مستقبل پر ایک بریک ضرور لگ گئی۔یہ تعلیم یافتہ استاد، ایم اے،بی ایڈ، ایم فل جیسی ڈگریاں حاصل کر کے ایک پرائمری اور مڈل اسکول تک محدود رہ گئے۔ان کیلئے کوئی خاص ٹرانسفر پالیسی بروئے کار نہیں لائی گئی جس کا آج بھی یہ جموں وکشمیر انتظامیہ سے مطالبہ کر رہے ہیں۔قارئین میں کئی ایسے اساتذہ کو جانتا ہوں اور ہر روز انہیں اسکول جاتے دیکھتا ہوں جو ماسٹرز اور ایم فل کی ڈگریاں رکھتے ہیں اور پرائمری اسکولوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک ہی جگہ کئی برس جانے سے یا خدمات انجام دینے سے انسان کا من مایوس ہو جاتا ہے۔اسے اسکول جانے میں مایوسی ہوتی ہے۔اسکول جانے کا من نہیں کرتا،اسکول چلے بھی گئے تو جی جان سے کام کرنے کا من نہیں کرتاکیونکہ ہرروز انہیں وہی سب کچھ دیکھنا اورسننا پڑتا ہے جو وہ قریباً دو دہائیوں سے سن رہے ہیں۔ اسلئے ٹرانسفر پالیسی کے مطالبے پر انتظامیہ کو بروقت اقدامات کرنے چاہئے۔اساتذہ کے تبادلے کرنے سے ان کے معیار میں بہتری آتی ہے۔انہیں نئے اسکول میں نئی جگہ پر نئے لوگوں کے ساتھ کام کرنے میں خوشی محسوس ہوتی ہے اور کام معیار کا بھی ہوتا ہے۔اگر اس وقت جموں وکشمیر انتظامیہ ان اساتذہ کیلئے کوئی موثر پالیسی بناتی ہے تو یقینا تعلیمی معیار میں بہتری آئے گی۔
جموں وکشمیر میں جب آرای ٹی اسکیم کا نفاذہوا تو اس دوران کئی خواتین اساتذہ بھی تعینات ہوئیں لیکن ان اساتذہ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان میں سے وہ خواتین اساتذہ جن کی شادیاں تعیناتی کے بعد ہوئی انہیں ٹرانسفر پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اسکولوں میں اپنی خدمات انجام دینا پڑی جہاں وہ تعینات ہوئی تھیں۔ایسے میں یہ سوچنا لازمی بن جاتا ہے کہ آخر وہ خواتین اساتذہ اپنی زندگی کو کیسے چلا رہی ہیں اور ان اسکولوں میں تعلیمی سفر کیسا ہے؟دوسری جانب کئی اسکولوں میں ماسٹرس کی کمی بھی کسی مصیبت سے کم نہیں ہے کیونکہ ماسٹرس زیادہ تر مڈل اور ہائی اسکولوں میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں جہاں اساتذہ کے تبادلے اور سبکدوشیاں ہوئی ہیں وہاں ماسٹرس کی کمی بھی ہوئی۔ایسے میں کسی حد تک یہ لازمی بن جاتا ہے کہ ٹیچرس کی پرموشن کر کے ماسٹرس کی اسامیوں کو پر کیا جائے۔خیر یہ اساتذہ جو قوم کے معما ہیں اپنی خدمات ہر حال میں انجام دیتے ہیں۔سلام ہو اساتذہ کی محنت پر۔
قارئین ماضی قریب میں جب جموں وکشمیر میں اتحاد ی حکومت تھی تب اس وقت کے وزیر تعلیم نعیم اختر نے آر ای ٹی اساتذہ کا امتحان لینے کی بات کی تھی۔بعد ازاں جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر تعیناتیاں اور سرفرازیوں کا سلسلہ بھی منظر عام پر آیا تھا۔ حال ہی میں کرائم برانچ نے راجوری میں جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر تعینات فزیکل ٹیچروں کا پردہ فاش کیا ہے۔سماج اور اساتذہ بھی اس حق میں ہیں کہ جو لوگ جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر کرسیوں پر براجمان ہوئے ہیں ان پر کاروائی ہونی چاہئے کیونکہ ایسے لوگ قوم کے مستقبل کو تاریک کررہے ہیں۔اساتذہ کی جتنی بھی تعریف کی جائے تو کم ہوگی کیونکہ اساتذہ کی وجہ سے آج وطن عزیز چاند پر اپنے جھنڈے گاڑھ رہا ہے۔اس لئے انتظامیہ اوربرسر اقتدارلوگوں کو اساتذہ کے مسائل پر خصوصی توجہ دینی چاہئے تاکہ قوم کا مستقبل بنانے والے ان اساتذہ کو پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اپنے مسائل و مطالبات کو لیکر ماضی کی طرح سڑکوں پر احتجاج نہ کرنے پڑیں کیونکہ یہ قوم کا مستقبل بنانے والے اساتذہ اسکول کی کرسی پر زیادہ خوبصورت لگتے ہیں۔مدرس قوم کی بنیاد کا معمار ہوتاہے۔مدرس قوم کے اخلاق کا مینا ر ہوتا ہے۔(چرخہ فیچرس)