تحریر:منظور الہٰی
سنہ 1991 کو ‘گجروں اور بکروالوں کی۔ تعلیمی، معاشی، معاشرتی و دیگر شعبہ جات میں کافی پسماندی کو دیکھ کر اُس وقت کی حکومت نے اس قبیلے کو ہندوستان کے درج فہرست قبائل کے طور پر قرار دیا، اور بعد میں 1996 میں، انہیں 10 فیصد ریزرویشن دی گئی۔ "مرکزی حکومت کا فیصلہ جموں و کشمیر میں گجر/بکروال برادری کو بااختیار بنانے کا یہ ایک تاریخی اقدام تھا، جموں کشمیر میں گجر بکروال لوگ پسماندہ اور بچھڑا ہوا طبقہ ہے گجر بکروال برادری قبائل کا مجموعہ ہے اور ایک عظیم پرانی برادری ہے۔ اس کی اپنی شناخت، رسم و رواج اور زندگی کا ایک منفرد انداز ہے۔ گوجر بکروال برادری کی ضروریات اور مسائل ریاست جموں و کشمیر کی دیگر برادریوں سے بالکل مختلف ہیں۔ گوجر بکروال کی زبان اور ثقافت مختلف ہے اور اس طرح کی کمیونٹی کی ایک الگ شناخت ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کی گوجر بکروال برادری سماجی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی طور پر پسماندہ ہے۔ گجر پورے ہندوستان میں پائے جاتے ہیں۔ جموں و کشمیر میں، گجر بکروال برادری جموں و کشمیر ریاست کے تقریباً بیس اضلاع میں آباد ہے۔ شاندار ماضی اور بھرپور روایت کے باوجود گوجروں کو پسماندہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ معاشی طور پر کمزور ہیں اور ان کی شرح خواندگی بہت کم ہے۔ اپنے حالاتِ زندگی کی وجہ سے وہ بنیادی سہولیات کے دائرے میں نہیں آتے اور بیرونی اثرات سے محفوظ رہتے ہیں۔ مویشی ان کی معیشت کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ چونکہ ان میں سے زیادہ تر خانہ بدوش ہیں اور ان کی اپنی کوئی زمین نہیں ہے، اس لیے وہ مویشیوں اور اس کی پیداوار پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ اگرچہ حکومت نے ان کی بہتری کے لیے بہت اچھا کام کیا ہے لیکن معاشی طور پر وہ اب بھی بہت پیچھے کھڑے ہیں
کشمیر کے بالائی علاقوں میں رہنے والے یہ لوگ آج کے دور میں بھی کوٹھوںاور جھونپڑیوں میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ اپنے مال مویشی کُھلے سر سبز میدانوں میں چُراتے ہیں ۔ ان لوگوں کی کمائی کا سہارا مال مویشی پر ہی منحصر ہے۔ یہ لوگ بھیڑ، بکریاں اور بھینسیں چَرا کر اِن سے دودھ حاصل کرتے ہوئے اپنی روز مرہ کی زندگی کاگزر بسر کرتے ہیں۔ یہ پسماندہ ضرور ہیں لیکن پُر امن زندگی بسر کرنے والے لوگ ہیں۔ان قبیلوں کے رسم و رواج صدیوں سے چلے آرہے ہیں، ان کی زبان، تہذیب و تمدن، ثقافت و دیگر رسم و رواج پہلے کی طرح آج بھی اپنی آن، بان اور شان کے ساتھ زندہ جاوید ہیں ۔جن سے وہ اپنی منفرد پہچان برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ ان کا پہناوا اور بول چال باقی قبیلوں سے بالکل ہی الگ ہے۔ مرد قمیض شلوار و پھڑی پہنتے ہیں اور لمبی داڑھی رکھتے ہیں۔ جب کہ عورتیں قمیض و شلوار اور گوجری ٹوپی کے ساتھ چاندی کے زیورات پہنتی ہیں ۔وہاں ہی اس طبقے کے لوگ ابھی بھی کئی کئی کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد کسی گاڑی کا دیدارکر پاتے ہیں۔بارش ہو، برف باری ہو، آندھی ہو، طوفان ہو ہر جگہ اس طبقے پر عتاب ٹوٹتا رہاہے۔ دوران سفر اپنے مال مویشیوں کو پیدل سڑکوں پر لے کرچلتے ہوئے کئی بار یا تو خود یا مال مویشی گاریوں کی زد میں آ کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوہساروں اور صحراؤں سے گزرے ہوئے بھی پیر پھسلنے سے گر کر جانوں کا زیاں ہوتا ہے۔ ندی نالوں اور دریاؤں سے گزرتے ہوئے بھی اچانک آئے سیلابوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔دوران سفر ادویات کی کمی اور خوراک کی کمی سے بھی جوجھنا پڑتا ہے۔ ان کی اس پسماندگی کو دیکھ کر اور ایک لمبی لڑائی لڑ کر اْس وقت کی گورنمنٹ سے انہیں شیڈول ٹرائپ کے خاس زمرے میں لایا گیا تھا جو کہ موجودہ حکومت کو ہضم نہیں ہوتا اور %10 ریزویشن جس میں پہلے سے ہی بلتی، گدی، سیپی، چنگپا، بیڈا وغیرہ شامل ہیں اور اس میں تین بڑی قوموں کو شامل کرنا چاہتے ہیں جو کہ اس قبیلہ کے ساتھ نا انصافی ہے اسی لیے گجر بکروال نوجوانوں کی جانب سے سرینگر کی شیر کشمیر پارک میں وادی کے مختلف اضلاع سے گجر آبادی کے لوگ اتوار کے روز جمع ہوئے اور مہا جرگا کا انعقاد کیا۔ اس جرگے میں مرکزی سرکار کو متنبہ کیا کہ پہاڑی ریزویشن بل کو واپس لیا جائے 17 ستمبر کو سرینگر کے شیر کشمیر پارک میں گجر بکروال قوم کی جانب سے ایک عظیم مہا پنچائت کا انعقاد کیا گیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ حکومت ہند کی جانب سے پہاڑی برادری کو ایس ٹی کا درجہ دینے کے بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت کے اقدام کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ یہ جموں و کشمیر کی تیسری سب سے بڑی برادری (گجر اور بکروال) کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اس لیے ایک مہاپنچایت کا انعقاد کیا گیا تھا ادھر اس مہاپنچایت میں شرکت کرنے والے گجر بکروال لوگوں کی کشمیر کے ہر ایک ضلع سے سینکڑوں کی تعداد میں شیر کشمیر پارک کے اندر جمع ہوئے تھے وہاں ہی اس موقع پر گجر بکروال نوجوانوں کی جانب سے سرکار کو اس بات کی اگاہی دلائی کہ اس کمیونٹی کے ساتھ انصاف نہ ہوا اور ہم احتجاج جاری رکھے گے اور آنے والے وقت میں مزید لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ "ہم اس ناانصافی پر خاموش نہیں بیٹھیں گے،” انہوں نے مزید کہا کہ پہاڑی گوجروں کی طرح معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ نہیں ہیں۔ اور اس طرح کی مہاپنچایت جموں اور پونچھ رجوری میں بھی کریں گے گجروں کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثریت کا تعلق اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں سے ہے، اور وہ حکمران امیر طبقے کے طور پر رہے، اور اگر انہیں ST کا درجہ دیا جاتا ہے، تو گجر متاثر ہوں گے اور انہیں مستقل غربت کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ گجروں کی طرف سے شروع کیے گئے احتجاج میں، وہ حکومت سے بل کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔جموں کشمر. کئی بڑے سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ گجر اس ظلم کو قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا”ہم حکومت ہند کو بتانا چاہتے ہیں کہ قبائلی برادری نے ہمیشہ ترنگے کے لیے قربانیاں دی ہیں، یہاں تک کہ عسکریت پسندی کے عروج کے وقت بھی۔ آج جب ہم اپنے حقوق کے تحفظ کی کوشش کر رہے ہیں تو آپ ہم پر ملک مخالف نعرے لگانے کا الزام لگا رہے ہیں”۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بل کے خلاف احتجاج کرنے والے گجر رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ "لیکن ہم ڈرنے والے نہیں ہیں، غور طلب ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں کشمیر کے دورے کے دوران مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ پہاڑی طبقے کو ریزویشن دی جائے گی لیکن اس ریزرویشن سے گجر بکروال کا ایک فصید کم نہیں کیا جائے گا تاہم گجر آبادی اس سے مطمئن نہیں ہوئے پہاڑی آبادی کو نوکریاں اور دیگر معاملات چار فیصد ریزرویشن پہلے سے ہی تھی لیکن اب ان کا مطالبہ درج فئرست طبقہ کا ہے جو اب منظور ہوا ہے تہم اس فیصلے سے گجر اور پہاڑی آبادیوں کے مبین تلخیاں بڑھ گئی ہیں کیونکہ گجر ابادی کا کہنا ہے کہ پہاڑی کوئی طبقہ یا قبیلہ نہیں ہے اور یہ ابادی محض زبان پر قبیلے کے درجے کے مستحق نہیں ہے جموں کشمیر میں نئی حد بندی کے درج فہرست طبقوں کے لیے نو اسمبلی حلقے مختض کیے گئے ہیں یعنی ان پر صرف اسی طبقہ کے لوگ انتخابی میدان میں امیدوار ہوں اور جنرل درجے کے لوگ ان سیٹوں پر محض ووٹ ڈال سکتے ہیں لیکن الیکشن میں بطور امیدوار نہیں کھڑا ہوسکتے ہیں جموں کشمیر میں راجوری پونچھ بارہمولہ اور کپواڑہ کی نو اسمبلی نشتوں میں گجر بکروال پہاڑی آبادی مقیم ہے گجر بکروال کا استدلال ہے کہ پہاڑی برادری کی مختلف ذاتیں ہیں اور اگر یہ بل منظور ہوتا ہے تو جموں و کشمیر میں قبائلیوں کی فہرست میں مزید 300 ذاتیں شامل ہو جائیں گی۔ کشمیری مسلمانوں، ڈوگرہ ہندوؤں، سکھوں اور پہاڑی بولنے والوں اور پہاڑی گروہ کی ذاتیں ایک ہیں۔ یہاں تک کہ پہاڑی اور ڈوگری زبانیں بھی ایک ہی ہیں۔ یہ بل پورے جموں و کشمیر کو گوجروں، بکروالوں، گڈیوں، سپیوں اور درد قبائل کی قیمت پر ایک قبائلی ریاست بنا دے گا۔امید کریں گے کہ مرکزی سرکار گجر بکروال قبیلے کے ساتھ نا انصافی نہیں کرے گا