تحریر:عادل قریشی
جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کا کہنا ہے کہ اگر لوگوں کی رائے جاننے کے لیے سروے کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ 80 فیصد آبادی ان کی انتظامیہ کے کام سے خوش ہے اور اس نظام کا تسلسل چاہتی ہے۔ان کے مطابق باقی 20 فیصد ناخوش ہیں کیونکہ اب انہیں بدعنوانی اور دیگر بددیانتی میں ملوث ہونے کا کوئی موقع نہیں ملتا۔ تاہم، کچھ قائدین نے ان کے خیال سے اختلاف کیا اور دعویٰ کیا کہ یہ اسمبلی انتخابات میں تاخیر کا جواز ہے۔نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے زشتہ دنوں ہندوارہ اخباری نمائندوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایل جی صاحب کی مبینہ سروے سہی ہے تو بہتر ہے کہ یہاں اسمبلی الیکشن کرائے جائیں اور اگر 80 فیصد لوگ ووٹ دینے نہیں آئیں گے تو ان کے کہنے کی تصدیق ہو جائے گی۔ پیپلز کانفرنس کے لیڈر عمران رضا انصاری نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ میں اس خفیہ 80 فیصد سروے سے حیران ہوں۔ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے بیان سی کیا ہم یہ اخذ کریں کہ کیا اب جموں و کشمیر کے بدلے ہوئے ماحول میں اسمبلی انتخابات کی اہمیت ختم ہو گئی ہے؟ اگر ہم ماضی کے اسمبلی الیکشنوں پر نظر ڈالیں تو اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات کا انعقاد مرکزی حکومت کے لیے ہمیشہ ترجیحات میں شامل رہا ہے۔اس بات سے بھی انکار نہیں کہ یہاں پر اسمبلی الکشن کی اہمیت نہ صرف 1990 کے بعد بڑھ گئی بلکہ ان کی اہمیت 1947 کے بعد کے پہلے الیکشن سے ہی رہی ہے۔سیاسی پارٹیوں کی شرکت اور زیادہ فیصد ووٹنگ قومی سطح پر یا عالمی سطح پر یہ پیش کرنے میں بہت کارآمد ثابت ہوتی تھی کہ جموں و کشمیر کے لوگ بھارت کے ایک اٹوٹ انگ کے طور پر ہے اور الیکشن کے ذریعے وہ اس بات کی بار بار تصدیق کر رہے ہیں۔ 1996 کے الیکشن سے لیکر 2014 کے اسمبلی الیکشن کی اہمیت کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی اور مرکزی سرکار ان الیکشن کو لوگوں کی طرف سے دہشت گردی،موت اور تباہی کو مسترد کرکے امن، ترقی اور جمہوریت کی راہ پر ان کے گامزن ہونے کے ایک ثبوت کے طور پیش کر رہی تھیں۔ تاہم اب بدلے ہوئے منظر میں ایسا لگتا ہے کہ اسمبلی انتخابات ہی عوام کے مزاج کی عکاسی اور اندازہ لگانے کا واحد اشارہ نہیں ہیں۔ حکومت کے پاس اس وقت دستیاب کچھ دیگر اہم اشارے پنچایتوں، شہری لوکل باڈیز ، بلاک ڈیولپمنٹ کونسل ( اور ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کونسلز کے انتخابات ہیں، پتھراؤ کے مکمل خاتمے سمیت صورتحال میں نمایاں بہتری اور ہرتال یا بند، سیاحت کے شعبے میں مثبت کامیابی، ترقیاتی منصوبوں کا آغاز اور تکمیل اور کچھ ماہ قبل سری نگر میں سیاحت سے متعلق جی 20 کے ورکنگ گروپ کی میٹنگ کا کامیاب انعقاد شامل ہے۔مرکزی حکومت اسمبلی انتخابات کی اہمیت سے انکار نہیں کر رہی ہے اور یہ کہتی رہتی ہے کہ وہ انتخابات کے لیے تیار ہے لیکن اس کی کال الیکشن کمیشن آف انڈیا کو لینا ہوگی۔اس کے ساتھ ہی، حکومت اس بات پر روشنی ڈال رہی ہے کہ کس طرح پنچایت، یو ایل بی، بی ڈی سی اور ڈی ڈی سی انتخابات کے ذریعے نچلی سطح پر عام آدمی کو جمہوری طریقے سے بااختیار بنایا گیا۔ ہزاروں عوامی نمائندے اپنے اپنے علاقوں کی ترقی کے لیے فیصلہ سازی میں براہ راست شریک ہیں۔ ایل جی کا یہ کہنا ہے کہ بنیادی سطح کی جمہوریت کے ذریعے عام لوگوں کو بااختیار بنانے کی پچھلی حکومتوں کا منفی رحجان رہتا تھا اور صرف اسمبلی انتخابات کو ترجیح دی جا رہی تھی تاکہ دو سیاسی خاندان عبداللہ اور مفتیوں کے علاوہ گاندھیوں (کانگریس) کو جموں اور کشمیر میں سیاسی اقتدار مل سکے۔جموں و کشمیر کی علاقائی سیاسی پارٹیوں کا کہنا ہے کہ اگر پنچایت، یو ایل بی، بی ڈی سی اور ڈی ڈی سی کا ہونا یہاں وقت پر اسمبلی انتخابات نہ کرانے کا جواز ہے تو پھر ملک کے دیگر حصوں میں اسمبلی انتخابات کیوں کرائے جا رہے ہیں جن میں پنچایتیں، یو ایل بی وغیرہ بھی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ انتخابات میں تاخیر جموں و کشمیر کے لوگوں کو اپنی پسند کی حکومت منتخب کرنے کے حق سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ بی جے پی کو اندیشہ ہے کہ وہ انتخابات میں ہار جائے گی، اس لیے انتخابات میں تاخیر کر رہے ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی کا کہنا ہے کہ وہ اکثریت حاصل کرنے اور اگلے وزیر اعلی کے طور پر اپنے لیڈر کو حاصل کرنے کے لئے پراعتماد ہے۔ماضی میں مرکزی حکومت اس بات کی پرواہ نہیں کرتی تھی کہ جموں و کشمیر میں کون سی پارٹی اقتدار میں آتی ہے کیونکہ اس کی بنیادی ترجیح اسمبلی انتخابات کا انعقاد اور لوگوں کی وسیع تر شرکت تھی۔ لیکن اب بی جے پی قیادت کا خیال ہے کہ جموں و کشمیر میں ماضی میں ان جماعتوں کی حکمرانی نے بدانتظامی، بدعنوانی اور اقربا پروری کو جنم دینے کے علاوہ دہشت گردی کے رجحانات کو جنم دیا تھا۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی و ریاستی قیادت کو لگتا ہے کہ اگر مرکز اور دیگر ریاستوں میں ان کی پارٹی حکومت میں آ سکتی ہے تو جموں و کشمیر میں کیوں نہیں؟۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جموں کشمیر میں پارٹی کو بڑے پیمانے پر مضبوط کرنے اور عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پارٹی لیڈروں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی کوششوں میں کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں اور جموں سے ساتھ ساتھ کشمیر میں بھی لوگوں کی طرف سے انتخابات میں حمایت کے لیے پر امید ہیں۔ بی جے پی لیڈروں کا کہنا ہے کہ مرکز میں ان کی حکومت اور لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی انتظامیہ نے مجموعی صورتحال اور ترقی کے محاذ پر انقلابی تبدیلی لائی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پتھراؤ مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے اور اسی طرح ہرٹال یا بند اور دہشت گردی کا تقریباً صفایا ہو چکا ہے۔ ماضی کے برعکس سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے اور دکانیں اور دیگر کاروباری ادارے اور ٹرانسپورٹ بغیر کسی رکاوٹ کے معمول کے مطابق چلتی ہے۔بی جے پی این سی، پی ڈی پی اور کانگریس پر اپنے دور حکومت میں بدعنوانی، اقربا پروری اور دیگر بدعنوانی میں ملوث ہونے کا الزام لگاتی رہی ہے۔ تاہم ان جماعتوں کی قیادت نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔لیفٹیننٹ گورنر اپنے فعال کردار کے ساتھ ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کی رسائی کو بڑھا رہے ہیں۔ وہ جموں و کشمیر کے مختلف حصوں کا دورہ کرتے رہتے ہیں، لوگوں سے ملتے رہتے ہیں، ان کی شکایات سنتے ہیں اور ان کا ازالہ کرنے کے علاوہ نئے ترقیاتی پروجیکٹوں اور اسکیموں کو اکثر شروع کرتے ہیں۔ وہ ہر وقت اپنے آپ کو لوگوں کے درمیان رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اتر پردیش میں وہ بی جے پی کے ایک اہم لیڈر رہے ہیں اور کالج کے وقت سے ہی وہ سیاست میں دلچسپی لیتے آ رہے ہیں۔1989 میں وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ممبر بنے۔ تین مرتبہ 1999, 1996 اور 2014 میں وہ غازی پورہ اتر پردیش سے لوک سبھا کے لئے منتخب ہوئے۔2014 میں ہی انہیں وزیر اعظم نریندرا مودی کی قیادت میں بنے والی کابینہ میں انہیں ریلوے کا وزیر مملکت بنایا گیا اور 2017 میں بطور کمینکیشن منسٹر (آزادانہ) چارج دیا گیا۔ 2019 میں وہ الیکشن ہار گئے۔ 5 اگست 2019 کو جموں کشمیر ریاست کا درجہ ختم کرکے اسے ایک مرکزی زیر انتظام والا علاقہ بنایا گیا جبکہ خطہ لداخ کو جموں کشمیر سے الگ کر کے ایک علاحدہ مرکزی زیر انتظام والا بنایا گیا۔ جموں کشمیر کے علاقے کے لئے مسٹر مرمو کو پہلا لیفٹنٹ گورنر بنایا گیا۔ اس کے تقریباََ ایک سال بعد منوج سنہا کو مرکزی زیر انتظام والے جموں کشمیر کا ایل جی بنایا گیا۔گویا وہ اس علاقے کے دوسرے ایل جی ہیں۔ انہیں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے قریبی حلقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ مرکزی وزیر کے طور پر انہیں ایڈمنسٹریشن کا خاصا تجربہ حاصل ہے اور بطور بی جے پی کارکن کے انہیں عوام کے ساتھ قریبی رابطہ رکھنے کی اہمیت بھی واضح ہے۔
لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کہتے رہے ہیں کہ وہ عوام کو جوابدہ اور بدعنوانی سے پاک انتظامیہ فراہم کرنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے رہنما ان کی انتظامیہ کی مقبولیت سے خوش نہیں ہیں کیونکہ وہ خود اپنے دور میں عوام کی خدمت میں مخلص نہیں تھے اور صرف ذاتی مفادات میں دلچسپی رکھتے تھے، جو حالات اور لوگوں کی زندگیوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہاں کے کچھ سیاست دان ان کی حکومت کے بعض مخلصانہ اقدامات کے بارے میں عوام کو بار بار غلط معلومات دینے اور گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن میں سرکاری اراضی اور بے زمین غریبوں کوزمین پر حقوق تفویض کرنا شامل ہے۔میڈیا رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ مرکزی حکومت کی قیادت حالات کو بہتر بنانے، عوام تک پہنچنے اور ترقی کی رفتار کو بڑھانے کے لیے لیفٹیننٹ گورنر کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات کی مکمل حمایت کر رہی ہے۔موجودہ ایل جی کے دور میں کئی کام ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں جن کی عوام میں پزیر آرائی ہو رہی ہے۔جی 20 کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کی میٹنگ کے کامیاب انعقاد اور باوقار تقریب کی میزبانی کرنے اور اسے کامیاب بنانے میں لیفٹیننٹ گورنر کی ذاتی کوششوں کی وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کئی بار تعریف کی۔.
کبھی سیاسی وجوہات کی بنا پر تو کبھی میرٹ پر علاقائی جماعتوں کے رہنما موجودہ انتظامیہ پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے اپنے دور حکومت میں بعض اوقات عام عوام سے رابطہ منقطع ہوتا تھا جس کی جھلک بعد میں اسمبلی انتخابات میں بھی دیکھنے کو ملی۔
جب سیاست دان اپنے دور حکومت میں بہتر حکمرانی کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ مطابقت کھو دیتے ہیں اور پھر وہ دوسرے نظاموں کو کام کرتے دیکھ کر بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ غلطیوں سے سبق سیکھنا ضروری ہے لیکن سیاست میں شاید ہی کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہو۔ کانگریس ہو یا نیشنل کانفرنس یا پیپلز ڑیموکریٹک پارٹی، اقتدار میں رہ کر ان کے اعلیٰ رہنما عام لوگوں سے دور ہی رہے۔ اگر کبھی کسی علاقے میں کسی سرکاری تقریب میں گئے بھی تو افسروں کے جھرمٹ میں ایسے پھنس جاتے تھے کہ عام لوگوں تک ان کی رسائی ہو ہی نہیں پاتی تھی۔ اگر کبھی بھولاان کے نزدیک جانے کی کوشش بھی کرتا تھا تو پہلے ان کی سیکورٹی اور بعد میں وہ خود انہیں دھکا مار کر اپنے سے دور کرتے تھے۔ افسروں کے بارے میں دئے گئے حال کے عمر عبداللہ کے بیان کو اگر ترازو میں تولہ جائے تو جتنے اس بارے میں افسر ذمہ دار ہیں اتنے ہی وہ خود بھی۔ جب یہ لوگ واپس اقتدار میں آتے ہیں کو اقتدار سے باہر رہ کے سیکھے گئے تلخ سبق کو بلکل ہی بھول جاتے ہیں۔