ایل جی انتظامیہ کے ساتھ مرکزی سرکار کی طرف سے مقامی نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے لئے کئی پروگرام متعارف کرائے گئے ہیں ۔ پرائیویٹ سیکٹر میں نوجوانوں کی بھرتی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ نجی صنعت اور چھوٹے یونٹ قائم کرنے کے لئے قرضے فراہم کئے جاتے ہیں ۔ اس مقصد سے بینکوں کو واضح ہدایات دی گئی کہ قرضے فراہم کرنے کے کام کو آسان بنایا جائے ۔ پچھلے کچھ عرصے کے دوران نوجوانوں نے بہت سے ایسے پروگراموں میں شرکت کی جن سے ان کی صلاحیتوں کا پتہ لگ گیا ۔ اس حوالے سے کشمیری نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر تعریف کی جارہی ہے کہ ان کے اندر کام کرنے کی صلاحیت دوسرے نوجوانوں کی نسبت بہتر پیمانے پر پائی جاتی ہے ۔ سب سے اہم بات جو سامنے آئی وہ یہ کہ لڑکوں کے علاوہ لڑکیوں کے اندر ایسی صلاحیتیں بڑی شدت سے پائی جاتی ہیں ۔ خاص طور سے کھیل کود کے حوالے سے معلوم ہوا کہ لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں کئی ملکی اور عالمی ٹورنامنٹوں میں حصہ لے کر میڈل جیتنے میں کامیاب ہوئیں ۔ اس سے اندازہ ہورہاہے کہ تعلیم کے علاوہ دوسرے شعبوں میں نوجوانوں کی شراکت داری کے مواقع فراہم کئے جائیں تو ہمارے نوجوان کسی سے بھی کم نہیں ۔ بلکہ ان میں نسبتاََ بہتر صلاحیتیں پائی جاتی ہیں ۔ سرکار مبینہ طور ایسی صلاحیتوں کو بڑھاوا دینے کے حق میں ہے ۔ وزیراعظم ذاتی طور کشمیری نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے پروگراموں کو نچلی سطح تک لے جانے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں ۔ خاص طور سے ٹورازم سیکٹر کو بڑھاوا دے کر یہاں کے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کئے جارہے ہیں ۔ ایسی کوششیں بارآور ثابت ہورہی ہیں ۔ تاہم یہ حقیقت چھپائی نہیں جاسکتی کہ نوجوانوں کے اندر جرائم کا رجحان بڑھتا جارہاہے اور ان کی صلاحیتوں کو اس وجہ سے زنگ لگ جانے کا خطرہ محسوس کیا جاتا ہے ۔
پچھلی ایک دہائی کے دوران جو اعداد و شمار سامنے آئے ان سے پتہ چلتا ہے کہ نوجوان جرائم اور منشیات میں بڑے پیمانے پر ملوث ہورہے ہیں ۔ یہاں تین دہائیوں سے جو ماحول بنا ہے ان میں اس طرح کے رجحان کا پیدا ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔ تذبذب اور افراتفری کے ماحول میں نوجوانوں کے اندر ذہنی تنائو پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس تنائو کو دور کرنے کے لئے نوجوان یا تو مذہب میں پناہ لیتے ہیں یا منشیات فروشوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ۔ ایسی دونوں صورتیں یہاں واضح طور نظر آتی ہیں ۔ مذہبی رجحان کے ساتھ ساتھ نوجوان منشیات کی زد میں آگئے ۔ مذہبی حلقے اس طرح کی صورتحال کو قابو کرنے میں ناکام رہے ۔ اس میں شک نہیں کہ وعظ و تبلیغ کے ذریعے ایک بڑے طبقے کو مولویوں نے اپنے دائرے میں لاکر ان کی تربیت کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن ان حلقوں کے پاس ایسا کوئی طریقہ نہ تھا کہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جاسکے ۔ اس کمی کو دور کرنے کے لئے حکومت بروقت میدان میں آگئی اور نوجوانوں کو خود روزگاری اسکیموں کی طرف مائل کردیا ۔ بہت سے نوجوان ایسی اسکیموں کا فائدہ اٹھاکر آج نہ صرف اپنے لئے روزی روٹی کا بند و بست کرسکے بلکہ کئی دوسرے نوجوانوں کو بھی روزگار فراہم کررہے ہیں ۔ ان حقایق کے باجود یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ بہت سے نوجوان باغی ہوکر غلط راستوں پر چل رہے ہیں ۔ جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے پولیس کاروائی کی زد میں آتے ہیں ۔ اس وجہ سے ان کا مستقبل کسی طور بہتر ہونے کا امکان نہیں ۔ یہ بات سخت تشویش کا باعث ہے کہ نوجوانوں میں جرائم کے اعداد و شمار میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی کے بجائے اضافہ ہورہاہے ۔ ایسے نوجوانوں کو احساس نہیں کہ وہ اپنے ساتھ اپنے خاندان اور سماج کو تباہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں ۔ ہمارا پورا معاشرہ ان کی برائیوں کی وجہ سے بدنام ہورہاہے ۔ یہاں جس طرح کے جرائم سامنے آتے ان سے ہر کسی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ بیٹے اپنے والدین کو کاٹ کھاتا ہے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کے لئے خوف وہراس کا باعث بن رہاہے ۔ چاقو زنی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے ۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ایسے واقعات اسکولوں اور کالجوں میں زیرتعلیم نوجوانوں کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ یہ واقعات پہلے سرینگر میں پیش آئے ۔ اب دوردراز کے گائوں ان واقعات کی وجہ سے لرز رہے ہیں ۔ اسی طرح کے دورسے جرائم بھی پیش آرہے ہیں ۔ حکومت جس طرح سے نوجوانوں کو بااختیار بنانے کی کوششیں کررہی ہے وہ حوصلہ افزا بات ہے ۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ اطمینان بخش نہیں ہے ۔ والدین اپنے بچوں کو اس طرف مائل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے ۔ بلکہ اکثر والدین اپنی اولاد کی سرگرمیوں سے بے خبر ہیں ۔ سرکار کی کوششیں اپنی جگہ تاہم والدین اور سماج کے دوسرے طبقات کو اپنی زمہ داریاں نبھانا ہونگی ۔ جب ہی کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے ۔ سرکاری اسکیموں کا فائدہ اٹھاکر دوسری تمام کوششوں کو جاری رکھنا ضروری ہے ۔