تحریر:شہراز احمد میر
وزیراعظم ہند نے ملک بھر میں شعبہ تعلیم کو فعال بنانے کیلئے مختلف قسم کے اقدامات اٹھائے ہیں،تاکہ شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں کی عوام تک بھی تعلیم کی سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ لیکن اگر دیہی علاقوں کی بات کی جائے تو زمینی حقائق اس کے بلکل برعکس نظر آتے ہیں۔ اگرکوئی نظام شہروں تک ہی بہتر ہوں تو اس کادیہی عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتاہے۔ایسا ہی کچھ دیہی علاقوں میں تعلیم کے معاملے میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر کے دیہی علاقوں کی خواتین بھی اعلی تعلیم حاصل کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہورہی ہیں۔یہاں کے متعدد اضلاع کے دیہی علاقے محکمہ تعلیم کی جانب سے عدم توجہی کا شکار ہیں۔سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کی پنچائیت دھڑہ کا علاقہ موربن جو لگ بھگ ضلع پونچھ سے چالیس کلو میٹر دوری پر واقع ہے،بدقسمتی سے اس ترقی یافتہ دور میں بھی یہ علاقہ محکمہ تعلیم کی توجہ کا منتظر ہے۔ یہاں کی طالبات کو اعلی تعلیم کے حصول کے لئے کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔انہیں وہ موقع اور وسائل فراہم نہیں ہو رہے ہیں جس کی وہ حقدار ہیں۔
اس تعلق سے22سال کی پروین اختر بتاتی ہیں کہ”میں نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے، مجھے بچپن سے ہی استانی بننے کا بہت شوق تھا۔جو آخر شوق ہی رہے یا۔افسوس اگر میرے گاؤں میں بھی ہائی اسکول ہوتا تومیری تعلیم ادھوری نہ رہی ہوتی۔ اس گاؤں میں رابطہ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں دس کلومیٹرکا پیدل سفر طے کر کے اسکول تک پہنچنا پڑتا ہے۔ جہاں جا کر ہم اپنی تعلیم کو مکمل کریں لیکن یہ اس لئے ممکن نہیں ہے کہ ہم غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اورہمارے والدین اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ وہ روز ہمارے اسکول جانے اورا ٓنے کے لئے گاڑی کا کیرایا ادا کرسکیں۔شاید ہماری یہی بدقسمتی رہی کہ ہمارے والدین بہت بڑے سرمایہ کے مالک نہیں تھے ۔جن لڑکیوں کے والدین اچھے خاصے سرمائے دار تھے انہوں نے شہروں کا رخ کیا۔وہاں جاکر اپنی بچیوں کا ہائی اسکول میں اندراج کروایا تو انہیں تعلیم کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ نہیں آئی۔یہی وجہ ہے کہ وہ آج اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اپنے حقوق کے متعلق بیدار ہیں اور دوسری خواتین کو بھی حقوق دلوا سکتیں ہیں۔ہمارے گاؤں سے 10 کلو میٹر دور ہائی اسکول فتح پور یا ہائی اسکول بائیلہ ہے جہاں جاکر تعلیم حاصل کرنا ہمارے لئے ناممکن تھا۔ ہمارے گاؤں سے ان اسکولوں تک سڑک کا کوئی نام ونشان نہیں تھا۔فتح پور ہائی اسکول میں جاتے ہوئے تو راستے میں گھنا جنگل آتا ہے جہاں سے گزرنے پر جنگلی درندوں کا خوف ستاتا ہے۔وہیں دوسری جانب بائیلہ اسکول میں جانے کیلئے راستہ دور دراز پڑتا ہے۔ ہمیں اس راستے سے جاتے ہوئے کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اسلئے ہماری تعلیم ادھوری رہ گئی۔اس کے بعد ہماری شادیاں ہوگئی۔ ہمارے اس علاقے میں ایک ہائی اسکول ہونا چاہئے تاکہ یہاں کی نوعمر لڑکیاں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں“۔
اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والی نوعمر17سال کی ریحانہ اختر کہتی ہے کہ ”ڈیجیٹل انڈیاہونے کے باوجود بھی دیہی علاقوں کی لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ یہ کیسا مزاق ہے کہ ایک طرف عورتوں کو برابری کے حقوق دیئے جانے کی بات کی جا رہی ہے اوردوسری طرف پنچایت دھڑہ کے موربن علاقے کی خواتین تعلیم کے میدان میں بے بس اور لاچار نظر ا ٓرہی ہیں۔موربن علاقہ ایک اندازے کے مطابق 300 نفوس پر مشتمل ہے۔ ایسے میں یہاں پر سڑک نہ ہونے کی وجہ سے پڑھائی کا شوق رکھنے والی لڑکیاں مایوسی کا شکار ہیں۔گاؤں موربن سے پیدل چل کر ہائیر اسکول فتح پوریا بائیلہ ہائی اسکول میں جاکر تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں کیونکہ بہار کے موسم میں ان راستوں سے گزرنا مشکل ہوتاہے۔ اس راستے میں جنگلی جانور بھی ہوتے ہیں اوربھی بہت ساری پریشانیاں دیکھنی پڑھتی ہیں۔ ایسے میں موربن علاقے کی غریب عوام اپنی بچیوں کو کیسے پڑھائے گی ؟ اس لئے یہاں کی لڑکیوں کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے۔اگر ہمارے یہاں ہائی اسکول ہوتا تو ہمیں اتنی پریشانی دیکھنے کو نہیں ملتی، یا پھر رابطہ سڑک کا کوئی معقول ذریعہ ہوتا۔ہماری غریب بہنیں بھی آسانی سے تعلیم حاصل کر سکتیں۔“وہیں 15 سال کی خاتون اخترکہتی ہے کہ عورت کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ایک پڑھی لکھی عورت ہی اپنے گھر اور معاشرے کو سدھار سکتی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارے یہاں دیہی علاقوں کی عورتیں ان پڑھ ہیں۔ ایک ان پڑھ عورت خودانحصار نہیں بن سکتی ہے۔وہ علم کی طاقت سے محروم رہ جاتی ہے۔ اسلئے پڑھی لکھی عورتوں کا معاشرے میں ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت ہی اپنے معاشرے کو سدھار نے کی قوت رکھتی ہے۔ اس لئے دیہی علاقوں میں ہائی اسکول کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اسکول نہ ہونے کی وجہ سے دیہی علاقے کی عورتیں کسی بھی قسم کی ترقی نہیں کر سکتی ہیں۔
وہیں 25 سال کی نسیم اختر کا کہناہے کہ دیہی علاقوں میں دن بہ دن جہالت اور غر بت بڑھتی جارہی ہے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ہمارے علاقہ موربن میں ایک بھی ہائی اسکول نہیں ہے اور نہ ہی رابطہ سڑک کا معقول بندوبست ہے۔ایک طرف یہ نعرے عام ہو چکے ہے کہ ’بیٹی بچاؤبیٹی پڑھاوں‘تو دیہی علاقوں کی بیٹیاں کیسے پڑھ پائیں گیں،جب انہیں اسکول ہی میسر نہیں ہے؟نہ اسکول پہنچنے کے لیے سڑک کا کوئی ذریعہ ہے۔ گرمیوں کے موسم میں بھالوں جیسے جنگلی جانوروں کا بہت خطرہ ہوتا ہے۔ اس خطرے کے بیچ والدین اپنی بچوں کو تعلیم نہیں دے پاتے۔ بچیاں گھر پر رہ گھریلو کام ہی کرتی ہیں۔ گھاس کاٹتی ہیں، گوبر اٹھاتی ہیں،مال و مویشی کو چراتی ہیں اور بھی گھر کا بہت ذیادہ کام کرتی ہیں۔ دیہی علاقوں کی لڑکیوں کو غریبی نے بھی ستایا ہے۔اس تعلق سے جب ماسٹرعبدلرشید سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ’دیہی علاقوں میں رہائش پزیر لڑکیوں کو بہتر سہولیات مئیسر نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں متعددمشکلات سے دوچارہونا پڑتا ہے۔اگر ان دیہی علاقوں میں اعلی تعلیمی مراکز قاہم ہوں تو ممکن ہے کہ ان لڑکیوں کو بھی اپنے مستقبل کو روشن کرنے کا موقع مئیسرآئے۔
بہرحال، گورنمنٹ نے اپنی جانب سے سبھی کو یکسا تعلیم دینے کے مقصد سے مفت تعلیمی نظام کی سکیمیں بھی چلائی ہیں۔لیکن حکومت کوزمینی چیلنجوں سے آگاہ کرنا مقامی انتظامہ کا کام ہے اور حالات کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ مقامی انتظامہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔مذکورہ پریشانیوں کی وجہ سے ان دیہی علاقوں کی لڑکیاں تو صرف گھر یلو کاموں میں ہی الھج کر رہ گئی ہیں۔غربت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے دیہی علاقوں میں ہزاروں لڑکیاں ایسی ہیں جو متعدد مشکلات سے دوچار ہیں۔ ایسے میں یہ حکومت، مقامی انتظامہ اور عوامی نمایندوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے وسائل اور ایسے حالات بنائیں جہاں لڑکیاں آسانی سے تعلیم حاصل کراپنے خوابوں کو پورا کر سکیں تاکہ آنے والے وقت میں ان دیہی علاقہ کی لڑکیوں کو مزید اندھیرے میں نہ رہنا پڑے اورمستقبل میں انہیں بہترتعلیمی مواقع مئیسر ہوسکیں کیونکہ دیہی علاقوں کی لڑکیوں کو بھی شہر کی لڑکیوں کی طرح تعلیم حاصل کرنے کا پورا حق ہے۔(چرخہ فیچرس)