از:ندیم خان
آج کل کشمیر سے لے کر پوری دنیا تک ریل اور سیلفی کا جنون وبا کی طرح پھیل چکا ہے اور اس وبا کے متاثرین ہر گھر، ہر گلی، ہر محلے بلکہ ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ ریل کا جنون متاثرین کے حواس پر اس قدر طاری رہتا ہے کہ وہ موقع دیکھتے ہیں اور نہ محل۔ کہیں مرنے والے کے ساتھ سیلفی لی جارہی ہوتی ہے تو کہیں گزرتی ریل گاڑی کے آگے سے۔ کہیں کسی خطرناک ٹاور پر بندر کی طرح چڑھ کر اپنا شوق پورا کیا جارہا ہوتا ہے تو کبھی بہتے ہوئے تیز دریا کے پاس جاکر اپنے فن کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
ریلز کے جنون نے دیوانوں کو اس قدر بے سکون کر رکھا ہے کہ وہ جان پر کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ آج کل سیلفیوں اور ریلز کا رواج عام ہے اور مصروف دور میں بھی سیلفی ہر انسان کی اہم ضرورت بنتی جارہی ہے۔ ہر موبائل کیمرے والے نے خود کی تصویر اتارنا اپنے اوپر فرض کرلیا ہے۔ خود کو اپنی نظر سے دیکھنے اور دوسروں کو دکھانے کا شوق اور جنون ہی فن کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ہر کوئی کہیں جانے کےلیے تیار ہونے کے بعد سیلفی لینا اپنا حق سمجھتا ہے۔ اپنے ہاتھوں اور اپنے کیمرے سے اپنی تصاویر اتارنے کی سہولت نے لوگوں کو دیوانہ اور جھلا بنا رکھا ہے۔ وہ دن گئے جب لوگوں کو اپنی تصاویر اتروانے کے لیے ایک عدد کیمرہ مین کو برداشت کرنا پڑتا تھا لیکن اب اپنے کیمرے سے اتاری ہوئی اپنی تصاویر کو سیلفی یا سیلف پورٹریٹس بنانے کا فیشن عام ہے۔ لوگ خود سے اور اپنے ماحول سے والہانہ لگاؤ کا اظہار کرنے کے لیے سیلفی کا استعمال بے دریغ کرتے ہیں۔
خوشی تو خوشی، غمی کے موقع پر بھی سیلفی اتارنے یا ریل وغیرہ بنانے اور پھر اس کا اسٹیٹس لگانا مقدس فریضہ بنتا جارہا ہے۔ سیلفی کا چکر اس قدر چل گیا ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ بس کوئی مشہور شخصیت کے ہتھے چڑھنے کی دیر ہوتی ہے، عاشقان سیلفی و ریل اس پر ندیدوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں اور پھر سیلفیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ مضر بیماری اتنی تیزی سے پھیلی کہ ہمارے مقدس مقامات اور عبادت و ریاضت بھی اس سے محفوظ نہیں، حرمین شریفین جیسے مقدس مقامات بھی اس کی زد میں آ چکے ہیں، ادب و احترام کا پاس کیے بغیر لوگ توبہ و استغفار، اوراد و وظائف، تسبیح و تہلیل، دعا و مناجات، فرائض و واجبات کو پس پشت ڈال کر کعبہ معظمہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیٹھ کر کے تصویر لیتے نظر آتے ہیں، جن ہاتھوں کو رب العالمین کی بارگاہ میں دعا و استغفار کے لیے اٹھنا چاہیے تھا وہ ہاتھ اب سیلفی لینے یا ویڈیو بنانے یا کسی سے ویڈیو کالنگ پر بات کرنے کے لیے اٹھتے نظر آتے ہیں، ان حرکتوں نے کعبہ معظمہ کا تقدس اور مدینہ منورہ کی حرمت و عصمت کو پامال کر دیا۔
آپ نے فلموں میں دیکھا ہوگا اکثر شیشے کے سامنے کھڑے انسان کے اندر کا انسان آدھمکتا ہے اور اسے باقاعدہ ڈرانے دھمکانے لگ جاتا ہے،کبھی سوچا ہے کہ اگر اپنے ہاتھوں سے اتاری ہوئی اپنی تصاویر نے بھی انسانوں کے سامنے بولنا شروع کردیا تو کیا ہوگا؟ اپنی ہی تصویروں کی تشہیر کوئی احسن عمل نہیں ہے۔ کبھی اپنے اندر بھی خود کو دیکھنے کی کوشش کیجیے۔ کبھی فارغ وقت میں اپنے کردار کی سیلفی کو دیکھنے کی کوشش کیجیے۔ کبھی اپنے اندر کے انسان کو سیلفی سے باہر نکال کر اپنے کردار کو جانچنے کی بھی کوشش کیجیے۔ انسان کا کردار، اس کی شخصیت، اس کا دوسروں کے ساتھ برتاؤ اور اس کی تربیت اس کے ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم میں سے بیشتر ایسے لوگ ہیں جو خود تو اپنے اندر جھانکنا پسند نہیں کرتے اور جو خامیاں خود ان میں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں، دوسروں کو انھی باتوں کی تنبیہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف خود زندگی میں بری طرح ناکام ہوتے ہیں بلکہ دوسروں پر بھی تنقیدی نگاہ رکھتے ہیں۔ آج ہماری تمام بھاگ دوڑ اور کوششیں صرف روپے پیسے سے شروع ہوتی ہیں اور اسی پر ختم ہوتی ہیں۔ ہم دوستیوں اور رشتے داریوں کی بنیاد بھی کسی نا کسی مفاد کی خاطر رکھتے ہیں۔ ہمیں اپنے کردار کی مضبوطی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو بدصورت اور تلخ بنانے پر ہمیں افسوس تک نہیں ہوتا اور ہم اپنے اس بدترین سلوک پر بھی فخر سے اپنی زندگی گزارنے میں مصروف رہتے ہیں۔
کہتے ہیں انسان خود عظیم نہیں ہوتا، اس کا کردار اسے عظیم بنا دیتا ہے۔ انسان اپنے کردار کی مضبوطی کا اندازہ اچھائی یا برائی کو منتخب کرکے کرتا ہے۔ والدین کی اچھی تربیت کے بعد آپ کے اردگرد کا ماحول آپ کے کردار کو اچھا یا برا بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انسان اپنے کردار سے پہچانا جاتا ہے اور اس کا اپنے مقصد میں خلوص یا عدم خلوص اس کے پختہ کردار کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کا ہر فعل اس کے کردار کی غمازی کرتا ہے۔ اس لیے استقامت کو انسان کے کردار کی ایک بڑی خصوصیت کہا جاتا ہے۔ مذہب اسلام میں تصویر کشی ناجائز و حرام ہے، سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق ٹیوی اور ویڈیو حرام ہے، کیوں کہ اس نئی ایجاد یعنی تصویر کشی اور ویڈیو گرافی کے مضر اثرات زہر قاتل کی طرح خواص و عوام کی رگوں میں تیزی سے پھیل رہے ہیں، جس نے ماحول کو بگاڑ کر رکھ دیا، بے پردگی کو عام کر دیا، ہاں بوجہ مجبوری جیسے پاسپورٹ یا دیگر ضروری دستاویزات کے لیے تصویر کھنچوانے کو فقہاء نے جائز قرار دیا ہے، لیکن دور جدید میں رائج اسمارٹ فون پر لی جانے والی سیلفی بہت تیزی کے ساتھ عام ہو چکی ہے، ہر مناسب نا مناسب جگہوں پر لوگ سیلفی لینا شروع کر دیتے ہیں، یوں کہیے کہ سیلفی بعض لوگوں کی زندگی کا حصہ بن چکی ہے اگر بنیت سیر و تفریح کہیں جانا ہوتا ہے اور وہاں سیلفیاں نہ لی جائیں تو سفر ادھورا لگتا ہے، اب یہ قصہ صرف سیلفی تک ہی محدود نہیں بلکہ اب جگہ جگہ ویڈیو گرافی بھی کی جاتی ہے، شارٹ ویڈیوز پر چھوٹے چھوٹے بچے معاذ اللہ ڈانس کرتے نظر آتے ہیں۔
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
آپ کی اصل شخصیت ظاہری خوبصورتی کے بجائے آپ کے کردار میں چھپی ہوتی ہے۔ جتنا خوبصورت آپ کا کردار ہوگا آپ کی شخصیت اپنے آپ حسین تر ہوتی چلی جائے گی۔ اس لیے اپنی ظاہری شخصیت کو جاندار بناکر سیلفی لینے کے بجائے اپنے کردار کو مضبوط اور خوبصورت بناکر سیلفی لیجیے۔ تاکہ زندگی کے حقیقی رنگ آپ کے چہرے پر نظر آئیں اور آپ کی سیلفی کو چار چاند لگ جائیں۔