مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے رواں پارلیمنٹ اجلاس میں رواں مالی سال کے لئے ملک کا سالانہ بجٹ پیش کرنے کے بعد پیر کو جموں کشمیر کے لئے عبوری مالی بجٹ پیش کیا ۔ یوٹی کے لئے جو بجٹ اخراجات پیش کئے گئے وہ 1.18 لاکھ کروڑ روپے پر مشتمل ہیں ۔ بجٹ میں 20,760 کروڑ کا خسارہ دکھایا گیا ہے ۔ یہ موجودہ سرکار کا آخری بجٹ ہوگا جو آنے والے انتخابات سے پہلے لوک سبھا میں پیش کیا گیا۔ تاہم کئی حلقوں کا اشارہ ہے کہ موجودہ سرکار کے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں بجٹ اخراجات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی ۔ سرکاری حلقوں نے بجٹ کی تعریف کی ہے ۔ جموں کشمیر میں بجٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لیفٹنٹ گورنر نے اسے بہت ہی مناسب بجٹ قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ اس سے کئی پروجیکٹوں کے تعمیر میں مدد ملے گی ۔ ایل جی نے بجٹ کے بارے میں کہا کہ مقامی ہنر کو ترقی دینے کا کام انجام پائے گا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے خواتین کے لئے اسے کارآمد بجٹ قرار دیا ۔ تاہم اپوزیشن حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ محض الیکشن وعدوں پر مشتمل بجٹ ہے جس سے نوجوانوں کو روزگار کے کوئی مواقع میسر نہیں آئیں گے ۔ اس کے باوجود بعض تجارتی حلقوں نے اسے بہت ہی متوازن بجٹ قرار دیا ۔ بجٹ میں آمدنی بڑھانے کے مزید ذرایع تلاش کئے گئے ہیں ۔ اس کے باوجود مالیاتی خسارہ بیس کروڑ کے لگ بھگ دکھایا گیا ہے ۔
جموں کشمیر کے لئے رواں مالی سال کا بجٹ تیار کرنے میں کہا جاتا ہے کہ ایل جی نے کافی تگ و دو کی ۔ اس کے علاوہ اخراجات کے لئے منصوبوں کی نشاندہی کرنے میں چیف سیکریٹری اٹل ڈلو سے بھی مشورے حاصل کئے گئے ۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں حضرات نے ایک پوری ٹیم کے ساتھ کام کرکے بجٹ تیار کرانے میں اپنے مشورے سامنے رکھے ۔ اس کے بعد عبوری بجٹ کو حتمی شکل دی گئی ۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ بجٹ تیار کرنے میں یہاں کی انتظامیہ کے ذمہ داروں کے ساتھ صلاح مشورہ کیا گیا ۔ ان کی ترجیحات کو مدنظر رکھ کر بجٹ کا موجودہ صورت دی گئی ۔ مقامی انتظامیہ یقینی طور مسائل سے باخبر ہوتی ہے ۔ اسے اس بات کا بہتر ادراک ہوتا ہے کہ عام لوگوں کی ضروریات کیا ہیں اور علاقے کی ترقی کے لئے کون سے منصوبے پہلے آنے چاہئے ۔ بجٹ میں جہاں ٹیکس کے ذریعے آمدن کے بڑھانے کی بات کی گئی ہے وہاں بجلی اور دوسری بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی منصوبے بنائے گئے ہیں ۔ یہ بات بڑی اہم ہے کہ بجٹ کو متوازن بنانے کے لئے سرکار نے یک طرفہ بجٹ تیار نہیں کیا ۔ بجٹ کو آنکھیں بند کرکے نہیں بنایا گیا ۔ بلکہ کئی مقامی ماہرین کو بھی اعتماد میں لیا گیا ۔ مرکزی سرکار پچھلے چار پانچ سالوں سے کشمیر میں بنیادی تعمیری ڈھانچہ کھڑا کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔ اس پر خاص طور سے زور دیا جارہاہے کہ بجٹ تجاویز کو نظر انداز نہ کیا جائے اور رقوم کو لیپس ہونے نہ دیا جائے ۔ مرکزی وزیر خزانہ نے اپنے بجٹ تقریر میں اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2019 کے بعد جموں کشمیر میں کئی اہم اقدامات کئے گئے جن سے انتظامی مشنری کو بہتر بنانے کے علاوہ ترقی کا راستہ کھول دیا گیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکار حالات کو بہتر بنانے کے لئے بڑے پیمانے پر کام کررہی ہے تاکہ امن و امان قائم ہوسکے ۔ لیکن اس کے ساتھ ترقی کے کاموں کو فروغ دینے کی سخت کوششیں کی جارہی ہیں ۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ مالی اور سماجی اصلاحات کو لاگو کرنے کی بڑے پیمانے پر کوششیں کی جارہی ہیں ۔ وزیر موصوف نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ سیکورٹی فورسز امن قائم کرنے میں مصروف ہیں جس سے ماحول کو بہتر بنانے میں مدد مل رہی ہے ۔ اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ سرکار بنیادی سطح پر ترقی کو ممکن بنانے کے لئے زراعت اور انڈسٹریز کو مضبوط بنانے کے لئے کام کررہی ہے ۔ اسی طرح انہوں نے خواتین کو مضبوط بنانے کا بھی ذکر کیا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے پنچایت راج کا بھی ذکر کیا ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 2020 میں ان کی سرکار نے پنچایت راج ایکٹ میں تبدیلی کرنے کے بعد پنچایت راج کو مضبوط بنانے میں مدد ملی ۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی ترمیمات کے تحت پنچایتوں کو بڑے پیمانے پر اختیارات اور فنڈس فراہم کئے گئے ۔ اس ذریعے سے مقامی سطح پر ترقیاتی کاموں کو ہاتھ میں لینے کے علاوہ ان کی بہتر نگہداشت میں مدد ملنے کا دعویٰ کیا گیا ۔ اس کے علاوہ مقامی سطح پر انتظامیہ اور عوام میں رابطے کو فروغ ملنے کا خاص طور سے ذکر کیا گیا ۔ بجٹ تقریر میں جل جیون مشن کی کامیابی اور بجلی سیکٹر میں ترقی کا موضوع بھی سامنے آیا ۔ مغربی پاکستان کے مہاجرین کو ان کے حقوق دلانے میں سرکار کی کوششوں کو اجاگر کیا گیا ۔ ای گورننس اور ڈیجٹل گورننس کا بھی ذکر کیا گیا ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ لوگوں کو دفتروں کے چکر لگانے سے نجات دی گئی اور انہیں 1100 سروسز آن لائن فراہم کی گئیں ۔ ایسے ہی بہت سے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ 2019 کے بعد مرکزی سرکار کی مدد سے پورا نظام تبدیل کیا گیا ہے ۔
