تحریر:جہاں زیب بٹ
واری کشمیر میں پارلیمانی چناؤ کے پہلے مرحلے میں 13مئی کو سرینگر ،پلوامہ اور شوپیان اضلاع پر مشتمل پارلیمانی نشست پر کل ملاکر 38فیصد ووٹنگ ریکارڈ کی گئی جو ایک غیر معمولی واقعہ گردانا جا رہاہے کیو ں کہ صرف پانچ سال پہلے اس نشست پر شرح رائے دہندگان چودہ فیصد رہا اور 1998 میں دو فیصد ووٹ ڈالے گئےجس پر این سی کی "جیت”کا خوب مذاق اڑایا گیا ۔سچ یہ ھے کہ 1987 کے بعد پہلی بار لوگ اپنی مرضی سے کسی خوف اور دباؤ کے بغیر چناؤ میں شمولیت اختیار کررہے ہیں۔اگلے دو مرحلوں میں اننت ناگ اور بارہمولہ نشستوں میں ووٹنگ کی شرح اور زیادہ اوپر رہنے کا قوی امکان ھے۔
تیس پینتیس سال بعد یہ پہلا موقع ھے جب علاحدگی پسند غایب نظر آیے ۔ کسی زمانے میں جوحریت اورمزاجمتی لیڈر ہوا کرتے تھے وہ بایکاٹ کو اسلام ،ایمان ،تحریک اور نہ جانے کن کن چیزوں سے جوڑجوڑ کر لوگوں کو گمراہ کرتےتھے آج ان کا کہیں نام و نشان نہیں تھا ۔آج لوگو ں پر ہیبت ناک فتویٰ لگانے والےخاموش تھے۔ ووٹ پر غداری کی لیبل لگانے والے غایب تھے۔لہذا لوگوں نے سازگار ماحول پاتے ہی الیکشن میں شمولیت کا آزادانہ فیصلہ لیا۔یوں آخر کار وہی ہوا جو ہو نا تھا۔ حریت کی بنیاد اکھڑ گئی اور اس کےتیس پینتیس سالہ بیانیے نے دم توڑ دیا۔
الیکشن میں عوام کی رضا کارانہ شمولیت کا ایک نیا دور شروع ہونے کا مطلب یہ نہیں ھے کہ حریت بیانیے کی نفی اور شکست ہوگئی بلکہ سچ یہ ھے کہ الیکشن بایکاٹ بیانیے کوعوام نے دفنا دیا ۔الیکشن بایکاٹ بیانیے کی شکست بہت پہلے ہوئی تھی جب عبدالغنی لون تہہ تیغ کیے گیے۔جب انتخابی بایکاٹ کو نافذ کرنے کے لیےشہر و دیہات میں دھمکی آمیز پوسٹر لگائے جاتے تھے یا سیاسی قتل و غارت سے دہشت پیدا کی جاتی تھی ۔جب بایکاٹ کے باوجود این سی پی ڈی پی ،کانگریس وغیرہ کی حکومت بنتی تھی ۔تب حریت بیانیے کی شکست اگر کسی کو محسوس نہ ہوتی تھی تو وہ نا عاقبت اندیش ٹولہ تھا جو مرغے کی ایک ٹانگ ایسی ضد پر قائم رہا ۔آج تیس پینتیس سال بعد لوگ الیکشن میں شمولیت کا جشن منا رہے ہیں اور یوں الیکشن بایکاٹ بیانیے کا مکمل کفن دفن ہورہا ہے اور وہ بھی بڑے دھو م دھام سےمگر کوئی فرد بشر حریت سے اظہار تعزیت کرنے والا نہیں۔
وقت نے ثابت کردیا۔ کہ الیکشن بایکاٹ بیانیہ ناقابل عمل اور عوام کے لیے نا قابل قبول تھا اوراس کی کوئی عقلی بنیا د نہ تھی ۔اس کا اعتراف بعد از خرابی بسیار میرواعظ عمر فاروق نے کچھ دن پہلے کیا جب انھوں نے الیکشن بایکاٹ کال ہونے یا دینے سے صاف انکار کیا۔لیکن وقت اب اتنا آگے نکل چکا ہے اور کشمیر میں اتنی ڈھیرساری تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں کہ بایکاٹ ایسی ہمالیائی حماقتوں کی تلافی تو دور کی بات اس کے نتایج کو روکے روکنا ممکن نہیں۔الیکشن بایکاٹ ایسی احمقانہ پالیسی نے جہاں کشمیر سیاست میں نت نئے موقعہ پرست پیدا کیے وہیں حریت کی کشتی بھی ڈوب گئی۔وہ بھی دن تھے جب سنہ2001 کے آس پاس امریکی سفیر فرینک وذنر نے حریت کو الیکشن میں شمولیت مشورہ دیا خود ملک کے اندر گجرال،واجپائی،منموہن سنگھ سے لیکر سابق راچیف اےکے دلت تک کتنوں نے چاہا کہ حریت انتخابات کا راستہ اپنایے مگر کوتاہ اندیش کچھ نہ سمجھ پایےاور انھوں نے الیکشن کو شجر ممنوعہ بناکر اپنی موت کا سامان خود پیدا کیا ۔اب الیکشن جوش وخروش کے دن لوٹ آئے مگر حریت منظر نامے سے یکسر غایب ہوگیی جس پر افسوس کرنے کے لیےکویی تیار نہیں ۔
