پیر کو سرینگر پارلیمانی نشست کے لئے ووٹ ڈالے گئے ۔ ووٹنگ کی شرح 38 فیصد کے آس پاس رہی ۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ دس سال بعد اس طرح کا جوش وخروش لوگوں میں دیکھا گیا ۔ اگرچہ عوام کو لوک سبھا انتخابات کے ساتھ زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی ۔ اس کے بجائے اسمبلی انتخابات کے ساتھ ان کا نزدیکی تعلق ہوتا ہے ۔ اسمبلی ممبروں کے ساتھ یہ اپنے مسائل پر بات کرتے ہیں اور ان کے ذریعے انہیں اپنے کام کرنے میں آسانی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح کم ہی رہتی ہے ۔ تاہم رواں انتخابات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ سرینگر نشست سے منسلک کئی علاقوں میں ووٹ ڈالنے کے رجحان نے بہت سے حلقوں کو حیران کیا ۔ پہلی بار ڈاون ٹاون کے ووٹروں نے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا ۔ یہاں دو چار فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ڈالے جاتے تھے ۔ جو بھی لوگ ووٹ ڈالنے آتے تھے چوری چھپے پولنگ بوتھ تک پہنچتے تھے اور بعد میں ووٹ ڈالنے پر معافی مانگتے تھے ۔ اس کے برعکس آج لوگوں نے کھل کر ووٹ ڈالے اور کسی طرح کے خوف وہراس یا افسوس کا اظہار نہیں کیا ۔ جنوبی کشمیر کے ان دیہات میں بیس تیس فیصد تک ووٹ ڈالے گئے جہاں اکا دکا ووٹ ڈالے جاتے تھے ۔ ترال کے جن علاقوں میں اب تک پارلیمانی انتخابات کے لئے ووٹ ڈالنے کی شرح چار فیصد سے آگے نہیں بڑھی آج وہاں بیس تیس فیصد کے آس پاس ووٹ ڈالے گئے ۔ اپنے ووٹ کے استعمال پر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا اور اسے بہت ہی حوصلہ افزا بات قرار دیا ۔ لوگوں کے اتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں ۔ وجہ جو بھی رہی یہ بات واضح ہے کہ لوگوں نے آج اپنے حق رائے دہی کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا ۔ جموں کشمیر کے لیفٹنٹ گورنر نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ لوگوں نے جمہوریت اور آئین پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ۔ ایل جی نے لوگوں کو مبارک باد دی اور ان کے ووٹ ڈالنے کے انداز کی سراہنا کی ۔ لیفٹنٹ گورنر نے پولنگ کے پر امن اور ہموار انعقاد پر تمام حلقوں کا شکریہ کیا اور اسے ایک حوصلہ افزا بات قرار دیا ۔ ایل جی نے امید ظاہر کی کہ آئندہ دو مرحلوں کے انتخاب میں لوگ بڑے پیمانے پر حصہ لیں گے اور زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لئے پولنگ بوتھوں تک پہنچ جائیں گے ۔
پیر کو ہوئی پولنگ سے یہ بات سامنے آئی کہ لوگ ووٹ کا استعمال کرکے اپنے جذبات کا اظہار کررہے ہیں ۔ خاص طور سے نوجوان طبقہ نے اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کے بعد امید ظاہر کی کہ ان کے ووٹ سے ان کا مستقبل بہتر بن جائے گا ۔ نوجوانوں کو اپنے کیریر کے حوالے سے کئی طرح کا خدشات کا سامنا ہے ۔ انہیں اپنے روزگار کی فکر ہے اور چاہتے ہیں کہ حکومت ان کے روزگار کے مسائل حل کرنے میں مدد دے ۔ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ انہو ں نے بدلائو کے لئے ووٹ دیا اور چاہتے ہیں کہ بہتر بدلائو سے زن کی زندگی میں مسثبت تبدیلی آئے ۔ اپنی پارٹی کے سربراہ الطاف بخاری نے بھاری ووٹنگ کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا کہ نوجوانوں نے بدلائو کے لئے ووٹ دیا اور اپنے روزگار کے غم کو کم کرنا چاہتے ہیں ۔ ادھر معلوم ہوا ہے کہ شیخ خاندان کی تین پیڑیوں نے پولنگ بوتھ تک پہنچ کر اپنے ووٹ کا استعمال کیا ۔ اس طرح سے انہوں نے لوگوں کو پیغام دیا کہ ووٹ ڈالنے سے دور نہ رہیں بلکہ بڑے پیمانے پر پولنگ بوتھوں تک پہنچ کر اپنی رائے کا اظہار کریں ۔ اسی طرح سے الطاف بخاری نے لالچوک کے ایک بوتھ پر آکر اپنا ووٹ ڈالا جبکہ وحید پرہ نے پلوامہ میں حق رائے دہی کا استعمال کیا ۔ ان تمام لیڈروں نے ووٹ ڈالتے وقت اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ووٹ ڈالنے کے عمل کو جمہوریت کے پھلنے پھولنے کا ذریع قرار دیا ۔ دونوں رہنمائوں نے ووٹ کو بہت اہم قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس ووت کے استعمال سے کشمیری قوم کو راحت ملے گی ۔ انہوں نے خاص طور سے ووٹ کو قید اور نظر بندی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ جمہوری عمل پر اعتماد کے اظہار کے بعد یہاں جمہوریت کا ماحول خوب ترقی کرے گا ۔ اس کے ذریعے سے جیلوں میں بند نوجوان اور دوسرے مسائل کا شکار نوجوان اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے اہل ہوجائیں گے ۔ ادھر وزیراعظم نے اعلان کیا کہ نئی سرکار بنانے کی صورت میں کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کیا جائے گا اور اسمبلی انتخابات کا انعقاد ہوگا ۔ ایسا ہونے کی صورت عوامی حکومت بن جائے گی جو کسی بھی پارٹی کی ہو تاہم لوگوں کے لئے آسانی اور آسائش کی وجہ بن جائے گی ۔ وزیراعظم کے اس بیان کو بڑا اہم سمجھا جارہاہے بلکہ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں اسے مودی کی گارنٹی قرار دیا جاتا ہے ۔ مودی کی گارنٹی پر عمل کرنے کی صورت میں بت جلد لوگوں کو اسمبلی ممبر بنانے کے لئے ووٹ دینے ہونگے ۔ اس کے بعد یقینی طور جموں کشمیر میں بڑے پیمانے پر بدلائو کا عمل شروع ہوگا جو لوگوں کے لئے راحت کا باعث بن جائے گا ۔