از قلم : محمد شبیر کھٹانہ
تعلیم کی بدولت ایک تعلیم یافتہ فرد میں منطقی سوچ اور فیصلہ سازی کی قوت پیدا ہونی چاہیے۔ تعلیم کی مدد سے ایک فرد میں بہت سی قدریں (values) اور خوبیاں (qualities )پیدا ہونا لازمی ھے جو اسے خوشحال اور کامیاب زندگی گزارنے میں مدد فراہم کرتی ہیں جن میں احساس درد دل اور با شعور بھی شامل ہیں تعلیم کی مدد سے ایک تعلیم یافتہ شخص میں ایسی صلاحیتیں اور خوبیاں پیدا ہونا ضروری ہیں جن کی مدد سے:
* اس میں ایک مناسب منصفانہ اور حقیقی فیصلہ لینے یا کرنے کی صلاحیت اور قابلیت پیدا ہونی چاہیے۔ یہ موازنہ کرنے کی صلاحیتیں ایک میٹر راڈ کی مانند ہوتی ہیں جن سے کسی بھی فرد کو صلاحیتیوں کو درست طور پر ناپا جا سکتا ھے
* اس میں دوسروں کی کارکردگی. قابلیت اور اہلیت کا صحیح اندازہ لگانے کی قابلیت ہونی چاہئے کیونکہ دوسروں کی قابلیت اور اہلیت کو دیکھنے جانچنے اور پرکھنے کے لئے دوسروں سے زیادہ قابلیت اہلیت اوربا شعورہونا درکار ھے
* اگر ایک فرد دوسروں سے زیادہ قابل لائق اور با شعور ھے تو اس میں مختلف طریقوں اور تکنیکوں کو استعمال کرکے دوسروں کی کارکردگی قابلیت اور صلاحیتوں کو بڑھانے کی قابلیت اور صلاحیت بھی ہونی چاہئے۔ قابل لائق اور با شعور اسے شمار کیا جا سکتا ھے جو دوسروں کی قابلیت صلاحیت اور اہلیت میں اضافہ کر سکے دوسروں کی کمیاں ڈھونڈنے والا کبھی بھی قابل لائق اور با شعور شمار نہیں کیا جا سکتا
اب با شعور کا مطلب ھے احساس رکھنے والا سادہ الفاظ میں شعور اپنے آپ اور اپنے ماحول سے با خبر رہنے کو کہا جاتا ھے اور انگریزی میں اس کو Conscious کہتے ہیں طب نفسیات میں اس کی تعریف یو کی جاتی ھے کہ شعور اصل میں عقل(mind) کی ایسی کیفیت ھے جس میں ذاتیت یعنی اپنے بارے میں پوری طرح با خبر ہونا دانائی اور آگاہی کی خصوصیات پائی جاتی ہیں اور ذاتی اور مالی حالتوں میں ایک رابطہ موجود ھو حق و باطل میں تمیز کرنے کے لئے شعور و بصیرت کی راہ ﷲ تبارک تعالی نے انسان کو عنایت کی ھے
اگر عقل و شعور کی آنکھیں کھول کر انسان دیکھے تو پھر ہی اسے مقصد حیات سمجھ میں آئے گا احساس ، حس اور ضمیر کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ھے ان میں سے ایک۔بھی غائب تو دوسرے کو بھی خطرہ ہو جاتا ھے ضمیر صیح اور غلط میں تمیز کرنے کی اخلاقی حس بد کا احساس اور نیکی کا جذبہ ھے شعور کا مطلب احساس ہونا اور محسوس کرنا بھی ھے یہ سب تب ممکن ھے جب حواس خمصہ درست طور پر کام۔کرتے ہوں اگر کسی انسان کے اندر محسوس کرنے کی حس ہو گی تب ہی وہ دوسروں کی خوشی اور غم کا احساس کر سکتا ھے اور پھر اپنے فرائض کو بھی تبھی ایک تعلیم یافتہ شخص اچھی طرح سمجھ سکے گا
اگر ایک انسان کی زندگی میں احساس موجود ھے اور وہ درد دل رکھتا ھے تب ہی وہ زندوں میں شمار ہوتا ھے احساس در اصل ایک خوبصورت اور معصوم سا جذبہ ھے اور یہ ہی ایک انسان کی خوبصورت زندگی کی پہچان ھے ہم اپنے بھائی بہنوں ماں باپ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں ان کا خیال بھی رکھتے ہیں در اصل یہ سب احساس کی وجہ سے ھے احساس ہی کی بدولت ہمارے دل میں ان سب کے لئے محبت پیدا ہوتی ھے اب یہ بھی لازمی ھے کہ جس کا جتنا علم زیادہ ھے اس کا ضمیر اتنا ہی پختہ اور احساس زندہ ہونا لازمی ھے اور ان کے دل میں اتنا ہی زیادہ درد دل ہونا لازمی ھے ثابت ہوتا ھے کہ تمام اساتذہ اکرام کا ضمیر زندہ اور تمام اساتذہ کو ہر ایک سب سے زیادہ احساس ہونا چائیے اور پھر تمام اساتذہ اکرام کے دل میں سماج کے دیگر افراد کے مقابلے میں سب سے زیادہ درد دل ہونا چائیے
انسان کے وجود میں اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو پوری کائنات بسی ہوتی ھے ہمارا جسم حواس خمصہ کی بدولت ہی قریب کی اشیا اور تقاضوں سے با خبر ہوتا ھے لیکن اس کو مستقبل کے تقاضوں کی بھی ضرورت ہوتی ھے یہ حقیقت ھے کہ اگر انسان کے جسم کے تمام اعضا صیع کام کرتے ہیں تو دنیا میں اس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی دوسری نعمت انسان کے لئے موجود ھے یعنی تندرست توانا جسم ہی انسان کے لئے اللہ تبارک تعالی کی طرف سے سب سے بڑی نعمت ھے ٹھیک ایسی ہی نعمت احساس شعور اور ضمیر بھی ھے مگر ان سب کی اہمیت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ہی انسان ان کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا
احساس کی بدولت ضمیر زندہ ہوتا ھے اور زندہ رہ بھی سکتا ھے اگر احساس باقی نہ رہے تو ضمیر نام کی کوئی چیز انسان کے پاس باقی نہ رہے گی اور پھر انصاف کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گا ثابت ہوتا ھے کہ انصاف کرنے کے لئے ایک تعلیم یافتہ شخص کے اندر احساس ضمیر کا ہونا ضروری ھے
اب خدمت خلق کا ایک انسان کی اپنی ذات کو کیا فائدہ ھے اس کی کیا اہمیت ھے آج تک ہر انسان کو معلوم ہی نہیں اگر یہ بھی معلوم ہو جائے تو پھر کمی یہ ھے انسان اپنی تمام طر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی کوشش نہیں کرتا یعنی اپنے اندر خود اعتمادی پیدا نہیں کر سکا جب ہر انسان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو گئی احساس اور ضمیر زندہ ہو گئے اور انسان نے پوری محنت ، لگن اور ایمانداری سے کام کرنا شروع کرلیا پھر حضرت انسان کچھ بھی کر سکتا ھے اب چونکہ اساتذہ اکرام سب سے اعلی تعلیم یافتہ ہیں تو پھر تمام اساتذہ اکرام کا انصاف پسند ہونا لازمی ھے
ایک انسان کو با شعور بننے کےلئے تمام منفی خصلتوں کواپنے اندر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ترک کرنا ضروری ھے مثال کے طور پر حسد ، بخیلی اور غصہ وغیرہ کسی بھی دوسرے انسان کا غلط مقابلہ کرنا
جو انسان اپنے سماج کے تمام افرد کے ساتھ پر امن زندگی بسر کرتا ھے جو اپنے والدین دیگر بزرگوں، بھائی بہنوں ،دیگر رشتہ داروں کے ساتھ پر امن زندگی بسر کرکے ان سب کی دعائیں حاصل کرتا ھے پڑوسیوں کے ساتھ بھی اچھا برتاوکرتا ھے تو ﷲ تبارک تعالی ایسے شخص کو اپنی شان کریمی سے نواز دیتا ھے
آخر میں غور طلب بات ھے کہ با شعور کیسے بنا جا سکتا ھے اس نیک خصلت اور خوبی کے حصول کے لئے مذہبی اور دنیاوی دونوں قسم کی تعلیم درکار ھے علم۔کی بدولت انسان اپنے اندر خوبیاں (Values) پیدا کر سکتا ھے اور منفی خصلتوں کو ترک کر سکتا ھے اپنے تمام رشتہ داروں اور برادری کے ساتھ پر امن زندگی بسر کر کے ان کی دعائیں حاصل کرے اپنی سوچ کو مثبت میں تبدیل کر کے اور پھر ضمیر کو احساس کی بدولت زندہ کرے تو پھر انشان انشا ﷲ با شعور ہو جائے گا اب اگر علم کے اعتبار سے دیکھا جائے کسی بھی گاوں میں اساتذہ اکرام ہی اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور پھر ان سب کا انصاف پسند اور درد مند ہونا لازمی ھے جب انسان میں درد دل پیدا ہو گیا تو پھر بقول شاعر ایک تعلیم یافتہ کچھ بھی کر سکتا ھے
مختصر اتنا کہ دو حرفوں سے بنا ھے دل
طویل اتنا کہ اس میں سارے جہاں کا درد ھے
خوش آئین بات یہ ھے ہمارے ملک نے اب جو NEP 2020 ایجوکیشن پالیسی مرتب کی ھے اور لاگو بھی ہو چکی ھے اس میں بچوں میں اس طرح کی values پیدا کرنے پر زور دیا گیا ھے جس کی تعریف کرنا بہت ہی مشکل ھے یہ تمام values اساتذہ اکرام۔ بچوں کے اندر تبھی پیدا کر سکیں گے جب یہ تمام values ہر ایک استاد اپنے اندر پیدا کرے گا جب یہ values اساتذہ اکرام اور پھر بچوں کے اندار پیدا ہو گی تو انشا ﷲ ہر طرف امن اور پر سکون زندگی ہو گی اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا اور پھر انشا ﷲ دوسروں کے ساتھ انصاف کرنا ہی سب سے بڑی values ھے دوسروں کے ساتھ انصاف کرنے سے پہلے اپنے ساتھ انصاف کرنا لازمی ھے اور جو تعلیم یافتہ شخص تعلیم کی مدد سے اپنے ساتھ انصاف نہ کر سکا اس کو اپنی تعلیم پر نطر ثانی کرنے کی ضرورت ھے ثابت ہوتا ھے کہ اگر اساتذہ اکرام سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں تو ان کو سب سے پہلے اپنے ساتھ انصاف کرنا ہو گا رزق حلال کما کر کھانا ہی سب سے پہلا اور بڑا انصاف ھے جب رزق حلال کمایا تو بچوں کے ساتھ بچوں کو تعلیم دینے میں بھی انصاف ممکن ہو گا اپنے ساتھ انصاف کرنے کے لئے بھی احساس کی ضرورت ھے تو تعلیم کی بدولت احساس پیدا ہونا بھی لازمی ھے کیونکہ بقول شاعر
علم آتا ھے تو القاب بھی آ جاتے ہیں
زندگی جینے کے آداب بھی آ جاتے ہیں
سب سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد کا ضمیر زندہ ہونا ان کے اندر اپنے لئے احساس ہونا اور پھر دوسروں کے لئے احساس اور درد دل پیدا ہونا لازمی ھے اور جب ضمیر زندہ ہو گا احساس اور درس دل ہو گا اور تب ہی انصاف بھی ہو گا دعا ھے ﷲ تبارک تعالی ہر تعلیم یافتہ فرد خاص کر تمام اساتذہ اکرام کو اپنے ساتھ پورا پورا انصاف کرنے کی صلاحیت ہمت سوچ اور توفیق بخشے کیونکہ جب اپنے ساتھ ہو تب ہی سماج کے ساتھ انصاف کیا جا سکتا ھے