گرمی کی شدت میں آئے دن اضافہ ہورہاہے ۔ آئندہ کئی دنوں تک اس سے نجات حاصل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ محکمہ موسمیات نے پہلے ہی خبردار کیا ہے کہ درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوگا اور گرمی کی شدت بڑھ سکتی ہے ۔ اس وجہ سے نہ صرف زندگی کے روزمرہ معمولات متاثر ہوسکتے ہیں بلکہ کئی طرح کے مسائل پیدا ہونے کا اندازہ ہے ۔ خاص طور سے پانی کی شدید قلت پیدا ہونے کا خطرہ بتایا جاتا ہے ۔ ملک کے کئی حصوں میں پہلے ہی پینے کے پانی کی کمی محسوس کی جارہی ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ ممبئی میونسپل کارپوریشن نے شہر کو مہیا کئے جانے والے پینے کے پانی میں کمی کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ دہلی اور دوسرے بڑے شہروں کے حوالے سے بھی بتایا جاتا ہے کہ پانی کی کمی کی وجہ سے سختاقدامات کئے جارہے ہیں ۔ شہریوں کو مشورہ دیا جارہاہے کہ پینے کے پانی کو ضایع کرنے کے بجائے اسے حفاظت سے رکھنے کے اقدامات کئے جائیں ۔ عالمی سطح پر لوگوں کو ہیٹ ویو کا سامنا ہے ۔ اس کے اثرات پورے ہندوستان میں پائے جاتے ہیں ۔ جموں کشمیر میں اس وجہ سے لوگ سخت پریشان ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پینے کے پانی کے علاوہ ایگریکلچر کے حوالے سے بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ سنچائی کے لئے پانی کی جتنی ضرورت ہے اس قدر میسر آنا ممکن نہیں ہے ۔ بارشیں بند ہوچکی ہیں اور موسم میں سخت کھنکی پائی جاتی ہے ۔ دھان کی پنیری لگانے کے ایام بہت نزدیک آرہے ہیں ۔ بلکہ کئی علاقوں میں کام پہلے ہی شروع کیا گیا ہے ۔ تاہم کسانوں کو سنچائی کے لئے پانی کی قلت کا اندیشہ ہے ۔ میوہ باغات کے اندر بھی اس طرح کے کئی مسائل کا سامنا ہے ۔ اس وجہ سے باغ مالکان بھی پریشان نظر آرہے ہیں ۔ سب سے بڑا مسئلہ پینے کے پانی کی سپلائی کا ہے ۔ کئی جگہوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پانی کے ذخائر ختم ہورہے ہیں ۔ زیر زمین پانی کی سطح بھی کم ہورہی ہے ۔ ندی نالوں کے علاوہ چشموں اور تالابوں میں پانی کم ہورہاہے ۔ اس وجہ سے جل شکتی محکمے کے لئے صارفین کو پانی مہیا کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں ۔ سرینگر شہر کے علاوہ کئی قصبات کو اس حوالے سے مسائل کا سامنا ہے ۔ اس طرح کے مسائل آگے جاکر بڑھ سکتے ہیں ۔ لوگوں کو خدشہ ہے کہ پینے کے پانی کی کمی کا سامنا کرنا ہوگا ۔
کشمیر میں پانی کے قدرتی وسائل کی کوئی کمی نہیں ۔ لیکن ایسے وسائل کی حفاظت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے ۔ ان وسائل کی حفاظت کے بروقت قدم اٹھائے جاتے تو آج پانی کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔ کئی دہائیاں پہلے خبردار کیا گیا کہ گلیشر جو پانی کا بڑا وسیلہ ہیں تیزی سے پگل رہے ہیں ۔ ان کا حجم دن بہ دن کم ہوتا جارہاہے ۔ بلکہ کئی سو گلیشروں کے بارے میں معلوم ہوا کہ پہلے ہی نابود ہوچکے ہیں ۔ پہلگام ، سونہ مرگ اور گلمرگ میں جو بڑے بڑے گلیشر پائے جاتے ہیں ان کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ ان کا وجود خطرے میں ہے اور عنقریب پگل کر ختم ہوجائیں گے ۔ ان کے حجم کے بارے میں کہا گیا کہ پہلے ہی کم ہوچکا ہے ۔ ان خدشات کے اظہار اور ماہرین کی طرف سے خبردار کئے جانے کے باوجود لوگ نہ ہی متعلقہ منتظم متحرک ہوگئے ۔ پانی کے ایسے ذخائر کو محفوظ بنانے کی کوئی خاص کوششیں نہیں کی گئیں ۔ موجودہ مودی سرکار کی طرف سے ہر گھر نل کا نعرہ لگاکر لوگوں کو راحت پہنچانے کی کوشش کی گئی ۔ اس پالیسی کے تحت بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کی گئی اور کافی سرمایہ کاری کی گئی ۔ بڑے شہروں کے علاوہ دیہات اور دور دراز کے علاقوں میں پانی سپلائی کرنے کے اقدامات کئے گئے ۔ پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ٹنکیاں تعمیر کی گئیں اور پائپ بچھانے کا کام تیزی سے انجام دیا گیا ۔ آج شہر وگام گھروں کے اندر واٹر سپلائی کے انتظامات نظر آرہے ۔ لیکن اس دوران بدقسمتی یہ ہوئی کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پانی کے قدرتی وسائل آہستہ آہستہ ختم ہونے لگے ۔ اس کے نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ لوگ اس پر واویلا کر رہے ہیں ۔ جو اب بے مقصد ثابت ہورہاہے ۔ اس کے لئے رونے دھونے کے بجائے منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جو یہاں نہیں کی گئی ۔ پچھلے کئی دہائیوں کے دوران واٹر باڈیز کے ساتھ انسانی مداخلت بڑھ گئی ۔ ماحولیاتی آلودگی میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ۔ ہوا میں گیسوں کے قدرتی توازن میں بگاڑ پیدا ہوگیا ۔ کاربن گیسز کی مقدار حد سے زیادہ بڑھ گئی ۔ اس نے پورے ماحول پر اپنے اثرات ڈالے ۔ سب سے زیادہ اثر گلیشروں اور پانی کے دوسرے ذخائر پر پڑا ۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگلات کو بلا ضرورت اور بے تحاشہ کاٹا گیا ۔ غریب لوگوں کو رسوئی گیس کے مفت کنکشن دے کر کسی حد تک جنگلات کا تحفظ ممکن تو ہوسکا ۔ لیکن یہ سہولت بھی اس وقت فراہم کی گئی جب جنگلات کو کاٹ کاٹ کر ان کا کی حد تک صفایا کیا گیا تھا ۔ اس دوران نئے درخت اگانے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ۔ ان غلط حرکات کا نتیجہ ہے کہ گرمی کا موسم شروع ہوتے ہی پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ اس صورتحال پر اب قابو پانا مشکل ہے ۔
