ڈاکٹر سہیل زبیری
میں نے اپنے پچھلے مضمون میں اس موضوع پر گفتگو کی تھی کہ کس طرح مسلم معاشرے بحیثیت مجموعی سائنس اور سائنسی فکر کی ترقی میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ پچھلے سات سو سال میں سائنس، فلسفہ، معاشیات، انجینئرنگ، ٹیکنالوجی اور علم کے دیگر شعبوں میں مسلمانوں کی شراکت نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ مسلمانوں نے ان سائنسی اور صنعتی انقلابات میں حصہ لینے کی کوشش ہی نہیں کی جنہوں نے پچھلے پانچ سو سالوں میں مغربی دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔ درحقیقت، انہوں نے اپنے آپ کو تعلیم کے شعبوں میں ان پیش رفتوں سے دور رکھا جو سولہویں، سترہویں اور اٹھارہویں صدیوں کے دوران یورپ میں رونما ہوئیں۔
بیسویں صدی میں کوانٹم میکانکس کے قوانین اور نظریہ اضافیت کی دریافت نے ایک انقلاب برپا کر دیا۔ سائنس کی ان عظیم کامیابیوں کی بدولت ٹیکنالوجی کے میدان میں بڑی پیش رفت ہوئی جنہوں نے ہماری زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ ٹیکنالوجی کے کمالات میں کاریں اور ہوائی جہاز، سیاروں کا سفر اور چاند پر انسان کا اترنا، ریڈیو اور ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور سیل فون، پینسلین کی دریافت اور بہت سی مہلک بیماریوں کا علاج شامل ہیں۔ ہر شعبے میں کامیابیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ لیکن جو لمحہ فکریہ ہے وہ یہ کہ مشرق اور مغرب کی اقوام نے تو اس ترقی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ مگر مسلمان بحیثیت مجموعی کوئی قابل ذکر حصہ ڈالنے میں بری طرح ناکام رہے۔ اس صورت حال میں علمی میدان میں ایک خلیج پیدا ہوئی جو وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس ناکامی کا بنیادی سبب کیا ہے؟
وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے مسلم معاشرے، چاہے وہ کہیں بھی موجود ہوں، باقی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں؟
یہ موضوع تو بہت وسیع ہے اور ایک انتہائی سنجیدہ گفتگو کا متقاضی ہے۔ لیکن میری نظر میں سب سے اہم وجہ مسلم معاشروں میں تعلیمی نظام کی ناکامی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی پیش رفتوں میں مسلمانوں کی غیر موجودگی کا اہم ترین سبب مسلم معاشروں میں تعلیمی نظام کی خرابی میں پنہاں ہے۔
لیکن یہاں ایک عجیب حیران کن صورتحال کا سامنا ہے۔ تقریباً تمام مسلم معاشروں نے وہی نظام تعلیم اختیار کیا ہے جو مغربی ممالک میں نافذ ہے۔ جیسا کہ میں نے گزشتہ مضمون میں ذکر کیا تھا، ہمارے نظام تعلیم کا ڈھانچہ مغرب میں رائج نظام سے مماثلت رکھتا ہے۔ وہاں کی طرح سولہ سال تک پرائمری، مڈل اور ہائی اسکول کی تعلیم کے بعد کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند افراد کے لیے ایم فل اور پی۔ایچ۔ ڈی کے پروگرام موجود ہیں۔ یہاں الگ الگ انجینئرنگ اور میڈیکل کالج بھی موجود ہیں۔ ان سب تعلیمی اداروں میں تقریباً وہی سلیبس نافذ ہے جو مغربی دنیا کے تعلیمی اداروں نافذ ہے۔ تاہم عجیب بات یہ ہے کہ مسلم ممالک میں موجود تعلیمی ادارے کوئی قابل ذکر سائنسدان، فلسفی اور ریاضی دان پیدا نہیں کر سکے جیسا کہ غیر مسلم دنیا میں ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟
ایسا کیوں ہے کہ مسلم معاشروں میں تعلیمی نظام مغربی معاشروں کے نظام تعلیم کی بھونڈی شکل بن کر رہ گیا ہے؟
اس مضمون میں، میں تعلیمی نظام میں مسلم معاشروں کی ناکامی کا سراغ لگانا چاہوں گا۔
وہ کیا عوامل ہیں جنہوں نے مسلم معاشروں میں تخلیقی سوچ کو پنپنے سے روکے رکھا ہے؟
اب سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ چونکہ سائنسی تعلیم کی پستی تمام مسلم معاشروں کا مشترکہ مسئلہ ہے اس لیے قدرتی طور پر مذہبی روایات کا تعلیمی نظام پر اثر کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
میرے نزدیک تعلیم کا بنیادی مقصد ایک تخلیقی ذہن تیار کرنا ہے، اور ایک تخلیقی ذہن کی سب سے بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر اس چیز پر سوال کرنا چاہتا ہے جو اس کی سمجھ سے باہر ہوتی ہے۔ مذہب، اور خاص طور پر اسلامی معاشروں میں، جس چیز پر سب سے زیادہ زور ہے وہ یہ کہ مذہبی عقائد کو من و عن تسلیم کیا جائے۔ مسجدوں کے منبروں سے جو کچھ بھی کہا جائے، چاہے وہ عقل سے کتنا ہی بالاتر ہو، اس کو تسلیم کرنا ہر مسلمان کا فرض بن جاتا ہے۔ مذہبی روایات اور عقائد پر کیے گئے معمولی سے سوال پر عمومی طور پر شدید رد عمل ہوتا ہے اور اسے اسلامی عقائد پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔
مسلم معاشروں میں بچے کو سب سے پہلے جس سبق کا واسطہ پڑتا ہے وہ یہ کہ مذہبی عقائد اٹل ہیں اور ان میں سوال کی کوئی گنجائش نہیں۔ قرآن میں لکھے گئے الفاظ چاہے سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں، بالکل درست ہیں۔ ان پر معمولی سوال کرنے سے ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اس رویے کے ساتھ بڑے ہوتے بچے کی آزادانہ سوچ کی صلاحیت تو اسی وقت سلب کر لی جاتی ہے جب اس نے تعلیمی سیڑھی پر پہلا قدم بھی نہیں رکھا ہوتا ہے۔
مذہب کا تو بنیادی مقصد یہ تھا کہ ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جس میں انسانی اقدار کو فروغ دیا جائے۔ لیکن ہوا یوں ہے کہ مسلم معاشرے نہ تو ایک سائنسی سوچ پیدا کر سکے اور نہ ہی ایسی سوسائٹی کی بنیاد رکھ سکے جس میں ایمانداری، سچ، باہمی احترام اور امن کا دور دورہ ہو۔ معاشرتی برائیاں مثلاً جھوٹ، ملاوٹ، دھوکا دہی، عمومی طور پر مسلم معاشروں کا طرہ امتیاز بن گئی ہیں۔
مذہب سے وابستہ راست بازی کے زہر نے تو ہمارے معاشرے کے بہت سے پہلوؤں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، لیکن تعلیم کے شعبے میں اس کا کردار ہولناک رہا ہے۔ اس نے ایک طرف تو معاشرے میں باہمی احترام کے ماحول میں اختلاف رائے کے تصور کو ختم کر دیا ہے، تو دوسری طرف تعلیمی نظام میں سے سچ کی بے لاگ تلاش کے تصور کو پاش پاش کر دیا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہی کسی اسلامی ملک کی تعلیمی پالیسی نے ایک تخلیقی ذہن کی آبیاری کو اپنا مطمح نظر قرار دیا ہو۔
بنیاد پرستی نے یہ سوچ پیدا کی ہے کہ قرآن سائنس سمیت تمام علم کا سرچشمہ ہے۔ میرے نزدیک اس تصور نے اسلامی دنیا میں قائم نظام تعلیم کو تباہ کرنے میں شاید سب سے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اس سوچ نے اسلامی دنیا میں سائنس کو مذہب کے تابع بنا دیا ہے۔ یہ سوچ پیدا کی ہے کہ مغربی دنیا میں برپا ہونے والے سائنسی انقلاب اور اس سے وابستہ صنعتی اور ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے سائنسی تعلیم کی بجائے قرآن کو سمجھنا زیادہ اہم ہے۔
یہ سوچ ہمیشہ سے موجود نہیں تھی۔ وہ دور جب اسلامی سنہری دور کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں، قرآن صرف ہدایت کا سرچشمہ تھا۔ اسلامی سوسائٹی میں اس کا کردار زندگی گزارنے کا قرینہ سکھانا تصور کیا جاتا تھا۔ قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں نے ایک عظیم تہذیب کو جنم دیا تھا۔ لیکن اسلامی تاریخ کے پہلے پانچ سو سال میں، جب سائنسی علوم اور سائنسی دریافتوں میں مسلمان سب سے آگے تھے، کسی نے یہ عجیب و غریب توجیہہ نہیں دی کہ قرآن میں تمام سائنسی علم مخفی ہے۔
میں نے سائنس اور قرآن کے موضوع پر لکھے گئے ایک مضمون میں تفصیل سے بیان کیا تھا کہ کسی مسلم سائنسدان نے اپنی کسی دریافت کو قرآن سے ماخوذ قرار نہیں دیا تھا۔ اسی طرح کسی سائنسدان نے قرآن کی کسی آیت کی بنیاد پر کوئی ایسا قانون دریافت کرنے کا آج تک دعوی نہیں کیا جس کو سائنسی سچائی کی کسوٹی پر پرکھا جا سکے۔ قرآن کو سائنسی کتاب کہنا کچھ ایسا ہے جیسے کوئی دعوی کرے کہ ملک کے آئین میں معاشیات کا سارا علم موجود ہے۔
جن معاشروں میں عقائد کو عقلی سوچ سے بالاتر سمجھا جائے اور اس کو تعلیم کی بنیاد تصور کیا جائے، وہاں ایک گھٹن کا ماحول پیدا ہونا لازمی ہے۔ ایسا ماحول ذہن کی تخلیقی صلاحیتیں سلب کر دیتا ہے اور یہی کچھ آج کے مسلم معاشروں میں ہو رہا ہے۔
یہ مسلم معاشروں کا المیہ ہے کہ انہوں نے اپنے تعلیمی نظام کی بنیاد مذہبی تصورات پر رکھی، لیکن مذہبی اقدار کو اپنا نہ سکے۔ اس بات کا رونا ہے کہ ہم نے اسلامی اقدار کو اپنایا ہی کہاں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسلمان اپنی تاریخ میں اس لیے خوار ہوتے رہے کہ انھوں نے قرآنی تعلیمات پر عمل نہیں کیا۔ اگر وہ آج بھی قرآنی تعلیمات پر عمل کریں تو دنیا کی عظیم ترین قوم بن سکتے ہیں۔ لیکن ذرا اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں۔ کیا ان بے شمار مدرسوں نے، جہاں اسلامی تعلیم کے علاوہ کچھ بھی نہیں پڑھایا جاتا، اعلی اقدار اور تخلیقی ذہن سے معمور افراد پیدا کیے ہیں؟
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا میں تعلیمی نظام میں کن بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک ایک ایسا تعلیمی نظام جو آج کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو، اس میں سے مذہبی عنصر کو خارج کرنا اشد ضروری ہے۔ مذہب کا کردار صرف ان اقدار کا فروغ ہے جو انسان کی ذاتی زندگی اور باہمی میل جول میں سچائی، ایمانداری، باہمی عزت، اور رحم دلی کا باعث بن سکے۔ اس سوچ نے ہمارے معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے کہ انسانی اقدار مذہبی تعلیم سے وابستہ ہیں۔
ذرا اپنے ارد گرد نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ کیا مذہبی تعلیم نے ایسا ذہن پیدا کیا ہے جو جھوٹ کو دنیا کی سب سے بڑی برائی سمجھے، کیا مذہبی تعلیم نے اپنے سے مختلف آراء رکھنے والے افراد کے لیے باہمی عزت کا سبق سکھایا ہے۔ کیا مذہبی تعلیم نے ایسا کردار پیدا کیا ہے جس کی صداقت اور ایمانداری پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کیا جا سکے۔ کیا مذہبی تعلیم نے ایسے منصف پیدا کیے ہیں جن کا انصاف شک و شبہ سے بالاتر ہو۔ ایسا کیوں ہے کہ مذہبی تعلیم انسانی اقدار پیدا کرنے میں بری طرح ناکام ہے؟
سچی بات یہ ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ تعلیمی نصاب میں قرآنی آیات، حدیثوں کے مجموعے اور اسلامی تاریخی واقعات شامل کرنے سے ایک اچھا انسان بننے میں مدد ملی ہو۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ معاشرے جو غیر اسلامی ہیں اور جہاں کے تعلیمی نصاب میں مذہب شامل نہیں، وہاں کے افراد کا کردار کہیں بہتر نظر آتا ہے۔ ایمانداری راست بازی، باہمی عزت اور انصاف میں یہ معاشرے کہیں آگے ہیں۔ ہم کو اپنے خول سے نکل کر یہ سوچنا ہو گا کہ ایسا کیوں ہے۔
میں ایک آئندہ مضمون میں اس اہم سوال کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
یہ احساس کرنا ضروری ہے کہ ہمارے موجودہ تعلیمی نظام نے، جس میں مذہب کو غیر ضروری طور اہمیت حاصل ہے، نہ تو معاشرے میں اعلی سماجی اقدار کو فروغ دیا ہے اور نہ ہی ایک آزادانہ سوچ اور تخلیقی ذہن پیدا کرنے میں مدد کی ہے۔ ذرا غور تو کریں کہ جس تعلیمی نظام میں ناظرہ قرآن، جس میں طالب علم کو یہ تک پتہ نہ ہو کہ کیا پڑھا جا رہا ہے، پہلی جماعت میں ایک ضروری مضمون کے طور پر پڑھایا جائے، وہاں ایک سائنسی ذہن کی آبیاری کیسے ہو سکتی ہے۔ ناظرہ قرآن کو ایک صحت مند معاشرے کے لیے ضروری سمجھنا انتہائی خطرناک ہے۔
مذہب سے وابستہ تعلیم کے ذہن پر اثرات ایک مثال سے واضح ہیں۔ ہوا یوں ہے کہ اردو کی کتاب میں محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی اور محمود غزنوی جیسے مسلمان جنگی ہیروز کے بارے میں تو خوب زور شور سے پڑھا یا جا تا ہے لیکن افلاطون، ارسطو، الکندی، الفارابی، ابن سینا، الغزالی، ابن رشد اور دیگر کے ان فلسفیانہ نظریات اور سائنسی کارناموں کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے، جنہوں نے عالمی تہذیب کی فکری تاریخ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک مسلم ذہن میں ہیرو کا تصور ایک ایسے جنگجو سے وابستہ ہے جو اپنے مذہب اور اقدار کی برتری کے لیے خون بہانے سے دریغ نہیں کرتا۔ جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بچپن سے ان افراد کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا جن کے علمی کارناموں کی بدولت انسانی تاریخ اور ہماری زندگیاں تابناک ہیں۔
میرے نزدیک تو اسلامی دنیا کو اگر تعلیمی طور پر ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہونا ہے تو تعلیم کو سیکولر بنیادوں پر قائم کرنا ہو گا۔ اردو، انگریزی، ریاضی، سائنس، تاریخ اور معاشرتی علوم کی کتابوں پرسے مذہب کے اثر کو قطعی طور پر ختم کرنا ہو گا۔ ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہوگی جس میں بچپن سے ہر موضوع پر باہمی احترام کے ماحول میں سوال کرنے کی مکمل آزادی ہو گی۔ تعلیم کا مقصد ایک آزادانہ سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں سے مزین ذہن بنانا ہو گا۔ مذہب کا رول صرف ذاتی زندگی تک محدود ہونا چاہیے۔