سیاحوں کی بڑے پیمانے پر کشمیر آمد جاری ہے ۔ ملک اور دوسرے علاقوں میں گرمی کی لہر میں تیزی آنے کی وجہ سے سیاح کشمیر کا رخ کررہے ہیں ۔ ملک کے مختلف حصوں کے علاوہ بیرونی ممالک سے سیاحوں کی آمد جاری ہے ۔ اطلاع ہے کہ اب تک دس لاکھ سے زیادہ سیاح وارد کشمیر ہوچکے ہیں ۔ سیاحت سے جڑے حلقوں کا کہنا ہے کہ سیاحوں کے استقبال اور ان کے ٹھہرنے کے بہتر انتظامات کئے جاچکے ہیں ۔ ان حلقوں کا خیال ہے کہ سیاحوں کی مہمان نوازی کی کوشش کی جارہی ہے اور ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ سیاح واپس جاکر کشمیر کے بارے میں اچھے تاثرات کا اظہار کریں ۔ اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر سیاح واپس جاکر جاننے والوں کو کشمیر سیر کا مشورہ دیتے ہیں ۔ سوشل میڈیا سے بھی پتہ چلا ہے کہ سیاح کشمیر آنے سے پہلے منفی پروپگنڈا سے گھبرائے ہوتے ہیں ۔ لیکن یہاں آکر انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں جس سے ڈر یا خوف محسوس کیا جائے ۔ محکمہ ٹورازم کے حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ امسال بڑے پیمانے پر سیاح کشمیر سیر کے لئے آئیں گے ۔ خاص طور سے ڈائرکٹر ٹورازم کو امید ہے کہ پچھلے تمام ریخارڈ ٹوٹ کر بہت زیادہ تعداد میں سیاح کشمیر آئیں گے ۔ کہا جاتا ہے کہ فی الوقت ہاوس بوٹوں کے علاوہ تمام سیاحتی مقامات پر ہوٹل سیلانیوں سے پوری طرح سے بھرے ہوئے ہیں اور یہاں واقعی تل دھرنے کو جگہ نہیں ۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ اگلے مہینے کے آخر تک بیشتر ہوٹلوں اور ریستورانوں کی بکنگ کی گئی ہے ۔ ٹورازم سے جڑے تمام حلقوں کا دعویٰ ہے کہ سیاحوں کو بہترین سہولیات بہم پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ تاہم اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا جارہاہے کہ بجلی کی کٹوتی کی وجہ سے انہیں شرمندگی اٹھانا پڑرہی ہے ۔ یہ بات پہلے سے معلوم ہے کہ سیاحوں کی بڑے پیمانے پر آمد کے ساتھ ساتھ گرمی کی شدید لہر بھی جاری ہے ۔ اگلے مہینے بھی گرمی کی اس لہر کے جاری رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے ۔ محکمہ موسمیات کی طرف سے خبردار کیا گیا ہے کہ ہیٹ ویو کئی ہفتوں تک جاری رہے گی اور فی الحال اس میں کسی قسم کی کمی آنے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ بلکہ جون کے مہینے کے دوران اس میں مزید شدت آنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے ۔ کشمیر میں درجہ حرارت پہلے ہی 32 ڈگری سے اوپر چلا گیا ہے جبکہ جموں میں اس کی شدت 42 ڈگری سے اوپر ہے ۔ اس دوران بجلی پر چلنے والے آلات کے ذریعے اتنی شدید گرم لہر کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ اے سی وغیرہ بجلی پر چلاکر کافی سہولت میسر آتی ہے ۔ ہوٹل والوں نے اس طرح کی سہولیات کا انتظام تو کیا ہوا ہے ۔ لیکن بجلی کی آنکھ مچولی کی وجہ سے ان آلات کا بھر پور فائدہ اٹھانا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ بہت سے ہوٹل والوں کے پاس بجلی کا متبادل موجود ہے ۔ لیکن کئی ہوٹل ایسے بھی ہیں جہاں اس طرح کی سہولت نہیں ۔ ایسے ہوٹلوں میں ٹھہرے سیاحوں کو پریشانیوں کا سامنا رہتا ہے ۔ بجلی محکمے کا کہنا ہے کہ کشمیر کو جموں خطے سے زیادہ بجلی فراہم کی جاتی ہے ۔ اس طرح کا مقابلہ کرکے کیا مسیج دی جارہی ہے ہماری سمجھ سے باہر ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جموں اور کشمیر دونوں خطوں کے عوام کو ان کی ضرورت کے مطابق بجلی مہیا کی جائے ۔ اس سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا کہ کشمیر کو جموں خطے سے زیادہ بجلی فراہم کی جائے ۔ ممکن ہوتو سرینگر شہر کو جموں شہر کے برابر بجلی فراہم کی جائے ۔ یہ شاید ممکن نہیں ۔ تاہم سیاحوں اور مقامی شہریوں کا خیال کرتے ہوئے دونوں خطوں میں بجلی سپلائی بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ سیاحوں کی کشمیر آمد میں بتدریج اضافہ ہورہاہے ۔ مرکزی سرکار نے اس حوالے سے قابل تعریف کام کیا ۔ خاص طور سے وزیراعظم نے اس معاملے میں ذاتی دلچسپی لے کر دنیا کو پیغام دیا کہ کشمیر کا خطہ سیاحوں کے لئے بہترین مقام ہے ۔ پچھلی تین چار دہائیوں کے دوران سیاحوں نے کشمیر آنا چھوڑ دیا تھا ۔ یہاں کے جنگی حالات نے ان کے آنے میں سخت رکاوٹ ڈالی ۔ اس وجہ سے سیاحوں نے دوسرے علاقوں کو جانا پسند کیا ۔ ابھی بھی ملک میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں کشمیر سے کئی گنا زیادہ سیاح سیر کرنے آتے ہیں ۔ ممبئی ، دہلی ، آگرہ وغیرہ ایسے مقامات ہیں جہاں سیاحوں کے لئے دلچسپی کے زیادہ سامان موجود ہیں ۔ وہاں سیاح ہسٹری کا بہتر مطالعہ کرنے کے علاوہ کھلی فضا میں دن گزار پاتے ہیں ۔ کشمیر میں ملی ٹنسی کے علاوہ بھی کئی معاملات کی وجہ سے کھلی فضا میں عیش کرنا ممکن نہیں ۔ بیشتر سیاح اس طرح کے ماحول کو پسند نہیں کرتے جہاں انہیں اپنی پسند کے مطابق گھومنے پھرنے کی اجازت نہ ہو ۔ اگرچہ ہر ملک کے اندر سیاحوں کو وہاں کی روایات کا پاس کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے ۔ تاہم سیاح بہت زیادہ پابندیوں کو پسند نہیں کرتے ۔ تاہم کشمیر میں سیاحوں کو آہستہ آہستہ بہتر ماحول فراہم ہورہاہے ۔ اب بجلی سپلائی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے خاص طور سے سیاحتی مقامات پر بلا خلل بجلی بہم رکھنے کی ضرورت ہے ۔