شاہد ٹاک
کشمیر میں لوک سبھا انتخابات میں جو جوش و خروش نظر آیا ہے اس نے ملک کے ساتھ دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ جمہوری عمل پر عوام کا یقین پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔ پولنگ کے دوران عوام میں اپنے نمائندوں کے انتخاب کے لیے حق رائے دہی کا استعمال قابل دید رہا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ کشمیر کے چپے چپے میں یہی رجحان نظر آرہا ہے ۔ شہروں سے سرحدی علاقوں تک پہلے انتخابی مہم اور اب پولنگ نے کشمیر کے نئے ماحول کی جھلک پیش کردی ہے۔ پہلے انتخابی مہم میں بھیڑ اور اب پولنگ اسٹیشنوں کے باہر لمبی لمبی قطاریں جمہوری جشن میں عوامی حصہ داری کی کہانی بیان کررہی ہیں ۔
لوک سبھا انتخابات 2024 کے لیے مرحلہ وار ووٹنگ ہو چکی ہے اور ساتویں مرحلے کی ووٹنگ یکم جون کو ہونی ہے۔ اگر ہم اس الیکشن میں قومی سطح پر دیکھیں تو 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے مقابلے ووٹنگ فیصد میں معمولی کمی آئی ہے لیکن جموں و کشمیر میں ایک بڑا معجزہ دیکھنے کو ملا ہے۔ مرکز کے زیر انتظام علاقے میں 35 سال بعد ایسی بمپر ووٹنگ ہوئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کشمیری عوام کا ہندوستانی جمہوریت پر کتنا اعتماد ہے۔
الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس بار جموں و کشمیر میں 58.46 فیصد ووٹنگ ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے کی اننت ناگ-راجوری سیٹ پر بمپر ووٹنگ ہوئی، جس کی وجہ سے ریاست نے ووٹنگ کے معاملے میں 35 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ اگر ہم اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو ریاست میں 2019 کے مقابلے میں 14 فیصد زیادہ ووٹنگ ہوئی ہے۔ وادی کشمیر کی بات کریں تو تقریباً 50.86 فیصد لوگوں نے ووٹ ڈال کر جمہوریت کے سب سے بڑے تہوار میں حصہ لیا ہے۔ وادی کے کشمیریوں نے 2019 کے مقابلے میں اس بار 19 فیصد زیادہ ووٹ ڈالے ہیں، جو جمہوری نظام کی توقعات کے لحاظ سے ایک مثبت علامت ہے۔
شوپیان ضلع کا زینہ پورہ حلقہ کو ایسے علاقے ہیں جنہیں حساس ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ جموں و کشمیر کے پچھلے آخری انتخابات یعنی سال 2019 کے پارلیمانی انتخابات کے دوران اس علاقے کے کئی پولنگ مراکز پر ایک بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا تھا۔ ان علاقوں میں وآسوہالن ، مغل پورہ،ٹینگ ونی، پہنو،آڑو،رامنگری،ریشی نگری ،وہیل،کاپرن اور اویند سمیت کہی ایسے علاقے شامل تھے،اس کی اہم وجہ حساس علاقہ ہونا تھی ۔جس کے سبب لوگ ووٹنگ میں حصہ لینے سے کتراتے تھے۔ تاہم، رواں پارلیمانی انتخابات میں یہاں کی صورتحال بالکل مختلف نظر آ رہی ہے۔ پولنگ کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور لوگ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے آ رہے ہیں۔
سال 2019 کے انتخابات میں بائیکاٹ کا مطلب تھا کہ عوامی اعتماد کی شدید کمی تھی۔ مقامی آبادی حکومت اور انتخابی عمل کے خلاف اپنے عدم اعتماد کا اظہار کر رہی تھی۔ سیاسی رہنماؤں کی ناکامی، ترقیاتی منصوبوں کی کمی، اور سیکیورٹی کی غیر یقینی صورتحال جیسے عوامل نے اس بائیکاٹ کو جنم دیا۔ عوام کو یہ یقین نہیں تھا کہ ان کا ووٹ ان کی زندگیوں میں کسی قسم کی مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔
حساس علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں پر سیکیورٹی خدشات بھی بہت زیادہ تھے۔ عسکریت پسندوں کی موجودگی، سیکیورٹی فورسز کے آپریشنز اور بار بار کی جھڑپیں، پتھراؤ کے واقعات کے علاؤہ نامعلوم افراد کی جانب سے کئی سرکاری عمارتوں کو نظر آتش کرنا لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرتا تھا۔ ان حالات میں لوگ اپنے گھروں سے نکلنے اور ووٹ ڈالنے سے خوفزدہ تھے۔
تاہم وقت کے ساتھ ساتھ حکومت اور سیکیورٹی اداروں نے علاقے کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے متعدد اقدامات کئے۔ ترقیاتی منصوبوں کا آغاز، بنیادی سہولیات کی فراہمی، اور سیکیورٹی فورسز کی مستقل موجودگی نے علاقے میں امن و امان کو بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ، مقامی نمائندوں نے عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ کوششیں کیں، جس سے عوامی اعتماد میں اضافہ ہوا۔
آج کے پارلیمانی انتخابات میں زینہ پورہ شوپیان کانسٹیچونسی کی پولنگ شرح میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ۔ یہ تبدیلی اس بات کی عکاس ہے کہ عوام نے دوبارہ انتخابی عمل پر اعتماد کرنا شروع کر دیا ہے۔ لوگ اب اپنے مسائل کے حل کے لئے ووٹ کے ذریعے آواز اٹھانے پر یقین رکھتے ہیں۔
سال 2019 میں انتخابات کے دوران، حکومت نے سخت حفاظتی انتظامات کئے تھے تاکہ انتخابی عمل کو پر امن طریقے سے مکمل کیا جا سکے۔ پولنگ عملے کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے پہنچایا گیا کیونکہ اس وقت کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے زمین پر سفر کرنا خطرناک ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ، انتخابات کے دوران موبائل انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کر دی گئی تھیں تاکہ کسی بھی قسم کی افواہوں یا افتراضی حملوں کو روکا جا سکے۔
تاہم، آج کے حالت کچھ مختلف نظر آ رہے ہیں ۔حالات میں بہتری آئی ہے اور سیکیورٹی فورسز کی مستقل کوششوں نے علاقے میں امن و امان کو بہتر بنایا ہے۔ مقامی آبادی کی شمولیت اور ترقیاتی منصوبوں نے بھی حالات کو بہتر بنانے میں مدد دی ہے۔ لوگ اب آزادانہ طور پر اپنی روزمرہ کی زندگی گزار رہے ہیں اور کاروباری سرگرمیاں بھی معمول کے مطابق جاری ہے۔
سال 2019 میں اگرچہ شوپیان ضلع کی زینہ پورہ کانسچیونسی میں بائکاٹ کا اثر دیکھا گیا اور ووٹنگ 1.7فیصد درج ہوئی تاہم آج کے الیکشنز میں لوگوں کی کافی تعداد نے شرکت کی اکثر و بیشتر پولنگ مراکزوں پر لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں صبح سے ہی دیکھنے کو ملی جبکہ اس الیکشن میں 41.07 فیصد ووٹنگ درج کی گئی ۔
غلام محمد گنائی نے جو چتراگام کا رہائشی ہے بتایا میں نے 18 سال کی عمر سے اج 65 سال کی عمر تک ہر اپنا ہرکوئی ووٹ ڈالا ہے۔ میں نے کھبی بھی بائکاٹ کا ساتھ نہیں دیا اور اگر کبھی کوئی دباؤ بھی ہوتا تھا ووٹ نہ ڈالنے کے لیے تب بھی میں نے قومی فریضہ کے حصہ نہ بننے سے یعنی ووٹ نہ دینے کا ساتھ نہیں دیا ۔ انہوں نے بتایا کہ میرے حساب سے آج کے پارلیمانی انتخابات میں زیادہ تر لوگوں نے۔ حصہ لیا ۔غلام محمد گنائ کا کہنا تھا کہ انکے علاقے میں اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے اس علاقے کے لوگوں کو کافی مشکلات ہیں جس کے لیے انہوں نے ووٹ دیا مزید بتایا کہ بےروزگار نوجوانوں کی تعداد انکے علاقے میں بڑھ چکی ہے اور انہیں امید ہے انکے ووٹ کی وجہ سے جو پارلیمنٹ ممبر کامیاب ہوگا وہ ان بےروزگار نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کریگا ۔
اٹھارہ سالہ عشرت جان جنہوں نے اپنی زندگی کا پہلا ووٹ ڈالا نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں 2014 سے ترقیاتی کام رک چکے ہیں خاص کر یہاں کی رابطہ سڑکیں تباہ ہوچکی ہے جسکے لیے میں نے اپنی زندگی کا پہلا ووٹ ڈالا اور مجھے امید ہے کہ میرے اس ووٹ ڈالنے کے بعد ہمارے علاقے میں ترقیاتی کام ہونگے ۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں پہلے بائیکاٹ ہوا کرتا تھا جسکی وجہ سے یہاں ترقیاتی کام نہیں ہوئے انہوں نے مزید بتایا میں جس امیدوار کو اپنا ووٹ ڈال رہی ہوں مجھے سو فیصد بھروسہ ہے کہ ہمارے علاقے کے کام کرینگے ۔
ایک ایڈوکیٹ جو سیاسی لیڈر بھی ہے نے بتایا کہ یہاں بائکاٹ ہوتا نہیں تھا بلکہ یہاں بائکاٹ کروایا جاتا تھا لیکن جتنے بھی فریقین اس میں ملوث تھے ان سب میں اب سمجھداری آگئ ہے اور وہ اب ایسا نہیں کرتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ یہاں پر ووٹنگ صبح 7 بجے سے شروع ہونے تھی لیکن لوگوں میں ووٹ ڈالنے کا اتنا جوش اور ولولہ تھا کہ لوگ صبح ساڑھے چھ بجے ہی پولنگ مراکزوں پر اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کے لیے پہنچے ۔ انہوں نے بتایا کہ کہی برسوں بعد میں نے اپنے علاقے میں جمہوریت کا جشن دیکھا جسے دیکھنے کے بعد مجھے کافی مسرت ہوئی ۔
ڈپٹی کمشنر شوپیان فضلل حسیب نے بتایا کہ 2019 کے انتخابات میں صرف 1.7 فیصد لوگوں نے اپنا ووٹ ڈالا تھا، جو کہ ایک تشویشناک صورتحال تھی۔ تاہم، اس بار پارلیمانی انتخابات میں 42 فیصد لوگوں نے شرکت کی، جو ضلع انتظامیہ شوپیان کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے اس بڑی تعداد کو عوام کے جمہوری عمل پر اعتماد اور حکومت کے بہتر انتظامات کا نتیجہ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ طور پر منعقد ہوئے، جس میں عوام نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا۔ انتخابات کے دوران سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے تاکہ ووٹرز بلا خوف و خطر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر سکیں۔
ایس ایس پی شوپیان تنوشری نے کہا کہ الیکشن کو منعقد کرانے کے لیے بہترین سکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔ جبکہ ضلع انتظامیہ شوپیان اور پولیس کے اچھے تال میل سےکی وجہ سے انتخابات کامیابی کے ساتھ اور بغیر کسی ناخوشگوار واقعہ کے اختتام پزیر ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اس کامیاب انتخابات نے نہ صرف عوام کے جمہوری عمل میں اعتماد کو بحال کیا ہے بلکہ شوپیان ضلع کی انتظامیہ کی قابلیت اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا ہے۔ عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ جمہوری عمل میں بھرپور حصہ لینے کے خواہاں ہیں۔
یہ تبدیلی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ عوامی مسائل کا حل، اور ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل عوامی اعتماد کو بحال کرنے میں کتنی اہم ہوتی ہیں۔ زینہ پورہ کانسٹیچونسی کی مثال یہ ثابت کرتی ہے کہ اگر حکومت اور مقامی نمائندے عوام کے مسائل کو سنجیدگی سے لیں اور ان کے حل کے لئے عملی اقدامات کریں تو عوام کا اعتماد دوبارہ جیتا جا سکتا ہے
شوپیان ضلع یونین ٹیریٹری جموں و کشمیر میں واقع ہے۔ یہ ضلع کشمیر وادی کے جنوبی حصے میں ہے اور اپنی خوبصورتی اور سیب کے باغات کے لئے پورے ملک ہندوستان میں مشہور ہے۔ضلع شوپیان پورے ملک میں اپنے میٹھے اور رس دار سیبوں کے لئے منفرد مقام رکھتا ہے اور یہاں کے سیب دنیا بھر میں اپنی قدرتی رنگت،رس اور مٹھاس کیلئے مشہور ہے۔ وہیں یہ ضلع پیرپنچال کے پہاڑوں کے قریب ہے اور یہاں کا قدرتی حسن اور جنگلات سیاحوں کو بہت پسند آتے ہیں۔ شوپیان میں بہت سے مقامات تاریخی اور مذہبی اہمیت کے حامل ہیں۔
سیاسی اعتبار سے کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو شوپیان ضلع میں جموں و کشمیر کی دو بڑی سیاسی جماعتیں، نیشنل کانفرنس (این سی ) اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی ) یہاں سرگرم ہیں ۔ یہاں کے لوگوں نے ہمیشہ سے ہی ان دونوں سیاسی پارٹیوں کو انتخابات میں اپنا ووٹ دیا ہے ۔ سال 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں بھی یہاں کے لوگوں نے زیادہ تر ووٹ ان ہی دو پارٹیوں یعنی نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو دیے جسکے بعد نیشنل کانفرنس کے حسنین مسعودی اس علاقے کے لئے ممبر پارلیمنٹ بن گئے ۔ وہیں سال 2019 میں جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی شوپیان سمیت جموں و کشمیر کے دیگر حصوں میں اپنی موجودگی مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے اور کہی لوگوں نے اس پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کی ۔ان تمام عوامل کی وجہ سے شوپیان کا سیاسی ماحول ہمیشہ تبدیل ہوتا رہتا ہے اور یہاں کے لوگوں کے لیے مقامی اور قومی سیاست دونوں اہمیت رکھتے ہیں۔
