نذیر مومن
اساتذہ صاحبان کے بارے میں جو میرا تحقیقی مضمون فیس بک پر پوسٹ ہوا ، اس پر بہت سارے کمنٹس موصول ہوئے ۔ حسب توقع اس نے ایک مثبت بحث شروع کردی مگر مضمون کو بہت سارے لوگوں نے پڑھے بغیر صرف ٹائٹل دیکھ کر اپنے تاثرات رقم کئے۔ یہ موضوع میرے خیال میں پہلی بار اس طرح زیر بحث آیاھے ۔
اس کا مرکزی خیال یہ ھے کہ ایک استاد کی بھی نفسیاتی نزاکت اور بناوٹ ہوتی ھے جس طرح ایک بچے کی ہوتی ھے ۔ ماہرین تعلیم بچے کی نفسیات پر تو توجہ دیتے ھیں اور اس کو مد نظر رکھتے ھوئے پالیسیاں بنائی تو جاتی ہیں مگر ایک استاد کی نفسیات کا مطالعہ نہیں کیاجاتاھے جو بچے کے نفسیاتی مطالعے سے کچھ کم اہمیت نہیں رکھتاھے ۔
آپ ایک استاد کی نفسیات کو نظر انداز کرتے ہوئے اچھے معیار کی تعلیم کا تصور بھی نہیں کرسکتے ھیں۔ یہاں کے روائتی تعلیمی نظام میں ایک استاد کی جذباتی اور نفسیاتی حساسیت کو قربان کرتے ہوئے صرف بچے پر توجہ مرکوز کیاجاتاھے جو بہت ھی گمراہ کن اور غلط ھے کیونکہ اس طرح آپ ایک استاد کو بچے کے ہاتھوں یرغمال بنادیتے ہیں ۔بچے کو حد سے زیادہ اہمیت دے کر ایک استاد کو اپنے اختیارات powers سے جبری طور پر سرینڈر ہونا پڑتاھے جو اس کی نفسیات کو چھلنی کردیتاھے۔ ایک استاد کا بھی عزت نفس ہوتاھے اور وہ کسی دوسرے پیشہ ور کی طرح نہیں کہ اگر اس کی نفسیات گھائل ہوجاتی ھے تو وہ اسی شخص تک محدود رہتاھے ۔ نہیں جی ، ایک استاد کی نفسیات کا عکس سیدھے بچے کی شخصیت پر اور تعلیم کی معیار یا درس و تدریس پر مرتب ہوجاتاھے لہذا اس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ھے۔
کیا آپ نے کبھی سوچا ھے کہ ایک پریشان حال استاد ، انتظامیہ یا ہیڈ آف دی انسٹٹیوشین کے ذریعے ستایا ہوااستاد، بگڑے ماحول سے خائف استاد ، rowdy بچوں کے درمیان جینے والا استاد ، مختلف پریشرز اور حد سے متجاوز احکامات کے بوجھ تلے دبا ہوا استاد جب کلاس روم میں جاتا ھو تو وہ وہاں کیا ڈیلیور کرے گا ؟ وہ تمام تر فطری اصولوں اور قانون قدرت کے مطابق اپنی تمام مصیبتوں اور پریشانیوں کو بچوں کے حوالے کرے گا ، یہ سب کچھ directly یا indirectly وہ بچے کے دماغ میں منتقل کردے گا لہذا ضرورت اس بات کی ھے کہ معیاری تعلیم کو قائم رکھنے کیلئے ایک استاد کی نفسیات کا مطالعہ ہو اور اس سے خوش اسلوبی اور فری ماحول میں بنا کسی دباؤ کے تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دینے کی آزادی دی جائے ۔ چونکہ اس کا جاب دوسروں کے جاب سے بالکل مختلف ھے لہذا اس کیساتھ دوسرے ملازمین کی طرح برتاو نہ کیا جانا چاہیئے ۔ اس کی نفسیاتی ضرورت ، انسان سازی کی ذمہ داری اور بچوں کی نفسیات کیساتھ راست تعلقداری کو ملحوظ نگاہ رکھتے ہوئے کچھ آزادیاں اور رعایات ایک فطری تقاضا ھے۔
میرے اس مضمون کو کچھ انسانوں سے زیادہ A.I نے کسی حد تک سمجھا ھے جب اس کا تبصرہ اس طرح سامنے آتاھے ( 30/5/2024)