یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ محکمہ صحت و طبی تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں ۔ اس حوالے سے پہلے ڈاکٹروں کے اوقات کار میں اضافہ کیا گیا ۔ عام لوگوں کی ضرورت کو دیکھ کر طبی عملے کو ہدایت دی گئی کہ چار بجے کے بجائے ہسپتالوں سے نکلیں ۔ اس سے یقینی طور کافی سہولت میسر آئی ۔ اب اطلاع ہے کہ آیوشمان بھارت ڈیجیٹل مشن کی عمل آوری کا جائزہ لیا جارہاہے ۔ اسی طرح صورہ ہسپتال کے اندر انتظامی مشنری کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دی جارہی ہے ۔ طبی عملے کے کئی یونین لیڈروں نے اس طرح کی کوششوں کی سراہنا کی ہے ۔ شیرین باغ میں قائم ہسپتال کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہاں آنے والے مریضوں کو بہت سی ایسی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں جن کا کچھ عرصے پہلے کشمیر میں تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ بت سے مریض نجی ہسپتالوں کے بجائے شیرین باغ کے سرکاری ہسپتال کا رخ کررہے ہیں ۔ اس طرح کی تبدیلی کو طبی شعبے کے حوالے سے حوصلہ افزا قرار دیا جارہا ہے ۔صحت سہولیات کی فراہمی میں اس طرح کی کوششیں پہلی بار سامنے آرہی ہیں ۔ ان کوششوں پر عوامی حلقوں میں پذیرائی کی جارہی ہے ۔
صحت اور طبی تعلیم کے سرکاری محکمے سے عوام انتہائی مایوسی کا شکار ہیں ۔اس محکمے کے ساتھ عمومی طور نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ ایسا بلا وجہ نہیں ہے ۔ بلکہ محکمے کا نظام ہی ایسا ہے جہاں مریضوں کو کوئی سہولت مہیا کرنے کے بجائے ان کے ساتھ اجنبیوں کا سا رویہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ بد قسمتی یہ ہے کہ حکومت جن ڈاکٹروں کی تربیت پر عوام کا کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے بعد میں عوام سے ہی دوری اختیار کرتے ہیں ۔ ٹریننگ کالجوں میں ان کا مزاج اس طرح کا بن جاتا ہے کہ وہ خود کو تیس مار خان سمجھنے لگتے ہیں اور کسی غریب شہری کے ساتھ بات کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ ڈاکٹروں کے اس نزلی مزاج کی وجہ سے عوام ان سے کسی طور خوش نہیں ہیں ۔ اس کے علاوہ اب بیشتر آفیسر عوام کی خدمت کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ۔ ان کے یہاں ڈیوٹی کوئی معنی رکھتی ہے نہ عوام کو کوئی اہمیت حاصل ہے ۔ ان کا غریبوں کے ساتھ رویہ انتہائی ہتک آمیز ہوتا ہے بلکہ یہ فرعونوں کی طرح لوگوں سے پیش آتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحبان ان سے مختلف نہیں ۔ بلکہ ہسپتالوں میں کام کرنے والا طبی اور نیم طبی عملہ نوابوں کے مزاج کے عین مطابق لوگوں سے پیش آتے اور ان کی کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ ڈاکٹروں کی طرف سے تجویز کردہ ٹیسٹ جس کی رپورٹ ہسپتال سے باہر نجی کلنک میں گھنٹہ آدھ گھنٹے میں مل جاتی ہے ہسپتال میں اسی ٹیسٹ کی رپورٹ حاصل کرنے میں دنوں بلکہ ہفتوں لگ جاتے ہیں ۔ اس طرح کے نظام کے اندر کہیں کوئی ایسا شخص بھی نظر آئے جو اپنے کام کو انجام دینے کی فکر میں ہو غنیمت معلوم ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے محکمہ صحت کے انتظامی سربراہ کی تعریف کرنا ضروری ہے کہ انہوں نے مختصر عرصے کے اندر محکمے کی بگڑی صورت بہتر بنانے کی کوشش کی ۔ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے ۔ تاہم اس وقت جو صورت حال نظر آرہی ہے اس سے لگتا ہے کہ ایک منصوبہ بند طریقے سے محکمہ صحت کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ بات کئی لوگوں کو کھٹکتی ہے کہ یہاں کے مریض جن میں بیشتر پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں علاج معالجے کے لئے کشمیر سے باہر جانا پسند کرتے ہیں ۔ یہ بھاری خرچہ اٹھاکر نجی ہسپتالوں میں علاج کراتے ہیں ۔ یقینی طور وہاں کے ڈاکٹروں کو کمخواب کے پر لگے نہیں ہوتے بلکہ وہ مریضوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کا اپنے مریضوں کے ساتھ رویہ انتہائی مشفقانہ ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مریض ان کی پذیرائی کرتے رہتے ہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ یہاں کے جو ڈاکٹر باہر کے ان نجی ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں وہاں ان کا رویہ بڑا ہی پسندیدہ ہوتا ہے ۔ ایسے ہسپتالوں کو شہرت ملنے میں کشمیری ڈاکٹروں کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ تاہم کشمیر آکر ان کا رویہ راتوں رات بدل جاتا ہے اور مریضوں کے مفادات کے خلاف ہوتا ہے ۔ مریضوں کو راحت پہنچانے سے جو اطمینان ڈاکٹروں کو ملنا چاہئے وہ اس بارے میں فکرمند نہیں بلکہ عام طور پر اس کے برعکس کام کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے ہمارے ہسپتال عوام کی نظروں میں حقیر ادارے بن گئے ہیں ۔ ان ہسپتالوں کا وقار بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ ان احکامات پر عمل کرایا جائے جو عوام کے مفاد کا سوچ کر جاری کئے گئے ۔ ورنہ ہمارے یہا ں تو بہت پہلے سے ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگی ہے ۔ لیکن کھلے عام اس آڈر کی خلاف ورزی ہورہی ہیے ۔ یہاں مقصد طبی یا نیم طبی عملے کی دل آزاری نہیں بلکہ حقایق سامنے لانے کا مقصد ہے۔ اس کے ساتھ جو اچھے کام کئے جارہے ہیں ان کی ستائش بھی ضروری ہے ۔ اس کے باوجود یہ کہنا ضروری ہے کہ محض آڈر ایشو کرنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔ بلکہ عملی کام انجام دینا ضروری ہے ۔