تحریر:ش، م ،احمد
۴ ؍ جون کو کشمیر سے کنیا کماری تک عام لوگ بیک بینی و دوگوش اٹھارھویں لوک سبھا کی ووٹ شماری کا حساب وکتاب صبح تا شام پورے انہماک کے ساتھ جوڑتے رہے تاکہ اس بات کی تہ تک پہنچ پائیں کہ ملک کا سمت ِ سفر کیا ہے‘ کس کا ستارہ ٔ اقبال طلوع کس کا ڈوب گیا‘ کس سے اُمیدوں کا رشتہ باندھیں ‘کون ہماری توقعات پر پورا اُترے گا۔ سچ میں یہ کوئی ون ڈے کرکٹ میچ نہیں تھا کہ چوکوں اور چھکوں سے شائقین کے تفریحٔ طبع کاسامان بہم پہنچا کر کھلاڑی شائقین سے دادِ تحسین طلب کریں‘ اُن سے تالیاں پٹوائیں ‘ سیٹیاں بجوا ئیں ۔ نہیں قطعی نہیں ‘ برعکس ا س کے چناؤی نتائج عام آدمی کو ذہن نشین کراتےرہے کہ تمہارے ووٹوں سے جس اُمیدوار کو پارلیمنٹ کی نشستیں ملی ہے‘ وہ تمہارے اپنے انتخاب کے حُسن وقبح کا جیتاجاگتاثبوت ہے۔ آگے تم دیکھو گے کہ ایوان میں بیٹھنے والا یہ منتخب نمائندہ تمہارے مفاد میں اپنا عیش وآرام تج دیتا ہے یا اپنے نجی
مفادات کی غلامی میں پانچ سال کا عرصہ گزارتا ہے ۔تم آج ہی عقل ِسلیم کی آنکھ کھولے خود طے کرلو کیا آنے والے پانچ سال یہ حضرت تمہیںراحت بھری بہاروں کی طرف گھمائے گا یا تمہیںاگلے پانچ برس تکلیفوں اور اذیتوں کی جانب موڑ دے گا۔ تم ہی خود فیصلہ دو کہ کیا تمہارےاپنے نمائندے کی وضع کردہ پالیسیاں تمہیں مالامال ونہال کر دیں گی یا اس کے ناقص کارکردگی بےروزگاری کو دوآتشہ بناکر تمہیں روٹی کپڑا مکان صحت اسکول جیسی بنیادی سہولیات سے محروم کردے گی۔ تم خود سے پوچھ لو کہ کیا یہ چنیدہ شخص مروجہ معاشی نظام میں اصلاح کروا کےتمہارے چولہے اور رسوئی کو آنے والے پانچ سال میں مہنگائی سے مکتی دلا پائے گا یا چولہے اور رسوئیاں تمہیںبدستور گراں بازاری کا مرثیہ سناتی رہیں گی۔ تم سےاس جناب نےووٹ مانگ کر تمہارے بلدیاتی مسائل کا قصہ تما م کر نے کے جو وعدے وعید دئے کیا یہ انہیں یادر کھے گا یا بستہ ٔ فراموشی کی نذر کر جائے گا۔کیا یہ عالی جناب ایوان میں بیٹھ کر حقو ق ِنسواں کی حفاظت میں کوئی دلچسپی دکھائے گا یا ہر کسی کے حق ِ حیات کا احترام کرنے میں بھی تساہل وتغافل برتے گا۔
یا د رکھیں کہ انتخابات میں کسی اُمیدوار کی جیت سے دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں:
اول ا س کےہاتھوںخد مت ِخلق کا چراغاں ہوگا ‘دوم عوام شامتوں کے اَندھ کار میں دھکیلیں جائیںگے ۔ ا س لئے کوئی بھی زندہ وباشعور قوم الیکشن رزلٹ کو ڈھول باجے بجانے ‘ بنگڑے ڈالنے اور منہ میٹھا کرنے سے زیادہ انتخابی نتیجے کو نوشتہ ٔ دیوار سمجھ کر پڑھ لیتی ہے تاکہ وہ اپنے حقیقی سُودوزیاں سے باخبر ہوں۔
بھارت کے ہر عام آ دمی کے لئے پارلیمانی نتائج کا پیغام باریک بینی سے سننا اور ا ن کے معانی ومفہوم متعین کر لینا ان معنوں میں ضروری ہے کیونکہ اسی کے توسط سے وہ جان سکتا ہے کہ آنے والے ماہ وسال سیاسی ہوا ؤں کارُخ اور معیشت کا سفرکس جانب ہوگا ۔علی الخصوص سیاسی ہواؤں کا رُخ بھانپ لینے سے ہی اُسے پتہ چلتاہے کہ اگلی حکومت چاہےجس کسی سیاسی اتحاد کی بھی بنے‘ کیا اس کے لئے زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو پوری کرنے میں وہ ممد ومعاون ثابت ہوگی یا اسے لینے کے دینے ہی پڑیں گے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ملک بھر میںفی الوقت عوام بے روزگاری اور مہنگائی سے بری طرح جھوج رہے ہیں ۔ تند وتلخ حقیقت یہ ہے کہ
ا س وقت خط ِ افلا س سے نیچے گزر بسر کر نے والے اسی کروڑ لوگ پانچ کلو مفت راشن حاصل کر کے اپناگزراوقات کرتے ہیں۔ لہٰذا اگر لوگ نئی حکومت سے بجا طور یہ توقع کریں کہ انہیں پہلی فرصت میںبے روزگاری اور مہنگائی جیسے دو اہم مسائل سے چھٹکارا ملے‘ تو اس میں کیا برائی ہے ؟ ان ہردو مسائل کے بھاری بھرکم اثرات سے غریب اور متوسط طبقات کا سکون وقرار ختم اور جینا دوبھر ہوچکاہے ۔ دونوں مسئلے اس کے لئے سوہان ِ روح بنے ہوئے ہیں۔اس لئے عام ووٹر چاہتا ہے کہ جو بھی اُمیدوار میدان مار لے‘ وہ ایوان میںاس کے جذبات کے ساتھ ساتھ اس روز مرہ ضروریات کی ترجمانی کر نے میں کوئی چُوک کرے نہ کوتاہی کرے۔
اب کی بار بھی حسبِِ معمول ووٹ گننے کے مختلف راؤنڈ ہوئے ‘ کبھی کسی اُمیدوار کا نمبر آگے رہا ‘ کبھی کسی امیدوار کا پچھڑنا طے ہوا۔ آگے پیچھے رہنے کی روایتی کہانی کا ا س بار اعادہ ہوا ۔اس سے لوگوں میں تجسس وحیرت کی آنچ بڑھتی گھٹتی رہی ۔ ووٹ شماری کے دوران جونہی کچھ گھنٹوں میں ۵۴۳؍ نشستوں پر فتح وشکست کے ابتدائی رجحانات آنا شروع ہوئے تو ہار جیت کا نقشہ دُھندلا ہٹ سے صاف ہوکر سامنے آنے لگا ۔ دنیا یہ جان کرورطۂ حیرت میں پڑ گئی کہ اس بار عوام نے دواندایشی کے ساتھ اور سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوا جیسے ووٹروںکی معتدبہ تعداد نے وقت پر سیاسی چمتکار کا وہی فارمولہ دہرایا ہو جو سنہ ۷۷ کے لوک سبھا الیکشن میں وزیراعظم اندرا گاندھی کے خلاف کامیابی سے آزمایا گیاتھا ۔ اُس وقت ایمرجنسی کی مار یںسہتےہوئے بھارتی ووٹر نے ا یکا کر کے تاریخ کی کایا پلٹ دی۔ آج کے پارلیمانی الیکشن میں بھی ووٹ پرچی کی مدد سے لوگوں نے بڑے بڑے سیاسی بُرج اُلٹ دئے ‘ نامی گرامی سیاسی ہستیوں کو اپنی اوقات یاد دلائی ‘ بعض سیاست دانوں نے قوم کوبے حسی کی بوٹیاں کھلانے کی جوبھول کی تھی‘ اس کا خمیازہ اُن کو چار وناچار الیکشن کے میدان میں اُٹھا نا پڑا ۔ اگر ووٹ کے حق کی آزادنہ استعمال نہ ہوتا تو عوامی مقبولیت کے پیمانے اتنے اَدل بدل نہ جاتے کہ امیتھی ‘ رائے بریلی‘ مغربی بنگال‘ قنوج‘ فیض آباد(ایودھیا) مہاراشٹر ‘ وغیر ہم کی اہم نشستوں پر اپوزیشن انڈیا گٹھ بندھن کی جیت اور دلی ‘ کرناٹک اور ہماچل میں این ڈی اے کی مکمل جیت درج نہ ہوتی ۔اس سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ سیاست میں کوئی بھی چیز مستقل بالذات ہے نہ کوئی فرد بشر یا پارٹی ناقابل ِ تسخیر۔ بارہمولہ کشمیر میں سابق ایم ایل اے اور عوامی اتحاد پارٹی کے محبوس قائد انجینئر رشید کا لاکھوں ووٹوں کی برتری سے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اور سجادلون کو پچھاڑنا بذات خود ایک ناقابل ِ یقین سیاسی طلسم اور چشم کشا تاریخ ساز واقعہ ہے ۔
پارلیمانی انتخابات کا سب سے بڑا قابلِ تعریف پہلو یہ رہا کہ عام لوگوں کے جذبات کو متواتر برا نگیختہ کرنے والے بھاشنوں سے لوگ ایک بار بھی مشتعل نہ ہوئے ‘لاکھ کوششوں کے باوجودعوام پر حواس باختگی کے دورے پڑےنہ ہی انہوں نے دنگے فساد کی ہوا کھڑا کرنے والے رنگے سیاروں کو اپنے سیاسی ومعاشی مستقبل سے کھلواڑ کر نے کی اجازت دی ۔ حالانکہ عام خام لوگوں نے اِدھر اُدھر کی بہت ساری اُلٹی سیدھی باتیں سنیں مگر اُن بے تکی باتوں پر دھیان دینے کی بجائے انہوں نے اپنی زیادہ تر توجہ اپنے روز مرہ زندگی کے مدعوں پر مرکوز کئےرکھی ۔ بھارت کی مسلم اقلیت نے بوجوہ اس بار پولنگ میں پوری سنجیدگی سے شرکت کی ‘ خاص کر اپنے ووٹ کو بٹنے نہ دینے میں بہت حساسیت کا مظاہرہ کیا۔ اس ضمن میں دینی جماعتوں اور علما کا رول کافی جاندار رہا۔ مجموعی طوریہ ا سی مثبت ذہنیت کا ماحصل ہے کہ الیکشن کا سارا پروسس مکمل طور پُر امن رہا ‘ امن شکنی کا بہانہ ڈھونڈنے والے صرف ہاتھ ملتے رہے‘ فرقہ وارانہ کشیدگی وتناؤ بھڑکانے والے عناصرکے سارےنشانے خطاہوئے۔۴ ؍ جون کوووٹ شماری سے یہ سربستہ راز بھی منظر عام پر آ گیا کہ ووٹروں نے کہیں علانیہ اپنے پسندیدہ اُمیدوار کے سر جیت کا سہرا باندھنے کا قصد کیا تھا‘ کہیں خاموشی سے اپنے ووٹ سے ناپسندیدہ اُمیدوار کو دھول چٹائی۔
ووٹ شماری کے دوران جو سب سے بڑی تلخ حقیقت اُبھر کر آئی وہ اگزٹ پول کے مفروضوں کی ٹوٹ پھوٹ تھی ۔ان کا سارا فرضی شیش خانہ پل بھر میںٹوٹ گیا جب ای وی ایم نے حقیقی نتائج سامنے لاکر فرضی دنیا کے مکینوں اور قیاسی جنت میں رہنے والوں کو بازارِسیاست میںآٹے دال کا اصل بھاؤ بتا دیا ۔اگزٹ پول کے اس معمے پر مورخ کا قلم مدتوں غرض پسندی کے پجاریوں اور مفاد کے غلاموں کی تُھو تُھو کرتارہے گا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انتخابی نتائج سے متباور ہوا کہ سیاست دان بساوقات عوام کی نبضیں ٹٹولنے میں بڑی بھول کرتے ہیں ۔یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں لیکن اُن کو سبق سکھانے کے لئے لوگ خاموشی سے اپنا من بناتے ہیں کہ پولنگ بوتھ پر جاکر اُنہیںکیا کرنا ہے۔ لگتا ہے کہ ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی لوگ سیاسی میدان کے شہسواروں اور سورماؤں کو یہ صاف صاف پیغام دے گئے : سیاست دانو! آپ ہمارے منڈیٹ سے کرسیٔ اقتدار پر بیٹھ گئے تھے مگر بہت جلد اپنے اصل فرائض ِ منصبی سے غافل ومدہوش ہوکر رہ گئے۔ خود سری اور خودآرائی کے عالم میں ہم سے کٹ کر آپ دیر تک ہمارے سروں پر سوار رہے مگر ایک وقت آگیاجب ہم نے آپ کو چاروں شانے چت کردیا ‘ آپ کو اپنے شانوں سے جھٹکنے کے لئے ہم نے اپنے آئینی و جمہوری حق کا فیصلہ ساز استعمال کیا ۔ ہم راہرو ہیں مگر بحالت ِمجبوری آپ اپنے راہ بر بن کر گنجلک وپیچیدہ حالات کو وو ٹ کے صحیح استعمال سے بدلنے کا بیڑا ُٹھایا اور کامیاب رہے ۔ یاد رکھنا ہمارے پاس ہمہ وقت ووٹ کی شکل میںسارے نیتاؤں کو اپنی حد میں رکھنے کی جادوئی قوت موجود رہتی ہے۔
آج کی تاریخ یہ پیغام بھارتی عوام نے بحسن و خوبی ہر قبیل وقماش کے لیڈروں کو دیا۔ جمہوریت کے سنہرے اوراق میں درج یہ پیغام بتا رہاہے کہ ووٹ کی پرچی اس جمہوری ملک کے حسنِ کرشمہ ساز کے ماتھے کا کوہِ نور جیسا جھومر ہے‘ اس کی جاذبیت بے مثال اور اہمیت لازوال ہے۔ ہر پارٹی ‘ ہر چھوٹے بڑے سیاسی لیڈر اور ہر کامیاب اُمیدوار کو چاہے وہ حزب اقتدار کا حصہ بنے یا حزب اختلاف کا‘ اُسے آج ہی ووٹروں کے پیغام کو ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنے گرہ میںباندھ لینا چاہیے ۔
انتخابی ہار جیت کے غل غپاڑے میں ’’اب کی بار چار سو پار‘‘ کا
بی جے پی نعرے کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا ‘ پارٹی ۲۷۲ ؍ نشستوںکا کرشماتی ہند سہ نہ چھوسکی ‘ اسے صرف۲۴۰؍ نشستوں پر ہی قناعت کر نا پڑی ۔ اَغلب یہی ہے کہ ۲۹۳؍ والی نشستوں والے این ڈی اے کے سہارے(بالخصوص بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اور آندھرا پردیش کے نو منتخبہ وزیراعلیٰ چندرا بابو نائیڈو کی تائیدو حمایت سے) مودی جی ممکنہ طورتیسری بار وزارتِ اعظمیٰ کا مسند سنبھال لیں گے ۔ البتہ اس بار ایوان میں ان کا سامناراہل گاندھی کی قیادت میں ۲۳۲؍ والےانڈیا بلاک سے ہوگا۔ یہ اتحاد ایک منظم وفعال اپوزیشن کی شکل میں حکومت پربھاری پڑےگااگر انڈیا کی صفوں میں اتحاد قائم رہا اور اسےکوئی دراڑ یا شخصیاتی ٹکراؤ انہ لے ڈوبے۔ طاقت ور اپوزیشن ملکی سیاست میں توازن واعتدال کا رَس بھر دیتی ہے ‘بشرطیکہ حزبِ اختلاف اپنی وحدتِ فکر اور سیاسی ساکھ برقرار رکھ سکے ۔
اس وقت بھاجپا حکومت سازی کے لئے اپنے اتحادیوں سے مشاورت کر رہی ہے ۔ آثار وقرائین بتا ر ہے ہیں کہ اگر کوئی اور سیاسی بھونچال وقوع پذیرنہ ہوا تو این ڈی اے کو ایوان میں سیٹوں کی برتری کے ناطے ایوان ِ صدارت سے حکومت بنانے کی دعوت ملے گی۔ پھر اگر نریندر مودی قائد ایوان کے طور تیسری بار بالفعل وزارتِ اعظمیٰ کی مسند پربیٹھنے میں کامیاب رہتے ہیں تو وہ بھارت کے پہلےوزیراعظم جواہرلعل نہرو کی تاریخ دہرائیں گے ۔ البتہ اس بار اُن پر اپنے عہدہ ٔ جلیلہ پر براجمان ہوکر عام آدمی کے مفاد میں زیادہ جوش وجذبے کے ساتھ ڈیلیور کر نے کاغیر معمولی دباؤ رہےگا ۔ مبصرین کا خیال ہے کہ تیسری بار مودی جی وزیراعظم بنے تو تاریخ کی بے خطا نگاہیں اُن کی ہر دھڑکن گنتی رہے گی‘ خصوصیت کےساتھ بے روزگاری اور مہنگائی پر قابو پانے کا خیال ہمہ وقت اُن کے اعصاب پر سواررہے گا۔ ایک سوچالیس کروڑ نفوس پر مشتمل ملک میں بے روزگاری ‘ مہنگائی اور سماجی نابرابری کے دندناتے عفریت کو قابو کرنے کے لئے اعلیٰ سیاسی سطح پر ایک دانش مندانہ پلاننگ او بہتر گورننس کی اشد ضرورت سے کسی کو انکار کی مجال نہیں ہوسکتی ۔ نئی حکومت کا فرض عین ہوگا کہ ملک کی سیاسی ومعاشی تقدیر کا ایک ایسا نقشہ ترتیب دے جس پر پہلے سو دن میں ہی عمل پیرا ہوکر حکومت کی معنویت وافادیت کی دھاک دلوں میں بیٹھ جائے گی ۔ نئی حکومت کو ’’سب کا ساتھ سب کا وِکاس‘‘ والے نعرےکو از سرنو خلوصِ دل سے عملاناہوگا‘لوگوں میں کوئی بھید بھاؤ کئے بغیر پیار و محبت بانٹنے والے ایک نئے متحدہ بھارت کی تعمیر کرنا ہوگی‘ ماضی کی فسانہ طرازیاں چھوڑ کر حقیقتوں کا نیا جہاں بسانا ہوگا ۔ بھارتی عوام نے بحسن وخوبی سیاسی بالیدگی اور بالغ نظری کا مظاہرہ کر کے نئی حکومت کے سامنے اپنی اصل مرضیات کا خاکہ پہلے ہی کھینچ رکھا ہے ‘ انہوں نے اپنی فوری ترجیحات کا خلاصہ بھی کیا ہے۔ عوام کی ان مرضیات اور ترجیحات کا نوشتۂ دیوار پڑھنے میں کسی بھی سیاسی اتحاد کو دیر نہیں کر نی چاہیے ۔ بہر حال الیکشن نتائج کی شکل میں جو نئی داستان ملک کے سیاسی اُفق پر رقم ہو چکی ہے ‘ ا س کا تقاضا ہے کہ قوم کو مسائل اور مشکلات کے بھنور سے نکال باہر کر نے کی ذمہ داری دونوں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف پر مشترکہ طور عائد ہوتی ہے۔