تحریر:جہاں زیب بٹ
انجینئر رشید کی شاندار کامیابی نے سرینگر سے دلی تک کے سیاسی گلیاروں میں ہلچل مچادی ھے۔جہاں حالیہ پارلیمانی الیکشن میں دو سابق وزرائے اعلیٰ پٹ گیے وہیں پانچ سال سے جیل میں پڑا ایک چھو ٹے قد کا آدمی میدان ما ر گیا جو غیر معمولی واقعہ قرار دیا جارہا ھے ۔انجینیر کی انتخابی جیت نیے رجحان اور نیی سوچ کا عکاس اور کچھ حلقوں کے مطا بق کشمیر کے حوالے سے ایک اہم قدم کا حصہ ھے اور اس کی پھٹکار سے روایتی لیڑر بچ نہیں سکتے ۔لہزا ان کی نیندیں حرام ہورہی ہیں اور وہ پریشان حال دکھائی دے رھے ہیں۔اس کی ایک اچھو تی مثا ل عمر عبداللہ ہیں جن کو چنداں گمان نہ تھا کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ایسا چمتکار ہوگا کہ وہ انجینیر رشید کے ہاتھوں پٹ جا ینگے اور بری طرح شکست سے دوچار ھو نگے ۔عمر عبداللہ کے بارے اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ھے کہ وہ ملک کے ان چند سیاستدانوں میں شامل ہیں جو غرور کی چوٹی پر کھڑے ہیں اور ابھی بھی اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ان کا خاندان ،ان کی جماعت اور ان کی ذات ناقابل چلینج ھے اور وہ بلا شرکت غیرے عوام کے ہیرو ہیں ۔ چنا نچہ جب پا ر لیمانی الیکشن کا بگل بجا تو انھوں نے پہلی کاروائی میں پی ڈی پی کو لات ماردی اور یہ کہتے ہویے وادی کی تینوں پارلیمانی نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کردیے کہ یہاں این سی ھے اور بس۔جبکہ پی ڈی پی کسی قطار و شمار میں نہیں ھے۔انھوں نے یہ خیالی پلاؤ پکایا کہ بی ڈی پی اس کے یکطرفہ فیصلے پر اف نہیں کرےگی ۔لیکن محبو بہ مفتی نے ہتھیار نہیں رکھے اور وہ خود بھی میدان میں کود پڑی ۔اس سے پی اے جی ڈی کا کفن دفن ہو گیا اور این سی کا دوغلا پن پھر ایک بار ثابت ھو گیا۔
الیکشن میں اکیلے طور اترنے کا زبردست فیصلہ عمر عبداللہ نے پارٹی کے “بیربل” کی طرح لیا۔سرینگر آغا روح اللہ کے لئے چھوڑا گیا اننت ناگ راجوری کا ٹکٹ میاں الطاف کو ملی اور خود عمر عبداللہ بارہمولہ بھاگ گیے۔عمر عبداللہ کو یہ اندازہ تھا کہ این سی تینوں نشستوں پر قبضہ کرے گی تو اس کے عین مطابق آیندہ متوقع اسمبلی الیکشن کی حکمت عملی ترتیب دی جاسکتی ھے۔لیکن جب ابرار رشید کی انتخابی مہم دیکھتے دیکھتے فقید المثال عوامی لہر میں تبدیل ہو گیی تو عمر عبداللہ ہکا بکا ہو گیا ۔انجینیر Magic کو ہمدردی اور ایموشن کا شاخسانہ قرار دے کر عمر عبداللہ نے خود کو تسلی دی کہ این سی کے پختہ ووٹ بینک کو “نان ووٹر ہجوم” کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔لیکن جب 4 جون کو عوام نے اپنا فیصلہ سنایا تو عمر عبداللہ کو سمجھ آگیا کہ اونٹ پہا ڑ کے نیچے آگیا اور ان کے سارے اندازے غلط اور امیدیں اکارت ہوگئیں ۔کچھ کھسیا نی حالت سے دوچار اور کچھ سیاسی مستقبل مخدوش ہونے کی تنبیہات ظاہر ہونے کا نتیجہ کہ عمر عبداللہ زہر ناک پروپیگنڈا کے ذریعے پوری کشمیری قوم کے خلاف بے جا مقدمہ درج کروانے نکلے ہیں ۔ان کا تازہ دعویٰ یہ ھے کہ انجینیر رشید کی جیت سے علاحدگی پسند حلقہ با اختیار ہو گا اور شکست زدہ اسلامی تحریک کو نیی امید ہا تھ آییگی۔عمر عبداللہ نے دہلی کو متنبہ کیا ھے کہ علاحدگی پسندوں کو انتخابی عمل میں شامل کرنے کی ایک نئی کوشش غیر متوقع نتایج پیدا کر ے گی۔ اس قسم کا گھٹیا بیان جس میں تازہ عوامی فیصلے کی من پسند اور غیر ذمہ دارانہ تعبیر کی گئی ھے خود غرضی اور بیمار ذہنیت کا غماز ھے۔ فاروق عبداللہ نے سنہ ستاسی میں مف کے حق میں اٹھی لہر کی غلط تاویل سے راجیو گاندھی کو گمراہ کیا اور تاریخ کا سب سے بڑا انتخابی فراڈ کھیل کر کشمر کو تباہی کے راستے کی طرف دھکیل دیا ۔آج عمر عبداللہ اسی نقش قدم پر چل کر ستاسی طرز کا فرا ڈ کھیلنے کی راہ ہموار کرنےکی ناکام کوشش کررہے ہیں ۔حالیہ الیکشن نتایج عمر عبداللہ کی خو ش فہمی کا بہترین جواب ہے یہ کہ این سی کی اجارہ داری اب باقی نہیں ھے۔بلاشبہ این سی نے وادی کی تین میں سے دو نشستوں پر جیت درج کرائی لیکن آغا روح اللہ اور میاں الطاف کو این سی کی نسبت اپنی ذاتی مقبولیت کا صلہ مل گیا۔ عمر عبداللہ کی ہار این سی کے لیے ایک بڑا نفسیاتی دھچکہ ھے ۔لہذا وہ این سی عادت کے عین مطابق wolf ,wolf کہانی کے Shepherd ایسا کردار بننے کی کوشش کررہے ہیں جو لا حاصل ھے۔علا حدگی پسندی میں روح باقی نہیں ۔۔لہزا ” بھیڑ یا بھیڑ ا” چلانے کا کیا فایدہ ؟
اب تک دہلی علاحدگی پسندوں کو بلواسطہ طور ہی سیاسی عمل میں شامل کرانے میں کامیاب رہی ھے انجینئر رشید کی جیت سے اگر علاحدگی پسندوں کو براہ راست سیاسی عمل میں شامل کرنے کی شاہراہ کھل جاتی ھے تو یہ تاریخ کا سب سے بڑا خوش آیند اور دور رس نتائج کا حامل واقعہ ہو گا۔