عوامی اور سیاسی حلقوں میں اس وقت انجینئر رشید کی الیکشن میں کامیابی زیر بحث ہے ۔ اس حوالے سے مختلف آرا کا اظہار کیا جارہاہے ۔ اپنے اپنے طور کئی تجزیہ نگار اس پر اپنی رائے دے رہے ہیں ۔ لوک سبھا انتخابات میں ان کی کامیابی حیران کن قرار دی جارہی ہے ۔ بعض حلقے اسے ایک غیر متوقع بات بتارہے ہیں اور اس حوالے سے ناممکن کوممکن بنانے میں انجینئر کے بیٹوں کے رول کو سراہتے ہیں ۔ انتخابی نتائج آنے تک کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ ایسا کوئی چمتکار ہوگا اور دو بڑے سیاسی لیڈر ان کے سامنے اس طرح سے اوندے منہ گر جائیں گے ۔ انتخابی نتائج آنے سے پہلے یہی اندازہ لگایا جارہاتھا کہ اصل مقابلہ سجاد لون اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے درمیان ہے ۔ دونوں حریف ایک دوسرے کو پچھاڑنے میں لگے تھے بلکہ ایک دوسرے پر تیکھے وار کرنے میں مصروف تھے ۔ عمر کی کوشش تھی کہ سجاد سے آگے نکل جائے جبکہ سجاد عمر کو زچ کرنے کا کوئی موقع ضایع نہیں ہونے دیتا تھا ۔ بارھمولہ کے انتخابی منظر نامے کو دیکھ کر یہی اندازہ لگایا جارہا تھا کہ عمر اپنے لئے سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوگا ۔ حالانکہ سجاد کے لئے بھی الیکشن جیتنے کے امکانات ظاہر کئے جارہے تھے ۔ سب اندازے غلط ثابت ہوئے ۔ عام لوگ تو کہیں نہ کہیں اشارہ دے رہے تھے کہ ان کی ہمدردیاں انجینئر کے ساتھ ہیں ۔ لیکن انہیں لوگ بڑے پیمانے پر ووٹ دیں گے اس کا یقین کرنا بہت مشکل تھا ۔ عمر اور سجاد کا پورے خطے میں ایک مضبوط ووٹ بینک رہاہے ۔ اس پر اثر انداز ہونا کوئی آساب کام نہیں ۔ اس کے باوجود ایسا ہوا اور دو سینئر رہنما الیکشن ہار گئے اور انجینئر آسانی سے الیکشن میں کامیاب ہوکر ابھرا ، بتایا جارہاہے کہ انہوں نے نئی لوک سبھا میں جانے اور حلف برداری کی تقریب میں حصہ لینے کے لئے سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے ۔ عدالت عالیہ نے این آئی اے سے اپنی رائے دینے کو کہا ہے ۔ انجینئر کے وکیل کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ عدالت مایوس نہیں کرے گی ۔ تاہم قانونی موشگافیوں کے پیش نظر رہائی کے حوالے سے ابھی زیادہ امید نہیں کی جارہی ہے ۔ انجینئر کب رہا ہوتا ہے اس حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے ۔
انجینئر کی پارلیمانی الیکشن میں کامیابی ایک غیر معمولی واقع ہے ۔ اس کے لئے عوامی ہمدردی کو بنیادی وجہ بتایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہی سب کچھ نہیں ہے ۔ انجینئر ایک مظلوم کی حیثیت سے جیل میں بند پڑے ہیں اور لوگوں نے رحم کھاکر انہیں ووٹ دیا ۔ بات اتنی سی نہیں ہے ۔ انہوں نے اس سے پہلے بھی ایک آزاد شہری کے طور الیکشن لڑا اور بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کئے ۔ اس وقت وہ قابل رحم نہیں تھے ۔ بلکہ ایک نڈر لیڈر کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے ۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں اس وجہ سے ضرور ووٹ دیا کہ وہ بہ ظاہر بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں ۔ تاہم ایک بات بڑی اہم ہے کہ اسمبلی ممبر کی حیثیت سے انہوں نے کئی اہم کام انجام دئے ۔ انہوں نے کانسچیونسی فنڈ کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہونے دیا بلکہ اہم اور عوامی ضرورت کے کاموں پر خرچ کیا ۔ ان کے بطور ایم ایل اے کے کام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ لنگیٹ جو ان کی اصل کانسچیونسی ہے وہاں کے عوام اور دوسرے علاقوں کے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ انجینئر ایک زیرک دماغ سیاست دان ہے ۔ انہیں عوام کے ساتھ ہمدردی بھی ہے اور نزدیکی تعلق بھی ۔ وہ اپنے عوام کے ساتھ رہتے ہیں ۔ بڑی اور اونچی حویلیوں میں رہنے کے بجائے وہ غریب عوام کے ساتھ کھڑا رہتے ہیں ۔ وہ ایک خیراتی ادارہ بھی چلاتے ہیں جس کی وساطت سے کئی ضرورت مندوں کے اخراجات پورا کرتے رہے ہیں ۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کی مالی امداد کی جو دوسرے سیاست دانوں کے لئے عجیب بات ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ عوام کے اندر جگہ بنانے میں کامیاب رہے ۔ آپ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے خاندان سے کوئی بھی فرد سیاست میں نہیں رہا ۔ ان کی رسائی کسی مذہبی گروہ تک بھی نہیں ہے ۔ یہ کہنا کہ ان کی کامیابی سے علاحدگی پسندوں کو تقویت ملے گی انجینئر کے ساتھ سرا سر ظلم ہے ۔ آپ کبھی بھی انتہا پسندی کے حامی نہیں رہے ۔ بلکہ اپنی سیاسی زندگی کا آغاز انتہا پسندوں کے خلاف لکھنے اور بولنے سے کیا ۔ انہوں نے اونچے محلات میں رہنے والوں سے تعلق قائم نہیں کئے بلکہ عام لوگوں کے ساتھ تعلق بنائے رکھا ۔ نوجوانوں کے ساتھ ان کی ہمیشہ ہی ہمدردی رہی ہے ۔ کشمیر کے دوردراز علاقوں کے نوجوان ان کے لئے الیکشن مہم چلانے میں حصہ لے رہے تھے ۔ شمالی کشمیر کے نوجوانوں نے کھل کر ان کا سپورٹ کیا ۔ نوجوانوں نے ان کے لئے ووٹ دئے ۔ وہ نوجوان جو روایتی سیاست دانوں سے تنگ آچکے ہیں ۔ انہوں نے کمال جرات سے کام لیا اور ان کے حق میں بڑی تعداد میں ووٹ دیا ۔ یہی ان کا ووت بینک ہے اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے ۔ اس کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ نہیں ہے ۔