از:ش،م ،احمد
۶؍ جون کو چنڈی گڈھ کے ہوائی اڈے پر ایک تہلکہ آمیزڈرامائی مگر قابل صد تاسف واقعہ رونما ہوا ۔ چند منٹوں کی دیر میں یہ واقعہ پورے میڈیا اور سماجی میڈیا میں دُھوم مچانے والی شہ سرخی بنا ۔ واقعے کا نفس ِمضمون یہ تھا کہ ہماچل پردیش کی منڈی لوک سبھا سیٹ پر نو منتخبہ رُکن پارلیمان اور فلمی اداکارہ کنگنا رنا وت چندی گڑھ سے دلی سے جارہی تھیں کہ ائر پورٹ پر مامور سی آئی ایف سی( سنٹرل انڈسٹریل سیکورٹی فورس ) ٹیم مسافروں کے سامان کی چیکنگ میں معمول کی طرح مصروف تھی۔اسی اثنا میں وہاں ڈیوٹی کر رہی ایک خاتون کانسٹیل کلویندر کور کی مڈبھیڑ فلمی ہیروئین کنگنا رنا وت سے ہوئی ۔ کنگنا کو دیکھ کر لیڈی کانسٹیبل نے دفعتاً آپا کھودیا ۔ غصے کا یہ عالم کہ نتائج وعواقب سے لاپرواہ ہوکر انہوں نے کنگنا رناوت جیسی ہائی پروفائل بھاجپا ایم پی کو تھپڑ رسید کیا۔ بظاہرا س کا دور دور بھی امکان نہ تھا کہ ایک باوردی اہل کار ایسی اوچھی حرکت پر اُتر ے۔مسافر چاہے کوئی بھی ہو‘ اس کی تذلیل کرناتہذیب وادب سے عاری ہونے کےساتھ ساتھ کسی سیکورٹی اہل کار کے لئے شایان ِ شان نہیں ۔ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق خاتون اداکارہ اور بھاجپا ممبر پارلیمنٹ نے سامان کی چیکنگ کے دوران اپنا موبائل فون ٹرے میں نہ ڈالا تھا‘اس پر کلویندر کا پارہ چڑھ گیا اور نوبت تُوتُو میں میں تک پہنچی اور یکایک سیکورٹی اہل کار نے موصوفہ کے منہ پر طمانچہ دےمارا۔ اس انہونی پر طیران گاہ میں کتنی سراسیمگی پھیلی ہوئی ہوگی اور لوگ کس قدر ہکابکا ہوکررہ گئے ہوں گے ‘ اس کا خود اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کلویندر کور کو اپنی غصیلی حرکت کی پاداش میں برسر موقع معطل کیا گیا ، فوری طور پولیس بلائی کر آگے کی کارروائی بھی شروع کی گئی ‘ کچھ ہی دیر میںوہ گرفتار بھی ہوگئیں۔ سلاخوں کے پیچھے آنے کے بعد اب یہ عدالت کا کام ہے کہ جرع وتعدیل سے معاملے کہ تہ تک پہنچے اور انصاف کے تقاضے پورے کرکے قانون کی بالادستی قائم کرے ۔
شاید ہم اس بات کا اندازہ نہیں لگاسکتےکہ خود کنگنا رناوت کے ساتھ پیش آیا ہتک ِعزت کا معاملہ ان کے واسطے کتناناقابل ِ یقین رہاہوگا ‘ یہ اُن پر نفسیاتی طورکس قدر شاق گزرا ہوگا ۔ ہمارا عام مشاہد ہ یہ ہے کہ گلیمر کی دنیا سے وابستہ ہر کوئی سلبریٹی لوگوں سے ہمیشہ پیار اور عزت پاتی ہے ‘ لوگ اُن کی ایک جھلک پاکر زندگی بھر بڑے چاؤ سے اس کا ذکر یار دوستوں میں کرتے پھرتے ہیں ‘ آٹو گراف لینے کے لئے شائقین ہجوم درہجوم سلبر یٹی کو گھیر کرایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں کہ پولیس کو بیچ بچاؤ کرنا پڑتا ہے۔ جب اس عموم کے اُلٹ میں کنگنا نے سر کی آنکھوں سے دیکھا کہ برسر عام ایک خاتون کانسٹیبل کے ہاتھوں اُن کی تذلیل ہوئی‘ اُن کے دل پر کیا بِیت چکی ہوگی‘ شاید وہ کیفیات لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتیں۔ تحقیر و بے عزتی کا ایسا بھدا منظر کسی بھی مہذب ‘ غیرت مند اور عزتِ نفس رکھنے والے فرد بشرکے لئے ناقابلِ قبول ہوگا ؎
جس جگہ بیٹھے مرا چرچا کیا
خود ہوئے رُسوا مجھے رُسوا کیا
داغ ؔدہلوی
سوال یہ ہے کہ کانسٹیبل کلویندر کورکے دل میں کنگنا راوت کے خلاف اتنا آتش انتقام یک بہ یک کیوں بھڑکا کہ کلیجہ ٹھنڈا کر نے میں انہیں اپنی وردی کا پاس ولحاظ رہا نہ سرکاری دیوٹی کےقواعد وضوابط کی لکشمن ریکھا پھلانگنے میں کوئی مضائقہ نظر آیا؟ سرکاری ملازم ہونے کے ناطے مذکورہ خاتون اہل کار سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ قواعد سے نابلد اور ڈسپلن سے ناآشنا رہی ہوں گی۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ڈیوٹی کے اوقات میں سرکاری ملازم منضبط اصول وآداب کا پابند ہوتا ہے‘ چاہےحالات کتنے بھی گھمبیر ہوں ‘وہ اُن کی خلاف ورزی کا سوچ بھی نہیں سکتاکیونکہ قواعد سے سر مو انحراف ہویا ضابطہ شکنی ایک پبلک سرونٹ کے لئے یہ چیز وُبال ِجان بن سکتی ہے۔ بنا بریں ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ کا نسٹیبل کلویندر کو پتہ ہی نہ ہو گا کہ کنگنا ممبئی کی فلم نگری کی ایک معروف سلبریٹی ہیں،وزیراعظم مودی جی کی قریبی فائر بینڈسیاسی شخصیت ہیں‘اُن سے ہتک آمیز سلوک روا رکھنا یا کسی قسم کا پنگا لینا ایک مہنگا سودا ہے ۔ ا س لئےیہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آخر کلویندر کے غصے کی ہانڈی میں یکایک اتنا اُبال کیوںآیاکہ نہ کنگنا سے جھگڑا مول لینے کی بھاری قیمت یاد رہی اور نہ یہ فکر دامن گیر رہی کہ اس کے بے جواز و ناروا حرکت کی پاداش میں اُ ن کی نوکری تک جاسکتی ہے۔ ان بنیادی سوالوں کا جواب خود خاتون کانسٹیبل ہی دے سکتی ہیں آیا وہ اپنےغصے کے ممکنہ نتیجوں سے باخبر تھیں یا نہیں۔ اپنی صریح ضابطہ شکنی کے جواز میں اُن کی مبینہ دلیل سے مترشح ہوتا ہے کہ کسان آندولن کی مخالفت میں کنگنا رناوت نے جو طنزیہ ٹویٹ کیا تھا‘ وہ اس سے کئی ماہ وسال سے خار کھائے بیٹھی تھیں۔ٹویٹ میں کسانوں کےدھر نے میں شریک خواتین کو آڑے ہاتھوں لے کر اداکارہ نے طنزاً کہا تھا کہ اجتجاجی دھرنےپر خواتین سو سو روپے کے لئے بیٹھتی ہیں ۔ کلوندر سے کنگنا کےطنز و تضحیک کا یہ تیر برداشت نہ ہوسکا ۔ کسان گھرانے سے تعلق ہونے کی بناپر خواتین مظاہرین میں اُن کی ماتا جی بھی دھرنے میںشر یک وسہیم تھیں۔ عرصۂ دراز کے بعد ہوائی اڈے پر ڈیوٹی کے دوران کنگنا کو اپنے سامنے پاکر کر کلوندر کو وہ طنز بھرے ریمارکس یاد آگئے اورپھر وہ کچھ کر گزریں جس کا خمیازہ نہ جانےاُسے کب تلک پس ِ دیوار ِ زندان بھگتنا پڑے گا۔
کلوندر کی دلیل اپنے اندر کتنا وزن رکھتی ہے ‘ اس پر تجزئیے کا فوکس ٹالتے ہوئے ‘ محسوس یہ ہوتاہے کہ سارے معاملہ کا نچوڑ بظاہر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ایک حساس دل بیٹی‘جس کے جذبات طنز کے نشتر سے مجروح ہوئے تھے‘ نے اپنےدل کی بھڑاس نکالنے کی ٹھان لی تھی اور جب موقع ملا تو گلیمر و سیاست کی دنیا میں اپنا نام اور مقام رکھنے والی خاتون سے بدسلوکی کی ۔ کانسٹیبل کی نگاہ میںاس کی مذموم حرکت
کا لب ولباب صرف ا پنی ماں کی توہین کا بدلہ لینا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ بدلے کی بھاؤنا سے مغلوب تھیں ‘ جذباتیت سے ذہن ماؤف تھا اور غصے کی آگ تن بدن میں لگی تھی۔ انہیں بدلہ لینا تھا‘سو لیا۔ اب معاملہ ایوان ِ عدل کے روبرو پیش ہوگا جہاں انصاف کی دیوی کو ایک خاتون کی شکایت پر دوسری خاتون کی بد تمیزی اور اس کے پیچھے مجروح جذبات کے علاوہ ضوابط شکنی کو سامنے رکھ کر ملزم اور مستغیث کے درمیان قانونِ عدل کا حتمی فیصلہ سنانا ہو گا ۔
ناخوش گوار واقعے کے ردعمل میں پدم شری یافتہ اداکارہ اور اٹھارہویں لوک سبھا کی منتخب رُکن کنگنا رناوت نے اسےاپنے سیاسی رنگ میں پیش کیا۔ بقول اُن کے اس واقعےکا ناطہ پنجاب میں بقول اُن کے’’ آنتک واد اور اُگر واد‘‘ کےبڑھتےہوئےسلسلےسےجڑتاہے۔ معاملے کی ا س تشریح سے
بر سر احتجاج کسانوں میں مزیدبد مزگی پیدا ہونے کا احتمال بعید
ا زامکان نہیں ‘جس سے کسانوں اور اُن کے آندولن کےناقدین میں تلخیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں اور دوریاں بھی۔ کنگنا رناوت نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر تھپڑ ماری کے پس پردہ سیاسی محرکات کا رفرما ہونے کا اشارہ دیا ۔کلوندر کی دلیل ما نئے تو ان کا کریہہ الصورت فعل ایک نجی معاملے تک محدود ہے مگر کنگنا کی سنئے تو یہ ایک سازش کا حصہ ہے ۔ فلمی دنیا کی ایک نامور ہستی شبانہ اعظمی
( جن کےساتھ کنگنا کی نہیںبنتی اور اُن کے دوطرفہ اَن بن کی بڑی کہانی چلی آرہی ہے) نے اپنے گلے شکوےچھوڑ چھاڑ کر اپنی رقیب اداکارہ کے حق میں دوبول لکھے اور کلوندر کی حرکت کی مذمت کر کے کنگنا کی ڈھارس بندھائی۔ تاہم مجموعی طور انڈسٹری میں اس معاملے پرسکوت ِ لب دیکھا گیا۔اس پر کنگنا نے فلم انڈسٹری کی خاموشی کو کڑی ہدفِ تنقید کا نشانہ بنایا ۔ انہوں نے اپنے انسٹاگرام پر ایک تیکھا پوسٹ بدیں الفاظ تحریر کیا: ’’پیاری فلم انڈسٹری !آپ سب یا تو جشن منارہے ہیں یا مجھ پر ہوائی اڈے پر ہونے والے حملےپر مکمل طورخاموش ہیں۔ یاد رکھیں کہ کل اگر آپ اپنے ملک کی کسی سڑک پریا دنیا میں کہیں بھی غیر مسلح طریقے پر چل رہے ہوں اور کوئی اسرائیلی؍ فلسطینی آپ کو یا آپ کے بچوں کو صرف اس وجہ سے مارتاہے کہ آپ نے رفع کی طرف آنکھیں ڈالنے کی کوشش کی یا اسرائیلی یرغمالی کے لئے کھڑے ہوئے۔۔۔ تب آپ دیکھیں گے کہ میں آپ کے آزادیٔ اظہار کے حقوق کے لئے لڑ رہی ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ آپ میرے ساتھ نہیں تھے ‘‘۔
تحریر سے مجموعی تاثر یہی بنتا ہے کہ محرر کے ہم پیشہ لوگ اُن کے ساتھ اظہارِیکجہتی کرنے سے کترا رہے ہیں‘ ان کا دُکھ بانٹنے میں دو بول تک بولنے کو تیار نہیں ۔ لہٰذا وہ سمجھتی ہیں کہ دُکھ اور افسوس کے ان
لمحا ت میں وہ یکہ وتنہا ہیں‘ فلمی دنیا کو ان کے درد اور پیڑتا سے کوئی لینا
دینا نہیں۔ اگر بات یہ ہوتی تو شبانہ اعظمی کا موافقانہ ردعمل سامنے
کیوں آتا؟ بتا یا جاتاہے کہ فلمی دنیا میں فلمی ستاروں کے آپسی تعلقات میں دیرینہ کھٹاس اور رقابتیں موجود ہیں اور کہیں ایسے سنسنی خیز حادثات اور واقعات کے ضمن میں خود کنگنا طرز ِ گفتار بعض لوگوں کے دل میں تیر وسنان بن کر پیوست ہے ۔ بایں ہمہ ایک جانے مانے فلمی موسیقار نے کنگنا سے ہمدردی کے بجائے کلوندر کو دلاسہ دیا کہ اگر انہیں نوکری سے برخواست کیا جاتا ہے تو وہ اُن کو جاب پر رکھیں گے ۔ کسان نیتاؤں نے بھی آگے بڑھ کر معطل شدہ کانسٹیبل کی حمایت اور حوصلہ افزائی میں اپنا کردار ادا کرنے کا بھروسہ دلایا ہے۔ کسان نیتاؤں کا اپنا مطالباتی ایجنڈا ہے جس کی تکمیل میں وہ آج بھی حکومت سے پُر امن طریقے پر برسرپیکار ہیں ۔انہوں نے اشتعال انگیزیوں کے باوجود عدم تشدد کا راستہ چھوڑنے کا کبھی سان وگمان میں بھی نہ سوچا‘ حالانکہ دلی میں اُن کا دھرنا ایک سال سے زائد عرصے تک کڑی دھوپ ، شدید بارشوں اور صبر آزما تکالیف کے دوران صبر وثبات سے جاری رہا مگر وہ اس کے باوجود اَہنسا کے اصولوں کو سینے سے لگائے بیٹھے رہے ۔ آندولن کے دوران ۲۶ جنوری کو کسانوں کے دلی مارچ کو سبوتاژ کر نے کے لئے کسان کاز کو جان بوجھ کر ہنسا کی نذر کر نے کی بھرپور کاوشیں ہوئیں مگر کسانوں نے اُس بار بھی اپنے عدم تشدد کی گاندھیائی پالیسی کولمحہ بھر ترک نہ کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آخر وزیراعظم کو تینوں زرعی قوانین کو چارو ناچار واپس لینا پڑا۔ جگ ظاہر ہے کہ کسانوں کا اَہنسا جوں توں جیت گیا۔ آج جب کسانوں کی ہی ایک بیٹی کلوندر کور نے اپنی جوشیلی حرکت سے اپنے اوپر تشدد پسندی کا لیبل چسپاں کروادیا ‘ کسان نیتاؤں پر لازم آتا ہے کہ وہ اُنہیں اور کھیتی کسانی سے تعلق رکھنے والی تمام غیور بیٹوں اور بیٹیوں کی فہمائش و نصیحت کریں کہ غصے کا جواب غصہ نہیں‘ جوش کے ساتھ ہوش رکھاجائے ‘ تشدد کاراستہ تباہی ہے بھلے ہی اس کو اپنانے کاکتنا ہی حسین جوازتراشا جائے ۔ انہیں صاف لفظوں میں بتایاجائے کہ اختلافات اپنی جگہ کنگنا رناوت کے ساتھ ہوائی اڈے پرجو کچھ ہوا‘ اس پر کلوندر کو ناز نہیں بلکہ اظہار ِ پشیمانی و ندامت کر نی چاہیے ۔
اس دور کی سیاست ایک کافر ادا چیز بن چکی ہے ۔ اسے سیاست کی متشددانہ کارستانی نہ کہیں تو اور کیا سمجھیں کہ دلی میں ایک انتخابی ریلی میں کانگریسی اُمیدوار کنہیا کمار کو کسی غنڈے موالی نے تھپڑ مارا۔ وہ بھی اپنی نفرت جتلانے کاجان لیوا نشہ ہی تھا جس نے ایک عراقی صحافی منتظر الزیدی کو امریکی صدر جارج بش کو دورانِ تقریر جوتے مارنے کا حوصلہ دیا تاکہ بش کے خلاف ا س کے حقارت آمیز جذبات کی تشفی ہو۔ بش نے مسکراتے ہوئے اس قبیح فعل کو عراق میں جمہوریت کا آئینہ دار بتا یا۔ پھریہ کہانی رُکی نہیں بلکہ ٹونی بلئیر‘ پرویزمشرف ‘ نواز شریف‘ آصف زرداری‘احمدی نژاد‘ نواز شریف ‘
پی چدمبرم‘ کیجروال‘ راہل گاندھی ‘ عمر عبداللہ‘ منموہن سنگھ ‘ ایل کے ایڈوانی وغیرہم کے ساتھ یہ دہرائی گئی‘ لیکن اب یہ کہانی کلوندر کور کی متشددانہ حرکت کا روپ دھارن کر گئی ہے جو اپنے اندرحقارت سے زیادہ شدید انتقامی جذبے کا آتش فشاں دکھاتی ہے۔اس چیز کی حوصلہ شکنی از بس ضروری ہے تاکہ سیاست جمہوری قبا کی زیب وزینت سے محروم نہ رہے ۔