گندگی اور آلودگی ایک عالمی موضوع ہے جس پر سخت بحث جاری ہے ۔ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے آنے والی نسلوں پر خطرناک اثرات پڑنے کا اندیشہ ہے ۔ سرکار نے اس کا اندازہ لگاتے ہوئے سوچھ بھارت کا نعرہ لگایا ۔ شروع میں یہ ایک اچھا منصوبہ ثابت ہوا ۔ لیکن آگے جاکر اس کا حشر بھی ہوا جو اکثر سرکاری منصوبوں کا ہوتا ہے ۔ سرکاری حکام ہی ایسے سرکاری منصوبوں پر پانی پھیر دیتے ہیں ۔ خاص طور سے کشمیر میں ایسے منصوبوں کو بہت جلد ذاتی آمدنی کا ذریع بنادیا جاتا ہے ۔ ہمارے سامنے ڈل پروجیکٹ کا جو حشر ہوا سب لوگ اسے واقف ہیں ۔ لاوڈا سارے سرکاری آفیسروں کے لئے سب سے زیادہ دلچسپی کا مرکز رہا ہے ۔ ہر کسی کی خواہش ہوتی تھی کہ دو چار اس محکمے میں گزارے اور اپنی کئی نسلوں کو آباد کرنے کا کام انجام دے پائے ۔ اس وقت ریاست میں بننے والی ہر سرکار اس بات سے واقف تھی کہ ڈل کی صفائی اور حفاظت کے نام پر جو کروڑوں روپے سرکاری خزانے سے نکالے جاتے ہیں ان کا عشر عشیر بھی ڈل کی حفاظت پر خرچ نہیں ہوتا ۔ بلکہ یہ سب رقم کچھ مخصوص جیبوں اور بینک کھاتوں میں چلا جاتا ہے ۔ اس کام میں مبینہ طور اس وقت کے طاقتور سیاسی حلقے ملوث تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ کئی حلقوں کی طرف سے اسرار کے باوجود ایسے کسی فراڈ یا گھپلے پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی ۔ یہاں تک کہ مرکز سے ڈل کی صفائی کے نام پر پیکیج حاصل کئے گئے ۔ لیکن ڈل سکڑتا گیا اور بہت جلد اس کی موت کی پیش گوئیاں کی جانے لگیں ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ڈل نام کی چیز تو نظر آتی ہے ۔ لیکن اصل میں یہ سارے علاقے کے لئے غلاظت جمع ہونے کا وسیلہ بنا ہوا ہے ۔ اس طرح کے کئی منصوبوں کو جان بوجھ کر ناکام بنایا گیا ۔ ایسی صورتحال دیکھ کر کئی لوگ اس بات کی وکالت کرنے لگے کہ ایسے فلاحی منصوبوں کو سرکاری آفیسروں کے ہاتھوں میں دینے کے بجائے نجی اداروں سے کرایا جائے ۔ پرائیویٹ سوسائیٹیوں کے ذریعے اس طرح کے کام کرائے جائیں تو بہتر نتائج سامنے آتے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ کئی لوگ جموں کشمیر کے کسی پرائیویٹ انسٹی چیوٹ کے بجائے ملک کے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والوں سے ایسے کام کرانے پر زور دینے لگے ۔ اس حوالے سے ممبئی ، کلکتہ اور حیدر آباد کا نام لیا جانے لگا جہاں صفائی ستھرائی کا کام ٹھیکے پر کرایا جاتا ہے جس کے بہتر نتائج سامنے آئے ۔ لیکن کشمیر ایسا نہیں ہوا ۔ یہاں تک کہ سوچھ بھارت جو عوامی بہبود کا سب سے صحت مند منصوبہ تھا بلاک آفیسروں اور ٹھیکہ داروں کی خود غرضیوں کی وجہ سے ناکام ہورہاہے بلکہ لوگوں کے لئے وبال جان بنا ہوا ہے ۔
دیہی ترقی کا محکمہ چور دروازوں سے نوکریاں فراہم کرنے کے حوالے سے کشمیر کا ایک معروف ادارہ ہے ۔ اس ادارے نے بہت سے کام انجام دئے لیکن دیہات کو آگے بڑھانے اور ان کی ترقی ممکن بنانے کا ایک بھی کام انجام نہیں دیا ۔ بلکہ دیہات میں رشوت کا بازار یہیں سے گرم ہونا شروع ہوا ۔ آج بھی بلاک آفیسز ناجائز کاموں اور گھپلوں کے مرکز بنے ہوئے ہیں ۔ پہلے ایم جی نریگا اسکیم کی وساطت سے انہیں خوب لوٹ کا موقع ملا ۔ اب سوچھہ بھارت کے امدادی رقوم سے یہ خوب کمائی کررہے ہیں ۔ اس منصوبے کے تحت ہر بلاک بلکہ بیشتر بستیوں کے اندر کوڑا کرکٹ جمع کرنے کے لئے مخصوص نوعیت کے کواٹر تعمیر کئے گئے ۔ پہلے کہا گیا کہ بلاک آفیسز کے ذریعے ہر گائوں سے کوڑا کرکٹ جمع کرکے یہاں بہتر انداز میں ضایع کیا جائے گا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو محض ٹھیکہ داروں کو فائدہ دینے اور سرکاری اہلکاروں کو اس کا حصہ فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں ۔ مرکزی سرکار کی اس حوالے سے نیت چاہئے عوام کو فائدہ پہنچانے کی ہو ۔ لیکن ہمارے بلاک آفیسروں نے سب کچھ الٹ پلٹ کے رکھ دیا ۔ ایسے سارے کواٹر عام لوگوں کے لئے مصیبت کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔ یہاں جو کوڑا کرکٹ جمع کیا جاتا ہے ایک تو اس کو سائنسی طریقوں سے ٹھکانے لگانے کا کوئی بند و بست نہیں ہے ۔ ایسا انتظام تو یہاں کے بڑے بڑے ہسپتالوں میں مہیا نہیں ۔ کجا کہ اس طرح کی کوئی مشنری ہر دیہات کے لئے فراہم ہوسکے ۔سرکار نے اپنا کام کیا اور بہتر کام انجام دیا ۔ لیکن اس کی آڑ میں جو مسائل پیدا کئے گئے ان سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ سرکاری محکمے ہر اسکیم سے اپنا فائدہ نکالنے کے درپئے ہوتے ہیں ۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ لوگوں کو سہولیات فراہم کی جائیں ۔ انہیں کام اور پیسے سے مطلب ہوتا ہے ۔ کئی جگہ دیکھا گیا کہ عوامی مقامات کے نزدیک ڈسٹ بن بنائے گئے ۔ ایسی جگہوں پر نہ صرف آوارہ کتوں کی بھیڑ جمع ہوتی ہے جس وجہ سے وہاں سے گزرنا مشکل ہوتا ہے ۔ بلکہ یہ جگہیں دودراز کے جنگلوں سے وحشی جانوروں کو بستیوں میں لانے کا باعث بن جاتی ہیں ۔ اس وجہ سے کئی جانیں ضایع ہوئیں اور بہت سے لوگ ناکارہ ہوکر رہ گئے ۔ ایسی تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ایسی انسان دوست اسکیم ہمارے سرکاری آفیسروں کی نااہلی اور خود غرضی کی وجہ سے انسان دشمن بن رہی ہے ۔