از: صارم اقبال
دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے افراد نے اپنے لئے معاشرتی اور سماجی بنیاد رکھنے ک ساتھ ہی ساتھ زندگی گزارنے کے لیے اصول اور ضوابط تشکیل دیئے۔تاہم دنیا میں جتنے بھی اور جو بھی معاشرتی اور سماجی نظام موجود ہیں ان سب میں رنگ نسل اور مذہب سے ہٹ کر ایک بات مشترک ہے جو واقعی انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے وہ انسانی ہمدردی اور احترام انسانیت کا جذبہ ۔۔یہ وہ جذبہ ہے جس کے بغیر دنیا کا کوئی بھی معاشرہ انسانوں کا معاشرہ نہیں کہلا سکتا۔مر آج کے مادیت کے دور میں ایک فرد کو خوشحال معاشرے کی تعمیر و ترقی کے تعی اپنے ذمہ داریوں کے جذبہ و احساس کم ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم ہماری وادی کشمیر جو کہ روز اول سے ہی انسانی ہمدردی و احترام انسانیت میں پیش پیش رہی ہے ایسی ہستیوں نے جنم لے کر نہ صرف کشمیر کا نام روشن کیاہے بلکہ پورے ملک کا نام روشن کیا ہے ۔ چونکہ آج پوری دنیا میں عطیہ خون کے حوالے سے دن منایا جا رہا ہے تو اس حوالے سے ہم اپنے ان عطیہ د ہندگان جانبازوں کا تذکرہ کرینگے جن کی بدولت ہزاروں انسانی زندگیاں تلف ہونے سے بچتی ہیں۔ ان جانبازوں کے تذکرے کرنے کے ساتھ ہی ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کرنا سماج کے ہر ذیشعور فرد کا حق بنتا ہے۔ وادی سے تعلق رکھنے والے ان افراد کی قوم کے تعی خدمت کو دیکھ کرقوم کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔وادی کے یہ جانباز اپنے خون کا عطیہ کر کے بلا مذہب و ملت انسانی زندگیوں کو بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ایسے کم لوگ جانتے ہیں کہ جب خون کے عطیہ کا نام آتا ہے تو ہمارے ذہن میں جس ہستی کا نام آتا ہے وہ ہے سرینگر کے قمر گر پورہ سے تعلق رکھنے والے شبیر حسین کا نام سر فہرست آتا ہے۔ شبیر حسین خاں صاحب جسےMAN OF KASHMIR BLOOD کا خطاب حاصل ہے۔ شبیر حسین خان نے اپنی پوری زندگی دوسروں کی بھلائی کے لئے وقف کی۔ 1980ء میں خان نے خون کے عطیہ کا کار خیر عمل شروع کر کے نہ صرف ملک میں بلکہ پوری دنیا کے ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام درج کیا۔دراصل یہ وہ دور تھا جب وادی نا مساعد حالات کے سبب النفسی النفسی کی شکار تھی مگر اسی دور میں شبیر حسین خاں صاحب نے اپنے بازوؤں کو پھیلا کر پورے ملک میں اپنا نام روشن کیا۔ خان صاحب نے میڈیکل سائنس پر یقین رکھتے ہوئے ایسی تاریخ رقم کی جس کو دیکھ کر پوری دنیا میں پوری کشمیریت کا سر فخر سے بلند ہوا۔ آپ نے اپنے ہر ایک خون کے قطرے کو انسانیت کے نام وقف کیا۔۔۔۔اس گوہر نایاب نے اب تک سینکڑوں مریضوں کوخون کا عطیہ پیش کیا ہے۔بلا مذہب و ملت اللہ کی خوشنودی کو حاصل کرنے کے لیے آپ نے نہ رات کی تاریکی دیکھی نہ کبھی سرما کی شدید سردی۔۔۔ نہ سواری کے لئے گاڑی کی ضرورت محسوس کی۔۔ بلکہ ہر اس ضرورت مند کی فریاد کو لبیک کہا جو موت حیات کی کشمکش میں مبتلاتھے۔
شبیر حسین خان نے اب تک بار189خون کا عطیہ پیش کیا ہے جو کہ یو ٹی جموں و کشمیرمیں ایک ریکارڈ ہے۔خان صاحب، جس کی جبین سے انسانی ہمدردی کی لہریں اٹھتی ہیں نے کتنے بے بس مریضوں کو خون کاعطیہ پیش کر کے یہ ثابت کر کے دکھایا کہ۔۔۔خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں۔۔۔ بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے۔میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو۔۔خدا کے بندوں سیپیار ہوگا۔
کینسر ایسا ایک مرض ہے جس مرض نے بڑے بڑے سرمایہ داروں کو گھنٹوں کے بل کھڑا کیا۔اللہ نہ کرے اس مرض نے کتنے بڑے بڑے تاجر پیشہ افراد کو مفلسی میں ڈوبو دیا ہے۔ جب کوئی اس مرض میں متبلا ہوتا ہے تو سب سے پہلے مریض خون کی کمی کا شکار ہوتا ہے ۔چونکہ کچھ چیزیں پیسوں سے خریدی نہیں جا سکتی ۔۔ خون بھی ایسی خالق کی نعت ہے جو صرف ہم صحت مند افراد سے ہی حاصل کر سکتے ۔ ایک غریب کے پاس نہ تو پیسہ ہوتا ہے اور نہ ہی دیگر وسائل ۔۔چونکہ سرمایہ دار لوگوں کے احباب کا حلقہ وسیع ہوتا ہے مگر غریب پروردہ لوگوں کے لئے خون کا ملنا آب حیات سے کم نہیں ہوتا۔ ان جیسے لوگوں کے لئے شبیر حسین خان مثل خضر بن کر کبھی تاریک راتوں میں تو کبھی قاصد کے ہاتھوں میں اپنے رگوں سے خون کا عطیہ پیش کرتے ہیں۔پھر قدرت کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ کس کے پاس حیات کے لمحے بچے ہو۔اگر ہم اپنے سرکاری اسپتالوں پر سر سری نظر دوڑایں خاصکر شیر کشمیر میڈیکل انسچوٹ صورہ میں تو وہاں ایسے بہت سارے مریض ہونگے جن کو تین چار مہینے سے ذیادہ عرصے تک زیر علاج رہنا پڑتا ہے، اور ایسے بھی ہیں جنھیں سال میں ایک یا دو مرتبہ ایک ہفتے کے لئے چھٹی ملتی ہیں چو نکہ انہیں ایسا ہی مرض لاحق ہوتاہے۔ ایسے لوگوں کو ان کے اپنے عزیز اقارب بھی ان کو اپنے حال پر چھوڑ جاتے ہیں۔ان جیسے مریضو کے لئے وقتا فوقتا خون اور پلٹلیٹس کی اشد ضرورت پڑتی ہیں۔پھر جائیں تو جائیں کہاں۔۔ایسے لوگ حالات کے ہاتھوں مجبور اور لاچار ہو جاتے ہیں خاصکر جب کسی مریض کو 0-ve بلڈ درکار ہوتا ہے۔ ان صورتوں میں یہ جانباز شبیر حسین خان صاحب خون کا عطیہ پیش کرکے مریض کے منہ سے شکرانہ کے الفاظ بھی سننا گوارا نہیں کرتا۔۔اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ قوم اس جانباز میں کس قدر خدمت خلق کا جذبہ پایا جاتا ہے۔
اگر ایک طرف ہمارے نوجوان عطیہ کے اس کار خیر عمل میں آگے ہیں تو دوسری رف ہماری بہنیں بھی ہمارے نوجوانوں کے ساتھ شانہ بشانہ شامل ہیں۔ہمارے لئے اس سے بڑھ کر فخر کا مقام اور کیا ہوسکتا ہے کہ خون کے عطیہ کرنے والوں میں والوں ہماری خواتین بھی پیش پیش رہیے ہیں۔خواتین کے زمرے میں وادی کشمیر کے کپواڈہ سے تعلق رکھنے والی ایک بہن بلقیس آرا ، جس نے وادی میں اپنی ایک الگ اور منفرد پہچان بنا لی۔یہ بات تو طے ہے کہ جو لوگ دوسروں کے لئے ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں وہ لوگ بلا مذہب ملت،بلا مرد زن کی تفریق کئے بغیر میدان میں کود پڑتے ہیں جہاں سے ہمیشہ وہ سرخرو ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔
عطیہ دہند گان میں ہماری وادی کا ایک اور نوجوان آفاق رشید خان کا نام درخشاں ستارے کی مانند ہے جس نے اب تک 70 بار خون کا عطیہ اور 24 بار پلیٹلٹس کا عطیہ ضرورت مندوں کو پیش کیا ہے۔ شہر سرینگر کے بنہ پورہ بٹہ مالو سے تعلق رکھنے والے پنتیس سالہ نوجوان نے پچھلے بیس سالوں کے عرصے میں کئی بے بس لوگوں کی زندگیاں بچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ہمارا یہ جانباز سپاہی ان لوگوں کے لئے ایک چلینج بن کر ابھرا جو لوگ صحت مند ہونے کے باوود بھی خون کے عطیہ کرنے سے کتراتے ہیں۔اس سے بچنے کے بہانے اور طریقے تلاش کر رہیے ہیں۔ حالانکہ طبی تحقیقات کے حوالے سے دیکھا جائے تو خون عطیہ کرنے کے بعد انسانی جسم میں خون بننے کا عمل مزید تیزی کے ساتھ ہوتا ہے اور دیئے گئے خون کی کمی کچھ ہی دنوں میں پوری ہوتی ہے۔سب سے اہم بات جو آج کے انسان کو جو مادیت کے چنگل میں پوری طرح پھنس چکا ہے ان کے عطیہ ایک ضروری عمل بن جانا چاہیے۔ عطیہ خون کرنے سے انسان کو ایک خاص قسم کا قلبی سکون ملتا ہے جس کا موازانہ نہیں۔عطیہ دہندگان انسانیت کی ایک اہم خدمت فراہم کرتے ہیں اور حقیقی معنوں میں یہ خدمت خلق کا عملی مظاہرہ ہے۔اسی خدمت خلق سے سرشار ہو کر ہمارا یہ ہیرو آفاق 2016 ء میں خود کینسر کا مریض بن جاتا ہے ۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا بے بس لوگوں کی فریاد اور آہ میں زبردست اثر ہوتا ہے۔ خالق کل نے ان بے بس اور بے کس لوگوں کی آفاق کے شفا یابی کے لئے مانگی گئی دعائیں سنی جن لوگوں کو آفاق نے عطیہ کیا تھا اور آخر ایک کامیاب سرجری کے بعد ،موت و حیات کی جنگ لڑ کر پھر صحتیاب ہوا۔ناسازصحت سے لے کر صحت یاب ہونے تک تین بیٹیوں کے باپ کے دل میں عطیہ کے کار خیر عمل نے کبھی بھی ٹھوکریں نہیں کھانے دی بلکہ آفاق پہلے سے ذیادہ جذبہ لے کر عطیہ کے اس کار خیر عمل میں پھر سے کود پڑا۔آفاق نہ صرف ایک رضا کار ہے بلکہ آپ نے کوڈ کے دوران ایک غیر سرکاری فلاح و بہبود کی تنظیم کے ساتھ مل کر قریبا سارے سرینگر میں ان مریضوں کے کفن دفن میں ہاتھ بٹایا جن کی کووڈ کے سبب موت واقع ہوئی تھی۔آج کے دن کے حوالے سے جہاں ایک طرف ان عطیہ دہندگان کی حوصلہ افزائی کی تقاریب منعقد ہوتی ہیں تو وہی ان کے اس کار خیر عمل کو وہ حوصلہ افزائی نہیں کر پاتے جن کے وہ مستحق ہیں۔کم از کم جب یہ عطیہ دہند گان اپنا عطیہ دینے جاتے تو ان کے لئے ایک جوس کا ڈبہ کافی نہیں بلکہ ان کے لئے کم از کم پانچ سو روپیہ ملنا چاہیے۔
ضلع شوپیان سے تعلق رکھنے والے تیس سالہ نوجوان ناصر نبی شیخ عطیہ د ہند گان میں ایک قابل قدر نام ہے جس نے اب تک 60 بار خون کا عطیہ پیش کیا ہے جو کہ پوری وادی کے لئے رشک کی بات ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ o-ve خون ایک نایاب چیز ہے جب بھی کسی مریض کو اس قسم کے بلڈ گروپ کی ضرورت پڑتی ہیں تو طبی عملہ کے ساتھ ہی مریض بھی پریشان ہوتا ہے۔مگر قدرت نے اس قسم کے بلڈ گروپ عطیہ دہندگان کو خدمت خلق کے ایسے جذبے کو لے کر تخلیق فرمای ہے کہ ان کی نظر چوبیس گھنٹے موبایل سکرین پر ٹکی رہتی ہے کہ کب ضرورت مند کا پیغام آئے اور ہم ان کے لئے اپنے خون کا عطیہ پیش کریں۔ان ہی لوگوں کی بدولت ملک کے ہر کونے میں کشمیریت زندہ باد کے نعرے لگتے ہیں۔ناصر اور اس کے ساتھی ریاض احمد بٹ جو کہ کھریو پانپور سے تعلق رکھتے ہیں نے۔۔شان کشمیر بلڈ ڈونرز گروپ۔۔ کے نام سے ایک این جی او قائم کیا جسمیں یہ دونوں نوجوان وادی کشمیر کے اطراف و اکناف سے تعلق رکھنے والے باقی سینکڑوں نوجوانوں کیساتھ مل کر نہ صرف ضرورت مند مریضوں کو اپنے خون کا عطیہ پیش کیابلکہ غریب نادار لوگوں کو ہر ممکن مدد بہم پہنچاتے ہیں۔ناصر کی ایک بات جو راقم کو کافی ذیادہ متاثر کر گئی وہ یہ تھی کہ اگر ناصر کو معمولی سا نزلہ زکام یا بخار ہوتا تو ناصر کو ہمیشہ اپنے افراد خانہ سے سننی پڑتی تھی۔۔آپ کے رگوں میں جو بھی خون ہے اسے آپ عطیہ کرتے ہیں۔۔آپ کا بیمار ہونا تو طے ہے۔ناصر ان باتوں سے کافی ذ یادہ پریشان ہوتا ۔۔حالانکہ ان باتوں میں میڈیکل سائنس میں کوئی ثبوت نہیں۔ ایک روز ناصر خون کا عطیہ دینے کے لئے گیا ور اپنے ہمراہ اپنے عیال کا وہ فرد ساتھ لے جاتا ہے جس کے منہ سے باتیں سنی پڑتی تھی۔۔جب اسپتال پہنچے تو جب ساتھ والے فرد نے مریض کی حالت دیکھی تو اسے احساس ہوا کہ واقعی ناصر کا یہ کام ایک ضرورت مند کے لئے کافی اہم ہے۔ناصر کے مطابق میرے گھر کے فرد نے نہ صرف میرے عطیہ کے اس کارخیر عمل کو سراہا بلکہ اس نے بھی بہت بار اپنے خون کا عطیہ پیش کیا۔بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ ایسے بہادر لوگوں کی قربانیوں کو فراموش کر رہا ہے ۔ ان جیسے نوجوانوں کو ہم حوصلہ افزائی کرنے کے با وجود انہیں سرکاری کی طرف سے ایک معمولی سی سند دینے کی بھی سعی نہیں کرتے۔مگر وہ دن ضرور آئے گا جس دن شبیر حسین خان، محترمہ بلقیس آرا جیسی بہن،انسانی ہمدردی میں آفاق کو چھونے والا آفاق ناصر جیسا مددگار کی اہم قربانیوں کو سنرے حروف میں لکھے گے۔ ناصر کے ساتھ ان کے دوست ریاض احمد بٹ نے بھی اب تک 24 بار خون کا عطہ پیش کیا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتک ریاض نے 18 مرتہ پلیٹلٹس کا عطیہ کیا ہے جو کہ ایک بہت بڑا کام ہے۔قوم کے ان نوجوانوں کے حوصلوں کو سلام۔۔۔ آج کے دن ہم ان انسانی ہمدردی رکھنے والے اپنے بیٹوں کودل کی عمیق گہرایوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔یہ وہ ہستیاں ہیں جو ضرورت مند لوگوں کی امیدیں ہیں۔
ایسے سینکڑوں افراد ہیں جو عطیہ کے اس کار خیر عمل کا حصہ ہیں ان میں اک اور نوجوان قیصر شعبان کا نام بھی ہے جس نے ابھی تک 50 مرتبہ اپنے خون کا عطیہ پیش کیا ہے۔وادی کے ضلع گاندربل سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان نے قریبا دس بار پلیٹلٹس کا بھی عطیہ پیش کیا ہے۔ o-ve بلڈ رکھنے والے اس نوجوان نے ایک غیر سرکاری فلاح و بہبود کی تنظیم بنائی جس کا نام آپ نےcare for Humanity رکھی ہے جن میں وادی کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے قوم کے نوجوانوں کی بڑی تعداد جڑی ہوئی ہیں جو ہر مفلوک الحال تک بلا مذہب و ملت نہ صرف مہلک بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو خون و پلٹلٹس کا عطیہ دیتے ہیں بلکہ انہیں اپنی مقدور کے مطابق مدد بھی کرتے ہیں۔ان ہی نوجوانوں کی بدولت کشمیریت اور یہاں کی انسانیت کے تعی ہمدردی کو ہمیشہ سراہا جاتا ہے۔ اگرچہ وادی میں ہر آنے والے دن انسانیت کے دشمن منشیات فروشوں کو پکڑا جاتا ہے جس میں ہماری نئی نسل ملوث نظر آتی ہیں تو وہی ۔۔ ان نوجوانوں پر اللہ کی رحمت ہو جو ہمارے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر کے پوری انسانیت کو اپنا مقروض بناتے ہیں۔سلام ہو ان ماوئں پر جن ماوئں کی آغوش میں ایسے گوہر نایاب پرورش پاتے ہیں جو مسیحا بن کرسماج کے بے سہارے طبقے کو سہارا بن کر مشکل میں ان کا ہاتھ تھامتے ہیں۔سب سے بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ قوم کے ان جانباز سپاہیوں کو ہم بالکل نظر انداز کرتے ہیں اور ان کے لئے حوصلہ افزائی کے لئے محض زبانی شکرانہ بھی پی نہیں کر پاتے۔ حالانکہ ان عطیہ دہندگان کے لئے ہرسال 14 جون کو عالمی بلڈ ڈونرز ڈے منایا جاتا جسمیں ایسے افرادکو مدعو کیا جاتا جن کی کارکردگی اس فیلڈ میں غیر معمولی سی ہوتی ہیں۔قوم کے لاڈلے شبیر حسین خاں یا باقی عطیہ دہندگان کوکم از کم ریاستی سطح سے لے کر ملکی سطح پر ایک بارقار اعزاز ملنا چاہیے تاکہ بلڈ ڈونرز کی تعدادمیں روز بروز اضافہ ہو سکے۔خاصکر خواتین کی اگر بات کریں تو خون کے کار خیر عمل میں ان کی تعداد مردوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔چونکہ جب ہماری بہنیں اس کار خیر عمل میں ذیادہ سے ذیادہ شریک ہوتی اتنی بیماریوں سے وہ محفوظ رہتی۔
ہمارے ارد گرد ایسے سینکڑوں افراد ہیں جو خون کے کار خیر عمل میں محض رضائے اللہی حصہ لے رہیے ہیں۔ چونکہ راقم کے پاس ان سارے لوگوں تک رسائی حاصل نہ ہو سکی۔ البتہ ان لوگوں سے بھی یہاں کا ہر فرد یہی توقع رکھتا ہے کہ آپ کے اس کار خیر عمل سے نہ صرف فرد واحد کو فائدہ پہنچتا ہیبلکہ آپ پوری انسانیت کو نفع پہنچا رہیے ہیں۔کنن پوشہ پورہ کے گلشن صاحب ہو یالال بازار کا عاقب حسن شاہ۔۔آپ کیاس جذبے کو سلام جو جذبہ آپ نے ابھی تک دکھایا۔