تحریر:جی ایم بٹ
اسلام کی تعلیمات بڑی متوازن ، دلکش اور دلچسپ ہیں ۔ یہ تعلیمات انسان کی بدنی اور روحانی تربیت کے بہترین سرمایہ قرار دی جارہی ہیں ۔ بغیر کسی تعصب کے مختلف طرز کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو اسلامی تعلیمات بہترین سرمایہ معلوم ہوتی ہیں ۔ دنیا میں ایسی کوئی دوسری تعلیمات موجود نہیں کہ اسلامی تعلیمات کو ان سے بہتر قرار دیا جاسکے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کے علاوہ جو نظریے اور تعلیمات پائی جاتی ہیں ان میں بھی انسان کے لئے تربیت کا کچھ حصہ ضرور پایا جاتا ہے ۔ تاہم انسان کی مکمل تربیت اور اسے ایک کامیاب انسان بنانے کے لئے مکمل تربیت کا انتظام اسلام میں ہی پایا جاتا ہے ۔ جو دوسرے مذاہب دنیا میں پائے جاتے ہیں اپنے زمانے میں ان کے اندر بھی اس طرح کا انتظام پایا جاتا تھا ۔ لیکن زمانے کے گزرنے کے ساتھ ان مذاہب کے پیشوائوں اور محافظوں نے ان کی تعلیمات کو محدود کرنے کی کوشش کی ۔ ان ہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ایسی مذہبی تعلیمات بہت حد تک صرف روحانی تربیت کے لئے مخصوص ہوکر رہ گئی ہیں ۔ ان مذاہب نے دنیاوی ضروریات کو نظر انداز کرکے انسان کو محض چند عبادات تک ہی محدو کرکے رکھ دیا ۔اس وجہ سے ایسے مذاہب زیادہ دیر کے لئے قائم نہ رہ سکے ۔ جب انسان دنیا کی مصروفیات کے ساتھ مکمل طور مشغول ہوگیا وہاں اس کو مذہب کی رہنمائی ملی نہ ضرورت باقی رہی ۔ اس وجہ سے ایسے مذاہب عبادت گاہوں میں قید ہوکر رہ گئے ۔ اسی طرح مغرب سے ابھرنے والی تحریکوں نے جو نظریات پیش کئے ان میں انسان کی روحانی تربیت کا کوئی انتظام نہیں ۔ وہاں تو روحانی ضروریات کا سرے سے انکار ہے ۔ اس لئے انسان کو سحر زدہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ اسلام نے اس کے برعکس انسان کے سامنے ایسا نظام پیش کیا جو انسانی زندگی کے ہر پہلو پر غالب نظر آتا ہے ۔ اسلام کی تعلیمات کا منبع اللہ اور اسی کی منشا مانا جاتا ہے ۔ اس تناظر میں سمجھا جاتا ہے کہ انسان کا خالق ہونے کی وجہ سے اللہ انسان کی تمام ضروریات سے باخبر ہے ۔ اس لئے اس نے اسلامی تعلیمات کا ایسا جامع نظام نازل کیا جو انسان کی ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی ضرورتوں کو پور ا کرتا ہے ۔ اس بات کے پیش نظر اسلام کے ساتھ انسانوں کی سب سے زیادہ دلچسپی ہونی چاہئے ۔ اس کے باوجود دنیا اسلامی تعلیمات کو بہتر نہیں سمجھتا اور لوگ اسلامی تعلیمات کو اپنانے کے لئے تیار نہیں ۔
اسلامی تعلیمات ایک زمانے میں انسان کے لئے سب سے زیادہ توجہ کا مرکز رہی ہیں ۔ اس زمانے میں جہاں بھی یہ تعلیمات پہنچتی تھیں لوگ ان سے متاثر ہوکر ان کے گرویدہ بن جاتے تھے ۔ لیکن آہستہ آہستہ اسلامی تعلیمات کے ساتھ یہ دلچسپی ختم ہوگئی اور لوگوں کا جوق در جوق اس کے دائرے میں آنا بند ہوگیا ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ ایک یہ کہ مغربی نظام زندگی انسان کے لئے بڑی آسانیاں پیدا کرتا ہے ۔ ایک تو اس کے اندر لامحدود آزادی ہے جہاں کام اور کمائی سے زیادہ کوئی مطالبات نہیں ۔ دوسرا مغرب نے عملی طور انسانی زندگی کو آرام دہ بنانے کے لئے سب سے زیادہ ایجادات فراہم کیں ۔ مغرب کے اندر توسیع پسندی کا شوق نہ بڑھ جاتا اور انسانی آبادی پر جنگ مسلط نہ کی جاتی تو آج زندگی کی بہترین ہیئت موجود ہوتی ۔ مغرب کی فتوحات نے انسانی زندگی کو انتہا کی حد تک خوف زدہ بنادیا ۔ خوف میں جینا اور زندگی گزارنا ہر گز ممکن نہیں ۔ اس وجہ سے مغرب کے اپنے لوگ بھی اس نظام سے متنفر ہوتے جارہے ہیں ۔ یہاں تک کہ مابعد جدیدیت کے اثرات مغربی نظریات کو کمزور ثابت کررہے ہیں ۔ کیمونزم اسی وجہ سے دم توڑگیا بلکہ سرمایہ دارانہ نظام بھی اپنی موت آپ مرچکا ہے ۔ امریکہ اور روس کے خدمات گزاروں نے جو سہولیات انسان کو فراہم کیں ان کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ انسان مرتے دم تک ان کا مرہون منت رہنا چاہئے ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ بلکہ لوگ ان سے بہت حد تک خائف اور بیزار ہیں ۔ وجہ یہی ہے کہ انہوں نے انسانی معاشرے کے اندر رقابت اور نفرت کی جو فضا قائم کی اس نے لوگوں کو بہت حد تک مذہب کے قریب کیا ۔ اس دوران یہاں کے بڑے بڑے لوگ ایک بار پھر مذہب کا مطالعہ کرنے لگے اور مذہب کو قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے ۔ ایسے ہی حالات کی وجہ سے ایران ، مصر ، ہندوستان اور افریقہ کے لوگ بڑے بڑے جتھوں میں اسلام کی طرف راغب ہوئے ۔ یہاں بڑے پیمانے پر اسلام قبول کرنے کی اصل وجہ یہی تھی کہ ان معاشروں میں خوف اور استحصال کا ماحول پایا جاتا تھا ۔ انہیں مسلمانوں کے رویے نے اتنا متاثر کیا کہ یہ اپنا آبائی مذہب بلکہ تمام طورطریقے چھوڑنے کے لئے تیار ہوئے اور اسلام قبول کیا ۔ حد تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کلچر کو چھوڑ کر مسلمانوں کی تہذیب اور ان کا تمدن اختیار کیا ۔ آج کل کے جنگ زدہ ماحول میں بھی یہی ہونا چاہئے تھا ۔ لیکن نہیں ہورہاہے ۔ اکا دکا لوگ ضرور اسلام قبول کرتے ہیں ۔ یہ لوگ اسلام کا مطالعہ کرکے اس پر ایمان لاتے ہیں ۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ ہرشخص کو مطالعے کا ذوق ہے نہ اس کے لئے فرصت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قبول اسلام کی کوئی منظم تحریک کہیں نظر نہیں آتی ۔ کسی علاقے کی پوری آبادی ایسا کرنے کو تیار نہیں ۔ انہیں اسلامی تعلیمات کا جو نمونہ پیش کرنا تھا وہ موجود نہیں ۔ بلکہ اسلام کا نمونہ ہونے اور اسلام کی دعوت دینے والوں کو جب یہ دیکھتے ہیں تو ان سے دور بھاگتے ہیں ۔ ان کے اندر ایسے کوئی اوصاف نہیں جو انہیں اسلامی تعلیمات کا اصل چہرہ دکھاتے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اور نہ اسلامی تعلیمات وہ کشش رہی ہے جو قرون اولیٰ میں پائی جاتی تھی ۔