تحریر: محمد شبیر کھٹانہ
جب اس حقیقت کو تعلیم یافتہ افراد تسلیم کرتے ہیں کہ ہر ایک بچہ قابل اور لائق ھے تو پھر ہر ایک استاد بھی قابل اور لائق ھے اگر چہ کچھ اساتذہ اکرام ﷲ کی طرف سے تحفہ یافتہ ہوتے ہیں مگر I. Q کے مطابق تقسیم ہونے والے باقی کے چار گروپس میں آنے والے اساتذہ اکرام محنت اور لگن سے ایک تحفہ یافتہ استاد سے بھی قابل اور لائق بن سکتے ہیں جب ایک استاد کو اپنے آپ پر اعتماد بھروسہ پیدا ہو گیا کہ محنت کر کے وہ قابل اور لائق بن سکتا ھے اور پھر صرف محنت کی ضرورت ھے
اب اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ھے کہ بچوں کی بنیاد کس طرح پختہ کی جا سکتی ھے تا کہ بچوں کو اپنے اور اعتماد اور بھروسہ پیدا ہو جائے کہ وہ پڑھ سکتا ھے اور پھر قابل اور لائق بن سکتا ھے جب ایک بچہ کسی بھی اسکول میں داخلہ حاصل کرتا ھے تو سب سے پہلے بچوں کو حروف تہجی کی پہچان کروانے کی ضرورت اتنی اچھی طرح کہ بچہ کسی بھی طرح حروف پہچان لے اس کے بعد بچوں کو جوڑ کرنا سکھانا ھے اور جب بچہ جوڑ کر کے الفاظ پڑھنا شروع کر دے گا تو یہ وقت ھے بچے میں شوق پیدا کرنے کا اس وقت بچے کے پڑھنے کے لئے ان الفاظ کا انتخاب کرنا ھے جن کے پڑھنے میں بچہ دلچسپی لے اور بچہ ان الفاظ کو پڑھنا پسند کرے گا جب بچے کو الفاظ اچھی طرح بہت ہی اچھی طرح پڑھنا آ گے تو پھر مشق کروانے سے اس کا ذخیرہ الفاظ بڑھایا جا سکتا ھے ثابت ہوتا ھے کہ استاد اگر شروع سے ہی بچے پر محنت کرے تو ہر بچہ غیر معمولی قابل اور لائق بن سکتا ھے مگر ایسا نہیں ھے
پھر اس بات پر تمام اساتذہ اکرام کو غور کرنے کی ضرورت ھے ایک ضلع سطح کی کمیٹی کی طرف سے طلباء میں ریاضی (Maths) سیکھنے میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے کی گئی ایک تفصیلی تحقیق کے مطابق یہ رائے دی گئی ہے کہ جب تمام طلباء ریاضی کے چار بنیادی عملیات پر مکمل عبور حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔……..اس حد تک عبور کہ ہر طالب علم ان بنیادی عملیات سے متعلق کسی بھی مسئلے کو اتنے مناسب وقت میں حل کرنے کے قابل ہو جائے جس میں ایک ہی کلاس کا سب سے ذہین طالب علم اسے حل کر سکے پھر اس کے دل و دماغ پر ایک دباؤ پیدا ہوتا ہے کہ پڑھائی اس کے لئے بمشکل ہے۔ اس وجہ سے طلباء اپنے اوپر پختہ یقین اور مکمل اعتماد پیدا نہیں کر سکتے کہ وہ پڑھائی میں سبقت نہیں حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی کلاس کے ذہین طالب علم کے برابر غیر معمولی قابل اور لائق نہیں بن سکتے۔
مستقل حل: اساتذہ کو طلباء کو چار بنیادی عملیات اس طرح سکھانے چاہییں کہ وہ طلبا ریاضی کے چار بنیادی عملیات پر مکمل عبور یا مہارت حاصل کر لیں…. اتنا عبور یا مہارت کہ جتنا عبور یا مہارت ضلع سے سب سے ذہین طالب علم کو حاصل ھے۔۔۔اتنا عبور یا مہارت کہ جس سے ہر طالب علم ان بنیادی عملیات سے متعلق کسی بھی سوال کو ایک مناسب وقت کے اندر حل کر سکے جتنے وقت میں ایک ہی کلاس یا پھر ضلع کا سب سے ذہین طالب علم اسے حل کر سکتا ہے تو پھر طلباء اپنے لیے پڑھائی کو کبھی بھی مشکل نہیں سمجھیں گے ان کو اپنے آپ پر پورا اعتماد اور بھروسہ پیدا ہو جائے گا اور پھر طلبا پڑھائی میں قابل اور لائق بننے کے ساتھ ساتھ پڑھائی کا پورا لطف بھی اٹھائیں گے مزید اس کمیٹی کی رائے کے مطابق طالب علموں کو بنیادی ریاضی صحیح طریقے سے پڑھا کر اسکولوں میں ڈراپ آؤٹ کی شرح بھی صفر تک لائی جا سکتی ھے اور پھر سخت مشق (rigours practice )کی مدد سے تمام طلباء کو ریاضی کے بنیادی عملیات ،BODMAS اور جیومیٹری کے بنیادی concepts پر اس قسم کا عبور یا مہارت حاصل کروائی جا سکتی ھے
جب ان تمام بنیادی concpts پر بچوں کو پورا عبور اور مہارت حاصل ہو جائے گی پھر ریاضی بہت ہی اچھی طرح پڑھنا آ جائے گا اب جب ریاضی میں بچہ قابل اور لائق ہو گا پھر وہ سبھی مضامین میں اس سے بھی زیادہ قابل اور لائق ہو گا یاد رہے جس کو ریاضی اچھی طرح آتا ھے اس کو سب کچھ آتا ھے
ایک استاد کا یہ کام بھی ھے وہ بچوں میں بیٹھ کر پڑھنے کی عادت ڈالے تا کہ بچہ پڑھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ بیٹھ سکے جب ایک استاد والدین کے ساتھ مشورہ کر کے بچوں کے لئے چار سمارٹ مقاصد کا تعین کرے گا اور ضرورت کے مطابق بچوں کی قابلیت کا جائزہ بھی لگاتا رہے گا ضرورت کے مطابق قابلیت بڑھاتارھے گا جب ایک استاد کی کاوشوں سے زندگی کا مقصد ایک بچے کے لئے ایک خواب بن سکتا ھے مگر یہ وہ خواب تو نہیں ھو گا جو ایک بچہ سوتے ہوئے دیکھتا ھے البتہ یہ ایسا خواب ہوتا ھے جو بچوں کو تب تک محنت کی راہ پر گامزن رکھتا ھے جب تک بچہ ایک خوبصورت منزل تک نہیں پہنچ پاتا یعنی ایک سمارٹ عہدہ نہیں حاصل کر پاتا
ایک استاد والدین کو بھی تعلیم کی اہمیت اچھی طرح سمجھا سکتا ھے اور پھر یہ کہ والدین کو بچوں کی تعلیم میں اسکول کے وقت سے پہلے یا اسکول سے چھٹی کے بعد کیا رول بنتا ھے ایک استاد کے پاس بچے صرف چھ گھنٹے رہتے ہیں جبکہ والدین کے پاس اٹھارہ گھنٹے ہوتے ہیں اس لئے بچوں کی تعلیم میں والدین کا بھی ایک بہت بڑا رول بنتا ھے
تعلیم مکمل انسانی صلاحیتوں کے حصول، ایک منصفانہ معاشرے کی تشکیل اور قومی ترقی کو فروغ دینے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ مساوات کی تعلیم تک عالمی رسائی فراہم کرنا معاشی ترقی، سماجی انصاف اور مساوات، سائنسی ترقی، قومی یکجہتی اور ثقافتی تحفظ اور عالمی دور میں ہمارے ملک کی مسلسل ترقی اور قیادت کے لیے کلیدی مقام رکھتی ہے ۔
اب یہ ضروری ہوتا جا رہا ہے کہ بچے نہ صرف سیکھیں بلکہ سیکھیں کہ کیسے سیکھنا ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہو گا جب تمام اساتذہ بچوں کے ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے کافی مخلص اور قابل ہوں گے جو بچوں کے لیے صحیح طریقے سے سیکھنے میں پیدا ہونی والی مشکلات کا حل کرنے کی صلاحیت اور قابلیت رکھتے ہوں گے۔ بچوں کو سکھانے کے لیے استاد کے پاس علم ہونا چاہیے کہ وہ بچوں کو کیسے سیکھنا چاہیے اور اساتذہ کو خود بھی یہ جاننا چاہیے کہ انھیں اساتذہکو کیسے پڑھانا چاہیے تاکہ کلاس روم میں پڑھانے کے عمل کے دوران بچوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔NEP 2020 کے مطابق تمام اساتذہ کو اپنے آپ کو سوسائٹی کے سب سے قابل احترام اور ضروری ارکان کے طور پر بحال کرنا چاہیے کیونکہ وہ حقیقی معنوں میں ہمارے شہریوں کی اگلی نسل کو تشکیل دیتے ہیں۔ استاد کو اپنا کام زیادہ سے زیادہ مؤثر طریقے سے کرنا چاہیے۔ نئی تعلیمی پالیسی کو تمام سطحوں پر تدریسی پیشے میں داخل ہونے کے لیے بہترین اور شاندار امیدواروں کو بھرتی کرنے میں مدد کرنی چاہیے تاکہ ان کی روزی روٹی، عزت، کوالٹی کنٹرول اور جوابدہی میں ماہر خود مختاری کو یقینی بنایا جا سکے۔
نئی تعلیمی پالیسی کے تحت تمام طلبہ کو معیاری تعلیم فراہم کی جانی چاہیے۔ تمام اساتذہ اور ان کے کنٹرول کرنے والے آفسیران کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام علاقوں کے تمام طبقوں اور تمام کیٹیگریز سے تعلق رکھنے والے طلباء کو تعلیمی نظام میں داخل ہونے اور اس میں سبقت حاصل کرنے کے مواقع فراہم کریں۔ تدریسی برادری کی مخلصانہ کاوششوں سے تمام طلباء کو غیر معمولی موثر اور ذہین بننا چاہیے تبھی وہ (طلبا) معاشرے کی خدمت کے لیے مختلف سمارٹ پوسٹ کے حصول کے لیے مطلوبہ اعلیٰ ترین کارکردگی حاصل کریں گے۔ اس مقصد کے لیے تمام اساتذہ میں اتحاد اور یکجہتی کا ہونا ضروری ہے تب ہی ہم ہمدردی، ہمت اور لچک، سائنسی مزاج اور تخلیقی تخیل کے ساتھ اخلاقی اقدار اور اقدار کے حامل اچھے انسان پیدا کر سکیں گے۔
اب بچوں میں جن اقدار کو شامل کیا جانا ہے وہ تخلیقی صلاحیت اور تنقیدی سوچ ہیں تاکہ منطقی فیصلہ سازی اور اختراع کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ اخلاقیات اور انسانی اور آئینی اقدار میں ہمدردی، دوسروں کا احترام، خود کا احترام، صفائی، آداب، شائستگی، جمہوری جذبہ، خدمت کا جذبہ، سائنسی مزاج، آزادی، ذمہ داری، مساوات اور انصاف شامل ہیں۔ زندگی کی مہارتوں کی قدروں میں تعاون، ٹیم ورک، مواصلات، لچک شامل ہیں۔
چونکہ تعلیم عوامی خدمت ہے؛ اساتذہ اور فیکلٹی سیکھنے کے عمل کا دل ہیں NEP 2020 کے پیرا 0.13 میں بیان کردہ تمام اقدار Values کو اپنے اندر شامل کرنے کی ضرورت ہے
اگر تمام استاد اپنے آپ سے مسابقت کی عادت ڈالیں گے جس کا مطلب ہے کہ ہر استاد کو اپنے تجربے میں اختراعی خیالات، فیصلہ سازی، مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت، تنقیدی یا منطقی سوچ، علم اور تدریسی صلاحیتوں میں ہر روز ہر پچھلے دن کے مقابلے میں اضافہ کرنے کی عادت پیدا کرنی چاہیے۔ یہ سب اس وقت ممکن ہوگا جب تمام اساتذہ اپنے اندر خود شناسی اور انصاف پسندی کی عادت پیدا کریں گے جب یہ تمام اقدار اساتذہ اکرام کے اندر پیدا ہو جائیں گی تو پھر انصاف کرنا ہر ایک استاد کے لئے ممکن ہو جائے گا
جب استاد جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بہت ہی اچھی طرح جانتا ہوگا جو آج کل وقت کی ضرورت ھے وہ ICT لیبز CAL centres اور سمارٹ بورڈ کا استعمال اچھی طرح جانتا ہو گا تو پھر وہ بچوں کو بہت ہی اچھی طرح پڑھا سکے گا
جب تمام اساتذہ بہت ہی امیر بننے کی ایک سوچ پیدا کر لیں گے امیر اس اعتبار سے کہ ان کے بے شمار شاگرد قابل اور لائق بن کر بہت سمارٹ عہدوں پر کام کر رہے ہو گے اب جس استاد کے زیادہ سے زیادہ شاگرد اچھے عہدوں پر فائز ہوں گے وہ سب سے زیادہ امیر ہو گا یہ امیری بھی بہت ہی شاندار امیری ہو گی جب ایک استاد اپنے شاگردوں کو ان سمارٹ عہدوں پر کام کرتا دیکھے گا تو اس کے دل کو ایک شاندار سکون حاصل ہو گا اور پھر یہ اس کے تمام شاگرد کسی بھی مشکل گھڑی میں اپنے استاد کی مدد کر سکتے ہیں جتنا استاد محنتی لائق اور قابل ہوتا ھو گا اتنے ہی شاگرد اور سماج اس کی عزت کرے گا
مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر تمام اعلی تعلیم یافتہ افراد ذی شعور شہریوں اور والدین کو استاد کے ساتھ تعاون کر کے استاد کی تمام تر صلاحیتوں کا،فائدہ اٹھانا چائے تمام افراد کے لئے اپنا مناسب رول ادا کرنا ضروری ھے تا کہ اساتذہ اکرام کی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر تعلیم کے نظام میں تبدیلی لائی جا سکے۔اور پھر تمام۔ بچے قابل اور لائق بن سکیں اور سمارٹ عہدے حاصل کر کے سماج کی پوری پوری خدمت کر سکیں
اس آرٹیکل کے لکھنے کا ایک خاص مقصد ھے وہ یہ کہ اس کو اس ذی عزت اخبار میں پبلش کر کے اس کے ذریعہ تمام اساتذہ اکرام کو اس بات سے آگاہ کیا جا سکے ان ہی کے رول سے بچے جتنا بھی قابل اور لائق بننا چائیں بن سکتے ہیں اس لئے تمام اساتذہ اکرام کو اپنا تمام تر ہنر یا پھر اپنی تمام صلاحیتیں بچوں کو قابل اور لائق بنانے میں استعمال کرنی چائیے تا کہ تمام اساتذہ کے ہاتھوں سماج کی بہترین خدمت کی جا سکے