از ۔ محمد انیس
اگر کوئی اعلان کرے کہ پنجابی قوم بزدل ہوتی ہے تو کوئی یقین نہیں کریگا۔ اگر کوئی کہے کہ ہندو قوم روشن خیال ہوتی ہے ، تو بھی کوئی یقین نہیں کریگا۔ اسی طرح اگر کوئی کہے کہ اسرائیلی ان پڑھ اور عیسائی کندذہن ہوتے ہیں تو اس پر بھی کوئی وشواس نہیں کریگا’ کیونکہ یہ باتیں حقیقت حال کے برعکس ہیں۔ یہ باتیں قائم شدہ حقیقت سے میل نہیں رکھتیں۔ سب کو پیشگی طور پر معلوم ہے کہ حقیقت حال ایسی نہیں ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ کوئی قوم جن اوصاف کی حامل ہوتی ہے ان اوصاف کے مطابق از خود اس قوم کا امیج بن جاتا ہے ۔ عہد نبوی سے مثال لیجئیے۔ رسالت سے قبل مکہ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سب کو معلوم تھا کہ آپؐ صادق اور امین ہیں ۔ رسولِ خدا کا یہ امیج اتنا زیادہ مستحکم تھا کہ رسالت کے بعد الزام لگانے والے کفار بھی اس سے انکار نہیں کرسکتے تھے ۔ حتیٰ کہ سب سےبڑا دشمن ابوجہل نے کہا کہ ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے۔ ہم صرف تمہارے پیغام کو جھٹلاتے ہیں۔ مکہ میں لوگوں نے رسالت کو جھٹلا دیا مگر حضرت محمدؐ کی صداقت کو جھٹلا نہ سکا۔ ایسا اس لئے تھا کہ مکہ میں یہ ایک معلوم حقیقت تھی کہ محمد بن عبداللہ صادق اور امین ہیں ۔اس صداقت کے خلاف کوئی بھی پروپیگنڈا کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔
اسی طرح ایک اور مثال لیجئے۔ قدیم عہد جنگ اور تشدد کا عہد تھا۔ لیکن اگر کوئی کہتا کہ پیغمبر اسلام جنگ پسند یا انتہا پسند شخص ہیں تو کوئی اس پر یقین نہیں کرتا۔ اس لئے کہ یہ ایک معلوم حقیقت تھی کہ رسولِ خدا نے تشدد اور ٹکراؤ سے گریز کیا اور ہجرت کا راستہ اختیار کیا۔ مدینے کے تمام قبائل کو یکجا کرکے انہیں میثاق مدینہ پر آمادہ کیا، حدیبیہ میں دشمنوں کی شرطوں پر معاہدہ امن پر دستخط کئے اور فتح مکہ کے موقع پر اپنے دشمنوں کیلیے ایمنسٹی کا اعلان کیا۔ ایسے شخص کے بارے میں اگر کوئی کہتا کہ وہ بڑے جنگ پسند ہیں تو کوئی یقین نہیں کرتا۔
لیکن موجودہ زمانے میں ملت اسلامیہ کے بارے میں اگر کوئی کہے کہ مسلمان انتہا پسند اور تشدد پسند ہوتے ہیں تو ہندوستان سے امریکہ تک ہر شخص اس پر یقین کرتا چلا جائے گا۔ یہ یقین کسی سازش کےتحت نہیں ہوگا، بلکہ اس لئے ہوگا کہ گذشتہ کئی عشرے سے مسلم قوم کا یہی امیج بنا ہوا ہے ۔ اس کی وجہ اغیار کی سازش نہیں بلکہ خود مسلم سوسائٹی کے بعض ریڈیکل قسم کےلوگ ہیں جنہوں نے اپنے متشددانہ رویہ کی وجہ سے پوری امت کا امیج خراب کر رکھا ہے ۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ دشمنان اسلام نے سوچی سمجھی سازش کے تحت ہمارا امیج بگاڑ دیا ہے ۔ دشمنان اسلام لاکھ سازش کریں’ وہ کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک کہ ہمارے افعال اس کی تصدیق نہ کرتے ہوں ۔ چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا گیا کہ۔ ” ان کی کوئی سازش تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی بشرطیکہ تم صبر اور تقویٰ کی روش اختیار کرو” ( آل عمران: 120)۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے قومی یا علاقائی مسائل کا حل کس طریقے سے ہوگا ۔ جواب ہے کہ علاقائی سطح پر یا دوسرے لفظوں میں سیاسی سطح پر ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مکہ میں رسول صلی االلہ تعالیٰ کا امیج اس طرح کا تھا کہ سب لوگ آپ ؓ کو امین اور صادق کے طور پر جانتے تھے ۔ لیکن جونہی آپ نے نبوت کا کام شروع کیا تو لوگ آپ کے دشمن ہوگئے ۔ یعنی مذہب کی وجہ سے ہی آپؓ سے ناچاقی ہوئی۔ یہانتک کہ آپ ؐ کو جان سے مارنے کی کوشش کی گئی، آپ اور آپؐ کے اصحاب کو گھروں سے نکالا گیا ( سورہ حج : 40) اور آپ سے جنگ کی گئی,وغیرہ۔
اس کے برخلاف آج ہمارے مذہب کی وجہ سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں۔۔ ہمارے سارے مسائل قومی، علاقائی اور سیاسی نوعیت کے ہیں ۔ مذہب سے ان مسائل کا کوئی تعلق نہیں ۔ لہذا ان مسائل کا حل بھی سیاسی سطح پر ہوگا ، نہ کہ جہادی عمل سے ۔ لیکن انتہا پسندوں نے ان علاقائی اور سیاسی مسائل کے حل کیلئے میلیٹنسی کا راستہ اختیار کیا ہے اور اس کا خوبصورت نام جہاد رکھ دیا ہے ۔ چونکہ یہ عسکری سرگرمیاں دنیا کے مختلف حصوں میں ہورہی ہیں اس لئے عالمی میڈیا میں اسلامی دہشت گردی کی ریپورٹ چھائی رہتی ہے درآنحالیکہ دہشت گردی سے دین رحمت کا کوئی تعلق نہیں ۔ عام لوگ ان رپورٹوں کو دیکھ کر ہی اسلام کا تعارف لیتے ہیں اور اس بنا پر اسلام کو ایک تشدد آمیز سمجھتے ہیں ۔ اس کے بعد ہمارے احباب بلکہ ہمارے اکابرین ہم سے کہتے ہیں کہ یہ سب اسلام دشمن طاقتوں کی سازش ہے جو انہوں نے اسلام کا امیج بگاڑ دیا ہے ۔ اس طرح نظریہ سازش کے تحت ہم اپنے آپ کو کلین چٹ دے دیتے ہیں اور تمام الزامات اغیار کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ۔
سچ کہا جائے تو موجودہ دور میں اسلام کے انتہا پسند نظریہ نے اس مذہب کو ہائی جیک کرلیا ہے ۔ یہی وہ خود ساختہ نظریہ ہے جو آج اشاعت اسلام میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔ اس کی وجہ سے اسلام کی حقیقی اور مثبت تصویر لوگوں کے سامنے نہیں آتی ۔ ہم لاکھ دعویٰ کریں کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے ۔ اس دعوے کی کوئی اہمیت نہیں جب تک ہمارا مجموعی عمل ہمارے دعوے کے مطابق نہ ہوجائے ۔ اہل اسلام کو سمجھنا ہوگا کہ ہمارا کام جنگ کرنا نہیں بلکہ جنگ کی آگ کو بجھانا ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالٰیٰ فرماتا ہے ۔۔۔
"جب یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اس کو ٹھنڈا کردیتا ہے ۔ یہ زمین میں فساد کرنے کو کوشش کرتے ہیں مگر اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ( سورہ مائدہ : 64).
