از : جے پی نڈا
این ڈی اے کے دورِ اقتدار کے دوران، دوسری مرتبہ صحت و خاندانی بہبود کے وزیر کے طور پر عہدہ سنبھالنے کے بعد گذشتہ ہفتے جب میں نے بھارتی خوراک سلامتی اور معیار بندی اتھارٹی (ایف ایس ایس اے آئی) کا دورہ کیا تو مجھے 2014 میں بطور وزیر صحت اپنی ابتدائی مدت کار یاد آگئی۔ یہ وہ وقت تھا جب ایف ایس ایس اے آئی خود کو ملک کی خوراک سلامتی ضابطہ بندی ادارے کی شکل میں قائم کرنے کے مرحلے میں تھی اور اس پر دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی کے لیے خوراک کے معیار اور پالیسیوں کے تعین کی بڑی ذمہ داری عائد تھی۔
22 اگست 2016 کو خواک سلامتی اور معیار بندی ایکٹ (ایف ایس ایس اے)، 2006 کے ایک دہے کے مکمل ہونے کے موقع پر منعقدہ پروگرام میں جب میں نے پہلی مرتبہ ایف ایس ایس اے آئی ٹیم اور مختلف النوع شراکت داران سے ملاقات کی، تو ایف ایس ایس اے آئی کا نظریہ ایک دم واضح تھا۔ اس کا مقصد پالیسیوں کو مستحکم بنانا، سامنے آنے والی چنوتیوں کا حل نکالنا اور شہریوں اور خوراک سے وابستہ کاروباریوں کے مابین معاشرتی اور عملی تبدیلی کو فروغ دینا تھا۔ ان تمام پہل قدمیوں کو ’اِیٹ رائٹ انڈیا موومنٹ‘ کے تحت خوبصورتی کےساتھ یکجا کیا گیا ہے جس نے تمام ہندوستانیوں کے لیے محفوظ صحت بخش اور پیہم خوراک یقینی بنانے کے لیے ایک مربوط جامع نظام کے نظریے کو اپنایا ہے۔
وزارت صحت اور ایف ایس ایس اے آئی ہمارے خوراک سلامتی منظرنامے کو بہتر بنانے کے لیے لگاتار کوشاں ہے۔ ایک مضبوط خوراک سلامتی صورت حال پر مبنی نظام صرف مضبوط خوردنی پالیسیوں اور معیارات کی بنیاد پر ہی قائم کیا جا سکتا ہے۔ یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ ایف ایس ایس اے آئی کے سائنٹفک پینل اور خصوصی ماہرین پر مشتمل کمیٹیوں میں کافی توسیع ہوئی ہے جس میں 88 تنظیموں کے 286 ماہرین شامل ہیں۔ اس سے عالمی معیارات کے عین مطابق معیارات اور پالیسیوں کی نشو و نما کی رفتار میں قابل ذکر تیزی رونما ہوئی ہے۔
ایف ایس ایس اے آئی کی ایک اہم حصولیابی موٹے اناجوں کے معیارات کی تشکیل ہے جنہیں 2023 میں عالمی موٹے اناج (شری اَن) کانفرنس میں وزیر اعظم کے ذریعہ متعارف کرایا گیا تھا۔ یہ معیارات کوڈیکس ایلمنٹیریس کمیشن کے ساتھ مشترک کیے گئے ہیں جس سے موٹے اناج کے عالمی معیارات کی نشو و نما اور بھارت کو ایک سرکردہ ملک کے طور پر اپنی حیثیت حاصل کرنے کا راستہ حاصل ہوا ہے۔
محفوظ خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے پالیسیوں اور معیارات کی نشو و نما کے ساتھ ساتھ ان کا تغیر اور جانچ پرکھ بھی اتنی ہی لازمی ہے۔ گذشتہ آٹھ برسوں میں ایف ایس ایس اے آئی کے خوردنی جانچ کے بنیادی ڈھانچے میں قابل ذکر اصلاحات رونما ہوئی ہیں۔ معزز وزیر اعظم کی دور اندیشانہ قیادت میں کابینہ نے ریاستی خوراک جانچ پرکھ تجربہ گاہوں کو مضبوط کرنے کے لیے 482 کروڑ روپئے کی منظوری دی۔ ایف ایس ایس اے آئی نے ’’خوراک سلامتی آن وہیلز‘‘ نام سے موبائل فوڈ لیب دستیاب کراکے دور دراز کے علاقوں تک پہنچانا شروع کر دیاہے۔
ان حصولیابیوں کا جشن مناتے وقت ہمیں عالمی معیارات پر منظر عام پر آنے والے رجحانات جیسے پودے پر مبنی پروٹین، تجربہ گاہ میں وضع کیے گئے گوشت وغیرہ کو بھی تسلیم کرنا چاہئے۔ ایف ایس ایس اے آئی نئے زمروں، جیسے – ویگن خوردنی اشیاء، حیاتیاتی پیداواروں اور آیوروید پر مبنی خوراک کے لیے سرگرم طریقے سے معیارات وضع کیے ہیں اور یہ خوراک سلامتی کے ابھرتے رجحانات کے عین مطابق پیہم تطبیق کے عمل سے ہمکنار ہو رہا ہے۔
جیسے جیسے عالمی خوراک تجارت کی توسیع عمل میں آرہی ہے، ایف ایس ایس اے آئی کوڈیکس سے مماثل مختلف النوع پلیٹ فارموں پر بین الاقوامی ضابطہ بندی کے ساتھ شراکت داری عمل میں آرہی ہے۔ اس کا مقصد فزوں تر ہوتی ہوئی آبادی کے لیے محفوظ اور تغذیہ بخش خوراک یقینی بنانے کے لیے عمدہ ترین طریقہ ہائے کار کو مشتر کرنا اور تطبیق پر مبنی نظریے کو پروان چڑھانا ہے۔ ایف ایس ایس اے آئی نے 2023 میں دہلی میں اولین عالمی خوراک معیار بندی سربراہ ملاقات (جی ایف آر ایس ) کا بھی اہتمام کیا جو خوراک سے متعلق ضابطوں کے لیے ابھرتی ہوئی خوراک سلامتی چنوتیوں کے بارے میں باہم ملاقات اور تبادلہ خیالات کرنے کے لیے اپنی نوعیت کا اولین مبنی بر تعاون پلیٹ فارم ہے۔ ایف ایس ایس اے آئی آئندہ مہینوں میں جی ایف آر ایس کے دوسرے ایڈیشن کے لیے بھی مستعد ہے۔
جب ہم خوراک سلامتی پر بات کرتے ہیں، تو صارفین اور شہریوں کو حقائق کی بنیاد پر جانکاری کے توسط سے مختلف النوع خوراک سلامتی موضوعات پر بااختیار بنانا بھی اہم ہو جاتا ہے۔ تبھی ہمارا عمل جامع طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔ یہیں پر ایف ایس ایس اے آئی کی اِیٹ رائٹ انڈیا مہم اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس امر کو یقینی بنا کر کہ صارفین تک ہر سطح پر ضروری آگہی پہنچے۔ ان تغیراتی پروگراموں کو ہمارے رابطے کے عمل کو مضبوط کرنے اور عملی تبدیلی کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے پروان چڑھایا جا رہا ہے، جو صارفین کو محفوظ اور صحت بخش متبادلوں کی طلب کرنے کے لیے بااختیار بناتا ہے اور خوراک سے متعلق کاروبار کو بہتر متبادل فراہم کرنے کے لیے ترغیب فراہم کرتا ہے۔
ایف ایس ایس اے 2006 خوردنی پیداوار کے لیے وسیع تر معیارات کو لازم قرار دیتا ہے جس سے یہ بات یقینی بن جاتی ہے کہ وہ استعمال کے لیے محفوظ ہیں یا نہیں۔ ساتھ ہی فوڈ لیبلنگ کے قواعد صارفین کو ایک مبنی بر اطلاع متبادل مرتب کرنے کے لیے بااختیار بناتے ہیں۔ اشتہارات اور دعوؤں کے لیے پالیسیاں یہ بھی یقینی بناتی ہیں کہ خوردنی تجارت کے ذریعہ خوردنی پیداوار پر کوئی گمراہ کن دعویٰ نہیں کیا جا رہا ہے۔ صارفین تحفظ ایکٹ (سی پی اے) 2019 صارفین کو شکایت درج کرنے کے لیے وافر نظام فراہم کرکے ان کے سامنے آنے والی جدید چنوتیوں کا حل نکالنے میں معاون رہا ہے۔ بطور خاص گمراہ کن اشتہارات، غیر محفوظ یا گھٹیا خوراک سے متعلق شکایتوں کے معاملے میں ایسا ہوا ہے۔
خوراک سلامتی ایک اجتماعی کوشش ہے، اور ایف ایس ایس اے آئی مختلف النوع سرکاری محکموں اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر ہی ہے۔ یہ مکمل حکومت اور مکمل نظام کے نظریے کو اپنا رہی ہے۔ ایف ایس ایس اے آئی خوراک سلامتی اور صحت سے متعلق پہل قدمیوں میں صنعت اور شراکت داروں کو شامل کرکے ایک مبنی بر امدادِ باہمی کے نظریے کو عملی طور سے پروان چڑھا رہی ہے۔
ایف ایس ایس اے آئی نے گذشتہ دس برسوں میں بھارت کی خوراک سلامتی کی صورتحال کو اپنی طریقے سے تغیر سے ہمکنار کیا ہے، ساتھ ہی ساتھ ابھرتی ہوئی چنوتیوں کا حل نکالنے اور صارفین کو بااختیار بنانے کے لیے لگاتار کوشاں رہی ہے۔ ایف ایس ایس اے آئی کا مقصد اپنی عہد بندگی اور اجتماعی اور جامع نظریے سے بھارت کو خوراک کی پیداوار میں ہی نہیں بلکہ خوراک سلامتی اور استحکام میں بھی استاد عالم کے مقام پر فائز کرنا ہے۔
جے ہند!
مضمون نگار صحت و خاندانی بہبود کے مرکزی وزیر