تحریر:ش ،م ،احمد
ِ کشمیر میں دس سال قبل ماہ ستمبر میںایک تبا کن سیلاب آیا تھا ۔تاریخ کے پنوں میں وہ سیلاب ایک آفت ِعظیم یا قیامت صغریٰ کے عنوان سے درج ہوا۔ اس کی لرزہ خیز تباہ کاریوں نے اہل کشمیر کے کس بل نکال دئے ۔ یہ صدی کا سب سے بڑا عذاب تھا جو قہر الہٰی بن کر یہاں کے گوشے گوشے میں اور ہر پیروجواں پر خساروں کے کوڑے برسا تا ہواتاریخ کا حصہ بن گیا۔ آج دس سال بعد جموںکشمیر ایک اور بڑی سیاسی تبدیلی کی دہلیز پر کھڑا ہونے والا ہے۔ مجوزہ اسمبلی انتخابات کے لئے سپریم کورٹ نے قرعہ فال ماہ ستمبر کے حق میں ہی نکالا ہوا ہے ۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ دس سالہ وقفے کے بعد آنے والا ستمبر کشمیر کے لئےنویدِ زندگانی اور وخوش خبری لائے گا ۔ پھربھی سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہم اگلے دوڈھائی ماہ میںدس سالہ سیاسی جمود وتعطل کے بعد مجوزہ انتخابات کی صورت میں سیاسی موسم کےبد لاؤ کا غیر معمولی نظارہ دیکھنے والے ہیں؟ کیا دنیا جموں کشمیر میں ایک نئی خوش گوار سیاسی تبدیلی کی گواہ بننے والی ہے ؟ عدالت عظمیٰ نے مرکزی سرکار کو گزشتہ سال ٹائم باؤنڈ ہدایت جاری کی تھی کہ ستمبر۲۴ تک جموں کشمیر یوٹی میں نمائندہ سرکار کے لئے انتخابات عمل میں لائے جائیں‘ کیا کورٹ ڈائرکشن پرعمل درآمد کرتے ہوئے قانون ساز اسمبلی کے لئے انتخابات کا خوش کن بگل عنقریب بجنے والاہے ؟ کیا خیر سے مجوزہ انتخابات عوامی سوچ کو ایک تازہ دم سیاسی رنگ وآہنگ کے ساتھ جلوہ گر ہونے کا موقع ملے گا ؟ کیا الیکشن بخار میںمبتلا قومی اور مقامی پارٹیاں ان دنوں اپنے آزمودہ نعروں اور وعدوں کے ٹوکرے کی نئی تراش خراش میں چراغِ نیم شبی جلانے میں مصروفِ عمل ہیں ؟ کیاطالع آزما سیاست کار اپنے سیاسی نفع نقصان کا بہی کھاتہ کھولے وفاداریاں بدلنے اوردَل بدلیاں کر نے کے لئے پر تولنے میں لگے ہوئےہیں؟ کیا کوئی نیا انتخابی اتحاد بننے کا امکان یہاں موجود ہے یا اپنا اپنا سیاسی چورن بیچنے والے سیاسی لوگ اپنی سابقہ روش پر ہی اکتفا کر نا چاہیں گے ؟ کیا بر سراقتدار آنے والی نئی حکومت برسوں سےمعرض ِ التوا میں پڑے سلگتےعوامی مسائل حل کرانےمیں کامیاب رہےگی یا ماضی کی طرح وعدہ خلافیوں کا اعادہ ہو گا ؟ یہ وہ چند جواب طلب نکات ہیں جن پریہاں کے اہل دانش اور عوامی حلقوں میں مجوزہ الیکشن کے حوالے سے خیالات کا پہیہ گھوم رہاہے ۔ ان نکات پر کوئی حتمی رائے قائم کرنا ہمارے لئے قبل از وقت ہوگا۔تاہم ایک بات ثقہ طور پر کہی جاسکتی ہے کہ مجوزہ انتخابی معرکے میں لنگر لنگوٹے کس کر کودنے کو تیاربیٹھیں چھوٹی بڑی پارٹیاں بشمول آزاد اُمیدوار لازماً آج کل اپنے اپنے الیکشنی مینی فیسٹوکی ترتیب و تہذیب میں لگےہوں گے ۔ ان کے لئے ووٹروں کو اپنی جانب رجھانے کے لئے من پسند نعروں، وعدوں ‘ خوابوں ‘ سبز باغوں اور عوامی اُمنگوں پر اندر خانے مغز ماریاں ہورہی ہوں گی ۔ ا س سلسلے میں سابق حکمران پارٹی نیشنل کا نفرنس پہلے ہی رائے مشورہ کے لئے اپنی مینی فیسٹو کمیٹی کا اجلاس بلا کر ہوا کے رُخ کا پتہ دے چکی ہے ۔ ع دیکھئے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہےکیا
کسی بھی ا لیکشن پروسس کے لئے اُمیدوار اور ووٹر کا ہو نا لازم وملزوم ہے مگر ا ن کے درمیان رابطے کا ایک پُل انتخابی مہم اور الیکشن منشور لازماً ہوتا ہے ۔ کہنے کو منشور کاغذ کے چند صفحات کو سیاہ کرکے ووٹروں کو پارٹی یا کسی اُمیدوار کی جانب سے ووٹ کے بدلے سہولیات ‘رعایات ، مراعات ، مفادات کی دستاویزی یقین دہانی بدیں الفاظ ملتی ہے کہ تمہاری تمناؤں اور آرزؤں کا آباد وشاداب جہاں صرف ہمارے اُمیدوار کے حق میں ای وی ایم کا بٹن دبانےکی دوری پر موجود ہے ‘ بٹن دبایئے اور اُن باغات ِ جنت کی ملکیت پایئے جہاں راحت ِجان کی تمام آسائشیں ۔۔۔ باعزت روزگار ‘ صحت عامہ کی سہولیات‘ تعلیم وتدریس کی فراہمی‘ پینے کا صاف پانی‘ مہنگائی سے خلاصی ‘ خواتین کے چادر چار دیواری کی حرمت ‘ معصوم بچوں کے لئے ہر ممکن راحت رسانی ‘ رِستے ہوئے بلد یاتی ناسوروں سے چھٹکارا ‘ شہری آزادیوں کی ہواخوری اور آرام دہ نقل وحرکت کے لئے سستے پبلک ٹرانسپورٹ کےخاطرخواہ انتظامات ۔۔۔ بانہیں کھولے آپ کا استقبال میں کھڑی ہیں۔ الغرض سیاسی پارٹیوں کے منشور رائے دہندگان کے ہاتھ ایک کتابچے کی صورت میں وعد ہ نما بیان حلفی ہوتا ہے کہ آپ اپنا قیمتی ووٹ ہمارے حق میں دیجئے‘ پھر دیکھئے ہم آپ کے لئے دودھ کی نہریں کھودلائیں گےاور شہد کی ندیاں بہا ئیں گے۔ آپ کی تمام شکایات دور ‘ ساری نو میدیاں کافور ۔ گویا ووٹر کو بھروسہ د لایا جاتاہے کہ ہمارے حق میںووٹ ڈالئے تو ہم آپ کے تمام مسائل کی تیر بہدف شنوائی کریںگے‘ ہم ان کے مطلوبہ حل کے لئے اَنتھک کام کر کے دم لیں گے‘ہم چن چن کر آپ کو تکالیف اور سختیوں سے رہائی دلائیں گے‘ ہم مسیحاؤں کےہوتے ہوئے سڑک ‘ نالی ‘ پانی ‘ بجلی‘ شفاخانے ‘اسکول ‘ بے ورزگاری ‘نوکری‘ مہنگائی وغیرہ وغیرہ تیکھےکڑوے مسئلوں سے نجات د لانے کے لئےہمارا گوشنا پترآپ کےساتھ ہماری حلف وفاداری کا مظہر اور سطح ِ زمین پر آپ کے لئے جنت جیسی زندگی گزارے کا نقشِ راہ ہے ‘ یہ ہماری گارنٹیاں ہیں ‘ یہ ہمارے ٹھوس وعدے ہیں‘ پران جائے پر وچن نہ جائے‘ کے مصداق ہم ہر قیمت پر اس منشور کا پالن کریں گے ‘آپ کی قسمت کی کایا پلٹ کریں گے‘آپ کے لئے اچھے دن لائیں گے‘ آپ کے و کاس کی پرواز آکا ش کی حدوں کو چھوئے گی‘ آپ کی سیوا کے لئے ہم وچن بند ہیں ۔ ۔۔حسین لفظوں کے اسی مایاجال میں ووٹر کو مسحور کرکے اکثر نیتا لوگ اور پارٹیاں الیکشن کے دوران جاذب ِ نظر لفظوں کا سورگ سجاتے ہیں ‘ پھر اس سورگ کو بازار ِ سیاست میں اپنے سیاسی سودا سلف بیچ کھا نے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
کشمیر ہو یا کوئی دوسری ریاست‘ عام مشاہدہ یہی ہے کہ قومی سطح ‘ریاست گیر انتخابات ہوں یا علاقائی سطح پر خالی پڑی نشستوں کے لئےضمنی الیکشن ‘الیکشن کمیشن آف انڈیا کی طرف سےانتخابی تاریخوںکا اعلان کیا ہوتا ہے کہ قومی ریاستی یاعلاقائی سیاست کی ہانڈی میں یکسر اُبال آجاتا ہے ِ سیاسی فضا جلسے جلوسوں تقریروںزندہ بادی نعروں میںڈھل کر کافی ہنگامہ خیز ہوجاتی ہے ۔ یکایک نئے دعویداران ِ اقتدار بھی نمودار ہوتے اورپرانے پاپی بستی بستی قریہ قریہ آ نا جالگادیتے ہیں ‘ ووٹروں سے وقتی میل جول بڑھانے کے لئے نیتاؤں کی پد یاترا ‘ لب پر دل نواز مسکراہٹیں اور خندہ پیشانی سے ووٹروں سے پیش آنے کی دل فریب اداکاریاں‘ نیتاؤں کا فری درشن ‘ آنکھوں کو چکا چوندکر نے والے روڑ شو‘زدھواںدارتقریریں ‘ بھاشنوں کے ہیضے ‘ سچ اور جھوٹ کی آمیزش سے ووٹروں کے سامنے اپنی بے جا تعریفیں ‘ مخالفین کے خلاف طعن وتشنیع اور تنقیدیں ‘ مذہبی نعرے‘ آسمان سے تارے توڑ لانے کے سنہرے سپنے۔۔۔ غرض ہر طرح کے زبانی جمع خرچ اور جادوبیانیوں سے کام لینے کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ کسی طرح رائے دہندگان کے ووٹ سے اپنی کرسی کے چاروں پائے مضبوط کئےجائیں۔۔ ۔ ۔ ان سارے تکلفات میں کچھ دن مست ومگن رہ کرالیکشن کے فوراً بعد نیتا لوگ ’’تیری گلیوں میں نا رکھیں گے قدم آج کے بعد ‘‘ گنگناکر اگلےپانچ سال تک اپنی راہ لے کر گویا خواب وخیال ہوجاتے ہیں اور وہ بے فکری کے عالم میں پانچ سالہ منصوبہ بند نیند کے مزے لیتے رہتے ہیں ۔لطف کی بات یہ کہ عام ووٹر اپنے حلقے کے جس نیتا کو اپنا دُکھڑا سنانے اس کے دیدار کی حسرت لئے پانچ سال تک اس کے بنگلوں کے آگے پیچھے مٹر گشتی کر تاپھرتا ہے ‘مگر ایک بار بھی باریابی کا شرف نہیں پاتا‘ لیکن پانچ سال بعد یہی عجوبے پھر ایک بار ووٹر کے گھر کے دوار سر جھکائے ووٹ مانگنے آتےہیںتو ووٹر کے دماغ سے نیتا کی بے وفائی کی یاداشت یکسر غائب ‘ وہ پھولے نہیں سماتا۔ اس کی بُدھی سے یہ گھتی بالاتر ہوتی ہے کہ پانچ سال بعد آج ِ یکایک لیڈرجی پھر سے کیوں راستہ بھول کرغریب کی جھونپڑی میں پدھارے ۔ یہی ووٹ پرچی کا کمال ہوتا ہے کہ خاص الخاص آدمی کے دربار میں بھی الیکشن کے سبب عام آدمی کا بھاؤ پل بھر میںاتنازیادہ بڑھ جاتا ہے کہ یقین نہیں آتا۔ یہ عام آدمی کے لئےووٹ کے آئینی ادھیکار کی سنجونی بوٹی کا اثر ہی کہلائے گا کہ نیتا لوگ اپنے فلک بوس شیش محل اور کثیر منزلہ بُروج سے الیکشن ایام میں باہر آکر عام لوگوں سے رابطہ بنانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ ورنہ زیادہ تر نیتا لوگ عوام سے کٹ کر رہنے میں ہی اپنی کامیابی کا راز مانتے ہیں ۔ الیکشن کی گھنٹی بجتے ہی نیتا لوگ میٹھی نیند سے جاگ کر اچانک عام آدمی کا دُکھ درد جاننے سمجھنے کے لئے مذہبی مقامات سے لے کر غریب بستیوں اور بے رونق جھونپڑیوں تک میں باربارآمد ورفت شروع کرتے ہیں ۔ گندی نالیوں اور تنگ وتار گلیوں میں چوپایوں جیسی زندگی گزارنے والے غربا کی کٹیا سے نیتا ؤں کو اندر ہی اندر گھن تو آتی ہے مگر ووٹ کی دکشنا پانے کے لئے وہ ان’’ نیم وحشی لوگوں‘‘ کو چند لمحوں تک بر داشت کر ہی لیتے ہیں ‘ ان کے ریاکارانہ ہمدرد بن کر انہیں بہت جلدپانی ‘ بجلی‘ نالی‘ صفائی ‘ سرکاری اسکیموں کے فوائد‘ اور پانچ ستارہ ہوٹل جیسی سہولیات ان کی جھونپڑی تک پہنچانے کے جھوٹے وعدوں کی اُبکائیاں کر کے اپنے وو ٹ بنک کھاتے کی ضخامت بڑھاتے ہیں ۔ شاید نیتاؤں کا ایک بار اپنے محلات سے باہر آکران عفونت زدہ علاقوں میں قدم رنجہ ہونا ہی جمہوریت کا وہ چمتکار ہے جو عام آدمی کو احسا س دلاتا ہے کہ آئین ِ ہند کے خالق ڈاکٹر بھیم راؤ امبید کر نے ہر غریب بھارتی ناگرک کو ووٹ کا جمہوری ہتھیار ہاتھ میں تھما کر بہت سارے حقوق کی ضمانت دی ہوئی ہے ۔ غریب ووٹر بھی یہ محسوس کئےبنا نہیں رہتا کہ آئین نے اسے کسی مصروف شاہراہ کے زیبرا کراسنگ پر کھڑا پریشان حال راہ گیر بناکر نہیں چھوڑ اہے بلکہ اُس کے ہاتھ میں ووٹ کی معجزہ نما شکتی دے کر جمہوریت کی بھاشا میں اُسے سڑک پار کر نے کا راستہ دیا ہے ۔ بایں ہمہ حقیقت حال یہ ہے کہ تمام غریب ووٹر گرانڈیل سرمایہ داروں اور کارپوریٹ ورلڈ کے مقابلے میں عملاً پریم چند کے افسانے ’’ سواسیر گیہوں‘‘ کے شنکر جیسے مظلوم مرکزی کردار ہوتے ہیں۔ انہی کرداروں کے دفاع میں آئین ِ ہند استحصالوں‘ محرومیوںاور دُکھوں سے بچانے کے لئے ووٹ کا حق یہ کہتے ہوئے انہیں دیتا ہے :’’ صدیوں تلک ا میروں رئیسوںاپنوں اور غیروںکے ہاتھ یکساں ٹھوکریں کھانے والو! آج سے تم ہی اصلی کنگ میکر ہو بشرطیکہ تم اپنے ووٹ کی قدروقیمت جان کر اورپہچان کر اس کے عاقلانہ استعمال پر قادر ثات ہوتے ہو ‘‘۔ بہر حال جمہوریت کے توسط سے الیکشن کے دوران ایک کنگال ووٹر بھی تنا بڑا دھنوان بنتا ہے کہ بڑے بڑے سیاسی جگادری اس کے سامنے کشکولِ طلب پھیلاکر اس سے بنا کسی لاج شرم کےووٹ کی بھیک مانگتے ہیں ۔
ا س عجیب تماشے سے غریب ووٹر کچھ دیر کے لئے خود کواَن داتا‘ قسمت کا دھنی‘ دیالو اور سخی سمجھنے لگتا ہے۔ حالانکہ قبل ازیں یہی غریب ووٹر سال ہا سال مسائل و مصائب کے بوجھ تلے دب کر جی رہا ہو تا ہے ‘کوئی ا س کا پُر سان حال نہیں ہوتا‘ کوئی ِاس کی مدد کے لئے سامنے نہیں آتا ‘ کیوں کہ عوامی مسائل کو حل کرنے والا انتظامی سسٹم اور تمام سیاست کاراپنا اور اپنوںکابھلا کرنے میں چوبیسوں گھنٹے سرتاپا اتنے مشغول نظر
آ تے ہیں کہ درد سے کراہتے ہوئے غریب ووٹر کی طرف بھولے سے بھی ان کی نظر نہیں جاتی مگر جونہی انتخابی گہماگہمی شروع ہو جاتی ہے توپورا سسٹم اور اس کے انتظامی کل پرزے اسی ووٹر پر ہمدردیوں کی پھول پتیاں نچھاور کر نے فوج درفوج چلے آتے ہیں ‘گویا اس غریب کو سرخاب کے پر لگے ہوں۔ ہر پارٹی ہر اُمیدوار اس کے آگےپیچھے پھیرے لگاکر اسے نت نئے وعدوں کی قیاسی جنت کی سیر کراتے ہیں ۔ بچارا غریب ووٹر کچھ دیر اپنے مسائل ِ حیات کو بستۂ فراموش میں ڈال کر اپنے من پسنداُمیدوار کے حق میں بڑےچاؤ سے ووٹ ڈال دیتا ہے ۔ الیکشن کا غبارہ نتائج نکلنے کے بعد نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے تو
اِ دھر اُمیدوار جیت کر ایوان ِ ِاقتدار کا لاڈلا بن جاتاہے ‘ اُدھرپر کٹا غریب ووٹر پھر سے یکہ و تنہا رہ جاتا ہے ‘ اس کا ہمہ وقت ساتھ اس کے مسائل ِ زندگی دیتے ہیں‘اس کی محرومیاں اس کے ساتھ سائے کی طرح لگی رہتی ہیں ‘ برسوں مسائل کے حل کے واسطے اپنے من پسند اُمیدوار کی شکل دیکھنےکی حسرتیں اس کو مایوسی کے دلدل میں دھنسادیتی ہیں اوربہت جلد وہ محسوس کرتاہے کہ نیتا کے بھاشن فریب اورالیکشنی مینی فیسٹو چھلاوا‘ خدمات کی یقین دہانیاں محض وعدہ ٔ فردا کا گورکھ دھندا تھا۔ اس بات کی حقیقت جان کر اس کا سارا نشہ اُتر جاتا ہے۔ جموں کشمیر میں آج تک الیکشنوںکا مطلب سیاسی پارٹیوں اور نامی گرامی اُمیدواروں کی طرف سے ووٹروں کا یہی وشواس گھات اور جذباتی استحصال ہوتا چلاآیا ہے ۔ لیکن اب جہلم اور توی سے بہت سارا پانی بہہ چکاہے ،آج کا ووٹر سیاسی بالیدگی اور سماجی شعور کا وافرسرمایہ رکھتا ہے ، اس لئے اب کی بار مجوزہ اسمبلی انتخابات میںاُمیدوار کی صلاحیت‘ ایمانداری ‘ خلوص ‘ کمٹمنٹ ‘ جگر سوزی اور خدمت خلق اللہ کے جذبے کی جانچ پرکھ کا کڑ اامتحان ہوگا اور جیت صرف دردِ دل رکھنے والےعوام کے حقیقی بہی خواہوں کی ہوگی۔
