از ۔ محمد انیس
گذشتہ سال 7 /اکتوبر کو اخوانی فکر کی تنظیم حماس نے اسرائیل پر اچانک میزائلوں سے حملے کئے۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل کے تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ حماس نے اس کے ڈھائی سو شہریوں کو یرغمال بھی بنالیا تھا۔ مسلم دنیا میں جہاں اس حملے کی بہت زیادہ پزیرائی ہوئی تھی ، وہیں مغرب نے اس کی پرزور مذمت کی ۔ اس کے بعد اسرائیل نے بدلے کی کارروائی شروع کی اور پچھلے نو مہینوں میں غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کردیا ۔ غزہ کی پوری آبادی بےگھر ہوچکی ہے اور اب تک اس کے 32 ہزار سے زیادہ افراد شہید ہوچکے ہیں ۔ یہانتک کہ 31 جولائی کو اس نے حماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ کو بھی تہران کے ہائی سیکوریٹی زون میں قتل کردیا ۔ اسی طرح اس نے حماس کے تاسیسی لیڈر شیخ احمد یاسین کو بھی قتل کیا تھا اور ان کے جانشین عبدالعزیز رنتیسی کو بھی ۔
قضیہ فلسطین 1948 سے وجود میں ہے اور اس کی سنگینی بڑھتی ہی جارہی ہے ۔ اس مسئلہ کے حل کیلئے کئی بار ثالثی کوششیں ہوئیں، مگر کوئی حل نہیں نکلا۔ بین الااقوامی سطح پر آج بھی اس مسئلہ پر “دو ریاستی حل ” موجود ہے مگر وہ اسرائیل اور فلسطین کے سخت گیر عناصر کو پسند نہیں ۔ یہاں ہم اسی دو ریاستی حل کی تائید میں اپنا مؤقف پیش کریں گے ۔
و اقعہ یہ ہے کہ ایک طرف اسراٹیل کے انتہا پسند عناصر صیہونی پالیسی کےتحت greater Israel کا خواب دیکھتے ہیں اور فلسطینوں کے حقوق کو تسلیم نہیں کرتے ۔ دوسری طرف مسلمانوں کے انتہا پسند عناصر اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی بات کرتے ہیں ۔ دونوں فریق جذباتی اور خیالی مقصد کو لےکر چلتے ہیں جبکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی ایک فریق دوسرے فریق کو کلی طور پر محروم کردے ۔ اگر اس طرح کا یکطرفہ حل ممکن ہوتا تو پچھلے 75 سالوں سے یہ معاملہ اٹکا ہوا نہ رہتا۔ بات دراصل یہ ہے کہ یکطرفہ سوچ سے دوطرفہ مسائل حل نہیں ہوسکتے ۔ زور زبردستی یا ظلم ڈھاکر کسی کو عارضی طور پر تو بےگھر کیا جاسکتا ہے ، مگر وہ مسئلہ کا حل نہیں۔
دونوں طرف کے سخت گیر عناصر کو چھوڑ کر دنیا کے تمام امن پسند لوگ اس تجویز کی تائید کرتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کو بقائے باہم کی بنیاد پر حل کیا جانا چاہئے، اس لئے کہ تمام لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ۔ اس اصول کی بنیاد پر اس خطہ میں دو آزاد مملکت وجود میں آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ ایک اسرائیلی مملکت اور دوسری فلسطینی مملکت ۔۔۔۔۔ بقائے باہم کے اصول کے تحت اسرائیل بھی آزاد مملکت کے طور پر وجود میں رہے اور فلسطین بھی آزاد مملکت کے طور پر وجود میں رہے ۔ کوئی کسی سے تعرض نہ کرے ، کوئی کسی کو مٹانے کا عزم نہ رکھے ۔ یہ تقسیم بقائے باہم (جیو اور جینے دو) کے اصول پر عمل میں آئےگی جوکہ ایک فطری اصول ہے۔ یہی مسئلہ کا قابل عمل اور پائیدار حل ہے۔ اس کو چھوڑکر جو دوسرا اوپشن ہے وہ جنگ کا اوپشن ہے۔ جنگ کا اوپشن پچھلے 75 سال سے اختیار کیا گیا ہے ۔ لیکن اتنی طویل مدت تک اس اوپشن کے ذریعہ مسئلہ کا حل نہ نکل سکا ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اوپشن پوری طرح سے مغالطہ آمیز اور تباہ کن ہے ۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ اب اس اوپشن کو پوری طرح ترک کردیا جائے ، اور دو ریاستی حل ( two- state solution ) کو اختیار کیا جائے ۔ اس کیلئے سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ فلسطین اور اسرائیل پہلے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں ۔ یہ زمینی حقیقت سے منہ موڑنے جیسا ہے کہ دونوں طرف کے سخت گیر عناصر ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کی وجہ سے انہیں صرف جنگ کا اوپش نظر آتا ہے ۔
اس سلسلے میں دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کا حل عدل کی شرط پر نہیں بلکہ feasibility کی بنیاد پر نکلے گا ۔ اس لئے کہ ایک فریق کی نظر میں جو عدل ہے ، دوسرے فریق کی نظر میں وہ ظلم قرار پاتا ہے ۔ اور اس کیلئے دونوں فریق کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں ۔ ویسے بھی bilateral issues میں مزاکرات کی بنیاد عدل نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا چیز قابلِ عمل ہے اور کیا چیز ناقابلِ عمل ۔ ہوسکتا ھے ایک چیز عین عدل ہو مگر موجودہ صورت حال میں وہ قابلِ حصول نہ ہو ۔ ایسے میں عدل کے پہلو پر اصرار نہیں کیا جائے گا ۔ اس لئے کہ صرف عدل کے شق کی وجہ سے امن کے پروسیس کو روکا نہیں جا سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ امن چاہنے والوں کو اکثر اوقات فریق ثانی کی شرطوں کو مان لینا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر امن قائم ہی نہ ہوگا اور جنگی حالت بدستور برقرار رہیگی۔
خیال رہے یہاں فلسطین کے پیچیدہ مسئلہ پر بحث مقصود نہیں ہے، اور نہ اس خطہ کی تاریخ پر کلام مقصود ہے، بلکہ اس سنگین مسئلہ کے ممکنہ حل پر محض ایک رائے کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ صیہونیت کے موجودہ تشدد اور مظالم کا راست جواب تو یہ ہے کہ بنو قریظہ کی طرح پورے اسرائیل کا محاصرہ کرلیا جائے اور انہیں وہی سزا دی جائے جو قریظہ کو دی گئی تھی ۔ مگر لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا ۔ کیا موجودہ حالات کے تحت یہ ممکن ہے کہ قریظہ کو دہرا دیا جائے ؟ اگر ممکن ہے تو پھر ایسا کرنے سے کون روک رہا ہے ؟ جو لوگ اسے ممکن سمجھتے ہیں’ انہیں فاتحانہ اقدام کرنے سے کس نے روکا ہے ؟ بڑا سوال یہ ہے کہ آپ قریظہ کو بھی نہیں دہراتے اور حدیبیہ سے بھی بدکتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں کیا صرف دشمن کو کوسنے سے فلسطینوں کی ہلاکتیں رک جائیں گی ؟
گذشتہ دنوں ہندوستان کے ایک مقتدر عالم کا انٹرویو دیکھا ۔ موصوف فرمارہے تھے کہ وہ مرجانا پسند کریں گے مگر دو ریاستی حل کی حمایت نہیں کریں گے ۔ میرا احساس ہے کہ ہمارے زیادہ تر اکابرین کا موقف تقریباً اس طرح سے غیرحقیقت پسندانہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے سالہا سال سے ملی مسائل حل نہیں ہوتے، جبکہ فلسطین کے عام لوگ یہ چاہتے ہیں کہ جنگ بندی ہو ، صلح ہو اور امن میسر آئے ۔ بڑے سے بڑا تنازعہ مذاکرات سے حل ہوسکتا ہے بشرطیکہ کسی شرط پر ضد نہ کی جائے ۔ ادھر اسرائیل کی سخت گیر حکومت بھی کچھ اسی طرح کا مؤقف رکھتی ہے کہ فلسطینیوں کیلئے کوئی گنجائش نہ رکھی جائے، درآنحالیکہ اسرائیل کے تمام مغربی حلیف دو ریاستی حل کے حق میں ہیں ۔ اس طرح کے بےلچک موقف سے تو مسائل حل نہیں ہوسکتے ۔ پھر تو اس کا فیصلہ جنگ ہی کرےگی۔ اور جنگ کی صورت میں جس کے پاس زیادہ قوت ہوگی، وہی اس خطہ پر قابض رہےگا ۔ آج اسرائیل کے پاس طاقت ہے ، بعید نہیں کہ کل فلسطین کے پاس طاقت آجائے ۔ آج ایک طرف 1600 ہلاکتیں ہیں اور دوسری طرف 32000۔ مگر کل معاملہ الٹا بھی ہوسکتا ہے.