تحریر:مشتاق احمد ملک
جموں و کشمیر کا پونچھ خطہ قدرتی حسن وجمال سے مالا مال ہے لیکن اس خوبصورت خطہ میں پانی کا بحران اب ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ آبی بحران کی بنیادی وجوہات میں موسمیاتی تبدیلی، پانی کے ذرائع کا خشک ہونا اور پانی کا غیر منظم انتظام شامل ہیں۔ جغرافیائی محل وقوع اور بدلتے موسم کے باعث علاقے کے مکینوں کو پینے کے صاف پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جبکہ پانی کی وجہ سے ہماری زندگیوں کی تمام تر خوبصورتیاں قائم ہیں۔ ہماری صحت کو برقرار رکھنے میں صاف پانی کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ لیکن ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے بلاک لورن ی پنچایت لوہل بیلہ کے گاؤں بیلہ سیٹھی کے وارڈ نمبر 6 کے ساتھ اس کی پوری پنچایت لوہل بیلہ کی عوام اس عظیم نعمت سے محروم ہے۔اس سلسلے میں یہاں کے مقامی سماجی کارکن سرفراز احمد ملک جن کی عمر 25 سال ہے،بتایا کہ اس پنچایت کے ہر وارڈ کے اندر پینے کے پانی کی بہت قلت ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو بارش اوربرف باری کے دوران گھر سے باہر جا کر پانی لانے میں بہت بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حالانکہ اس گاؤں کے اندرپائپ لائن بچھی ہوئی ہے لیکن وہ بہت پرانی ہو نے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کر خستہ حال ہوگئی ہے۔ان ٹوٹی ہوئی پائپوں سے مختلف جگہوں سے پانی بہہ رہا ہے جس کی وجہ سے گاؤں کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔محکمہ پی ایچ ای کی جانب سے اب تک اسے دوبارہ ٹھیک کرنے کی کوئی پہل نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی ان ٹوٹی ہوئی پائپوں کی طرف کسی بھی قسم کی توجہ دی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے گاؤں کے اندر لائن مین بھی نہیں ہے جو بر وقت انہیں مرمت کرے اور وقت کے ساتھ پانی کی بحالی کویقینی بنائے۔یہاں کے لوگوں کو خود ندی، نالوں اور جھرنوں سے پائپوں کو منسلک کر نا پڑتاہے۔ایک طرف سرکار جل جیون میشن کی اسکیم چلا رہی ہے اس کے تحت ہر گھر پانی پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر اس کا فائدہ فی الحال اس دور دراز اور پسماندہ علاقے میں پہنچ نہیں پا رہا ہے۔ سرفراز احمد ملک نے مزید کہاکہ میری ڈپٹی کمشنر پونچھ،ضلع انتظامیہ اور ایل جی انتظامیہ سے گزارش ہے کہ اس سکیم کے تحت جو پائپیں ہماری پنچایت کو دی گئی ہیں ان کو ہماری پنچایت کے تمام وارڈوں کے اندر لگوایا جائے اور اس پر جلد کام شروع کروایا جائے تا کہ یہاں کے باشندگان کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس سلسلے میں مقامی سماجی کارکن رخسانہ کوثر کہتی ہیں کہ ”دراصل گذشتہ کچھ دہائیوں میں پونچھ میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گری ہے۔ زیر زمین پانی کے بے تحاشہ استعمال اور بارشوں کی کمی کی وجہ سے پانی کے ذرائع خشک ہو رہے ہیں۔زراعت اور گھریلو استعمال کے لیے پانی کے بے تحاشہ اخراج نے اس مسئلے کو مزید بڑھا دیا ہے۔پونچھ علاقے کے بہت سے دریا اور چشمے، جو کبھی پانی کے بڑے ذرائع ہوا کرتے تھے، اب سوکھ چکے ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ جہاں موسمیاتی تبدیلی اوربے قاعدہ بارشیں ایک بڑی وجہ ہیں تو وہیں دوسری جانب ہم انسانوں کی غلطیاں بھی اس وجہ کی اہم ذمہ دارہے۔اس علاقے میں پانی کی ذخیرہ اندوزی کے مناسب نظام کا فقدان ہے۔ مون سون کے دوران دستیاب پانی کو محفوظ کرنے کے لیے مناسب ٹیکنالوجی اورانفراسٹرکچر کا فقدان بھی شامل ہے۔
ان کے مطابق پونچھ خطہ کے لوگوں کو پانی کے بحران کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ پینے کے پانی کی کمی نے صحت کے مسائل کو جنم دیا ہے۔ لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جس سے پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اس کے علاوہ کاشتکاری اور مویشی پالنا بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے جس کی وجہ سے علاقے کی معاشی حالت کمزور ہو رہی ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ پینے کے صاف پانی کے لئے خواتین چشموں اور دیگر ذرائع کی کھوج میں میلوں پیدل چلتی ہیں۔جس سے ایک جانب جہاں ان کی صحت پر منفی اثر پڑ رہا ہے وہیں دوسری جانب جنگلی جانوروں کے حملہ کا خوف بھی رہتا ہے۔گذشتہ بدھ کی شام گاؤں کے قریب ہی مقامی لوگوں نے ایک ریچھ کو گھومتے دیکھا ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ خوف کے سائے میں ہیں۔ ایسی صورتحال میں خواتین پینے کے پانی کا انتظام کیسے کریں؟یہ ایک بہت بڑا سوال بن گیا ہے۔
ایک مقامی خاتون منیرا بیگم جن کی عمر 35 سال ہے، ان کا کہنا ہے کہ میں اس گاؤں میں 35 سالوں سے رہ رہی ہوں، گاؤں کی لڑکیوں کو میلوں دور سے پانی لانا پڑتا ہے، جس کی شکار میں بھی ہوں۔ ہمارے گاؤں میں ابھی تک جل جیون میشن کی اسکیم کے تحت نہ کسی گھر میں نل لگاہے اور نہ تو یہاں کوئی پائپ لائن بچھائی گئی ہے۔اس سلسلے میں مقامی نمبردار ذاکر حسین مسائل کا حل بتاتے ہوئے ذکر کرتے ہیں کہ پانی کے بحران کے حل کے لیے مختلف اقدامات کیے جا نے کی ضرورت ہے۔جس میں بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی اور زمینی پانی کو ری چارج کرنے کے لیے تالاب، آبی ذخائر اور چیک ڈیم جیسے ڈھانچے بنائے جائیں۔ اس سے آبی وسائل کا صحیح استعمال ممکن ہو سکے گا۔وہیں پانی کے ذرائع کا پائیدار اور اجتماعی انتظام ضروری ہے۔ مقامی آبادیوں کو آبی وسائل کے تحفظ اور صحیح استعمال کے بارے میں آگاہ کیا جانا چاہیے۔ساتھ ہی شمسی توانائی کا استعمال کرتے ہوئے پانی کی فراہمی کے لیے پمپ اور دیگر آلات نصب کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے بجلی کی کھپت کم ہوگی اور پانی کی فراہمی میں بہتری آئے گی۔اس کے علاوہ درخت لگانے اور جنگلات کے تحفظ سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔جنگلات کے رقبے میں اضافہ، بارش کی مقدار اورگرمی کی شدت کومتوازن رکھنے میں اپنا بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں۔
درحقیقت، پونچھ خطے میں پانی کا بحران ایک پیچیدہ مسئلہ بنتا جا رہاہے، جس کے حل کے لیے ہم صرف حکومت اور مقامی انتظامہ پر ذمہ داری ڈال کر نہیں رہ سکتے ہیں بلکہ اس کیلئے مناسب اقدامات کرنے کے لئے سماج کو آگے بڑھ کر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لئے کمیونٹی کی شرکت، مناسب منصوبہ بندی اورٹیکنالوجی کے مناسب استعمال کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت جہاں جل جیون مشن کے تحت دیہی علاقوں کے ہر گھر تک پینے کے صاف پانی کی دستیابی کی مسلسل کوشش کر رہی ہے وہیں اگرسماجی طور پر ہم بھی کوشش کریں اور وسائل کا صحیح استعمال کریں تو اس مسئلے کا حل ممکن ہے۔ صرف پانی کا تحفظ ہی پونچھ کے مستقبل کو محفوظ بنا سکتا ہے۔