تحریر:جہاں زیب بٹ
کل ترال کے بجونی سٹیڈیم سے مقامی بس سٹینڈ تک ایک میگا ترنگا ریلی نکالی گئی جس میں پولیس اور سول انتظامیہ کے علاوہ ہزاروں سرکاری ملازمین اور اسکولی طلبا نے شمولیت کی ۔ترنگا بردار شرکاءپانچ چھ کلومیٹر پیدل چلے جس دوران اردگرد کا علاقہ قومی ترانے اور حب الوطنی کے نغموں سے گونج اٹھا ۔اس سے صرف ایک دن پہلے پلوامہ میں اسی طرح کی ایک بہت بڑی ترنگا ریلی نکالی گئی جس میں سرکاری ملازمین اور تاجر وغیرہ شامل تھے ۔یوم آزادی کی مناسبت سے ایسی شاندار ترنگا ریلیوں سےمحبوبہ مفتی اور دیگر سیاسی حلقوں کے اس خیال کی نفی ہو گیی کہ کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم ہونے کی دیر ہے تو پھر کشمیر میں ترنگا اٹھا نے کے لئے کوءی ہاتھ دستیاب نہیں ہو گا ۔
گزشتہ دو تین برسوں سے یو م آزادی کی آمد کے ساتھ ہی مسلسل میگا ترنگا ریلیوں کا رواج پروان چڑھ رہا ہے ۔ اس سے حالات میں نمایاں تبدیلی کا عندیہ ملتا ہے ۔پلوامہ اورترال بلکہ پورا جنوبی کشمیر تیس سال تک تشدد کا گہوارہ رہا ہے ۔یہاں خون خرابہ بھی بہت ہوا اور طویل اور بے معنی ہڑتالوں میں اس کا کویی ثانی نہ تھا ۔15 اگست آتا تو لوگ ذہنی دباؤ میں رہتے ۔یہ دن خیر وخوبی کے ساتھ نکلنے کی دعائیں منہ سے نکلتیں ۔پریشانی کا عجب ماحول برپا ہوجاتا ۔تشویش لاحق ہوتی کہ کہیں اس دن کویی آفت منہ نہ دکھایے ۔لیکن آج اس طرح کے اندیشہ ہاءے بسیار جنم نہیں لیتے ہیں اور اب کویی بے مقصد ہڑتال ہوتی ہے اور نہ سرکار کے بغیر کسی اور کا حکم چلتا ہے۔تیس سالہ انارکی اور افراتفری کے بعد سرکا ر نے اپنی حاکمیت کو بلا شرکت غیرے نا فذ کردیا ہے۔اب کویی اعلانیہ طور کہنے کی جرت نہیں کر تا کہ اسے ترنگا اٹھا نا نہیں ہے ۔اب ہر کس و ناکس کو محسوس ہو تا ہے کہ حکومتی لگا م واقعی موجود ہے اور اس کو توڑا نہیں جا سکتا۔ایک زمانہ تھا جب جنوبی کشمیر میں افراتفری اور ہلڑ بازی کا خوفناک کلچر پا یا جاتا تھا۔ ایک یا دوسرا بہانہ ڈھو نڈ ڈھونڈ کر لو گو ں کو گھروں سے زبردستی نکالا جاتا یا کسی افسوسناک واقعہ سے جذبات بھڑک اٹھتے تو گاؤں گاؤں اور قصبہ قصبہ ریلیاں امڈ آتیں اور اس دوران کویی اور دل فگار واقعہ رونما ہوتا تو ہڑتال , احتجاج اور سنگ بازی کی لہر چلتی اور یوں تباہی اور پریشانی کا سلسلہ جاری رہتا ۔موجودہ سر کار نے قانون کے نفاز کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان میں کچھ ایک پربلا شبہ انگشت نمائی کی جا سکتی ہے لیکن سرکار نے اپنی حاکمیت بحال کرنے کا جو عظیم معرکہ سر کیا وہ قابل تعریف ہے کہ اس نے عام لوگوں کے کندھوں پر سے بہت سا بوجھ اتار دیا ۔ہماری ایک نسل شورش پسند انہ ریلیوں کی نذر ہو گیی۔نوجوان احتجاج پسند بن گیے تھے۔کاروبا ر اور تعلیم بری طرح ہڑتالی کلچر میں پھنس گیے تھے۔اس سے چھٹکارا مل گیا ۔ اب سرکار میگا ترنگا ریلیوں کا تجربہ کر رہی ہے کہ اس نسخے کو احتجاج کی اس عادت کا بر محل تدارک سمجھا جا رہا ہے جس نے کشمیر میں قانون شکنی کا مزاج اور ماحول پیدا کیا۔