سیدہ طیبہ کاظمی
انٹرنیٹ آج کے دور میں تعلیم کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ آن لائن کلاسز ہوں، ای کتابیں ہوں یا تحقیقی کام، انٹرنیٹ کو تعلیم کے ہر پہلو میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن ہندوستان جیسے ملک میں جہاں انٹرنیٹ تک رسائی ابھی تک محدود ہے، تعلیم پر اس کا وسیع منفی اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ملک کے دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی رسائی بہت کم ہے۔ یہاں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اب بھی انٹرنیٹ خدمات سے محروم ہے۔ جس کی وجہ سے بچوں کو اعلیٰ معیار کی تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ آن لائن کلاسز یا ڈیجیٹل مواد تک رسائی سے قاصر، یہ بچے اپنے شہری ساتھیوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ہم جس جدید اور ترقی یافتہ زمانہ میں رہتے ہیں اس میں ہر چیز کسی نہ کسی طریقے سے انٹرنیٹ پر منحصر ہے۔ ایسی صورتحال میں سست انٹرنیٹ سب کے لیے پریشانی کا سبب بن جاتا ہے۔ سرحدی ضلع پونچھ کا بلاک بانڈی چیچیاں ایک ایسی جگہ ہے جہاں کے کچھ گاؤں اب بھی سست انٹرنیٹ اور اس کی وجہ سے ہونے والی پریشانیوں کا شکار ہیں۔ اس مسئلے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے وہ طلباء ہیں جو یہاں رہتے ہیں اور زیادہ تر تعلیمی وسائل کے لیے انٹرنیٹ پر انحصار کرتے ہیں۔
رخسار کاظمی ایک طالب علم جو اندرا گاندھی نیشنل اپن یونیورسٹی(اگنو)سے ماسٹر کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں وہ اپنی پڑھائی کے لیے زیادہ تر انٹرنیٹ پر انحصار کرتی ہیں۔انہوں نے اپنی پریشانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ہمیشہ یہی سوچا تھا کہ انٹرنیٹ اور ویب سائٹ پر دستیاب وسائل سے مدد لوں گی اور سلف سٹڈی سے خود کو قابل بناوں گی،میں اپنی پڑھائی میں مصروف ہوں لیکن انٹرنیٹ سست ہونے کی وجہ سے کئی بار مجھے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شام کے وقت انٹرنیٹ بعض اوقات مکمل طور پر گر جاتا ہے جس کی وجہ سے رات کے اوقات کو مطالعہ کے مقاصد کے لیے استعمال کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے وقت بھی ضائع ہو تا ہے۔انہوں نے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب دنیا میں کویڈ19 کی وبا کے دوران تعلیمی ادارے بند تھے، آن لائن تعلیم نے طلباء کی تعلیم کو جاری رکھا۔ لیکن جن بچوں کے پاس انٹرنیٹ نہیں تھا وہ تعلیم سے مکمل طور پر منقطع ہو گئے۔ اس نے ڈیجیٹل تقسیم کو مزید گہرا کیا۔لیکن اب تو ایسا بھی نہیں ہے پھر ہمارے علاقے میں ایسا کیوں ہے؟
ایک اور طالبہ سیدہ عافیہ نے بتایا کہ میں مقابلے کے امتحان کی تیاری کر رہی ہوں اور آن لائن کوچنگ لے رہی ہوں۔ لیکن کمزور انٹرنیٹ کی وجہ سے ان کے لیے لائیو کلاسز لینا بہت مشکل ہو تا ہے۔ اس سے ان کی پڑھائی پر اثر پڑتا ہے۔ سست انٹرنیٹ طلباء کی تعلیمی کارکردگی پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ یہ آن لائن وسائل تک رسائی حاصل کرنے اور اسائنمنٹس کو بروقت مکمل کرنے کی ان کی صلاحیت میں رکاوٹ بن رہا ہے، جس سے تعلیمی کام متاثر ہوتا ہے۔انٹرنیٹ کی کمی کے باعث بچے نئے اور جدید تعلیمی آلات سے محروم ہیں۔ اس سے ان کی تعلیم کا معیار بھی متاثر ہوتا ہے۔ وہ نئی معلومات، تحقیق اور وسائل سے محروم ہیں، جو ان کی مجموعی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔سماجی و معاشی معاملات اور پیشہ ورانہ زندگی انٹرنیٹ پر تیزی سے انحصار کر رہی ہیں۔ سست انٹرنیٹ نہ صرف کاروباری مقاصد کے لیے ورچوئل میٹنگ کو متاثر کرتا ہے بلکہ فیملی اجتماعات یا دوستانہ رشتہ کو بھی متاثر کرتا ہے۔ سوشل میڈیا، رابطہ کا ایک بڑا پلیٹ فارم ہے یہ اس علاقے میں مایوس کن حد تک سست ہے۔ سست انٹرنیٹ کا معاش پر اثر بھی قابل ذکر ہے۔ چھوٹے کاروباری، جو اکثر محدود وسائل کے ساتھ کام کرتے ہیں، اگر انٹرنیٹ کی سست رفتار کی وجہ سے ان کی آن لائن موجودگی میں رکاوٹ ہو تو مؤثر طریقے سے زمانے کا مقابلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ای کامرس پلیٹ فارم پر صارفین سست لوڈنگ ویب سائٹس کو ترک کر دیتے ہیں تو فروخت میں کمی کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔
حکومت کو اس مسئلے کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ حالانکہ 02 اگست 2024 کو پبلک سروس براڈکاسٹنگ ڈی ڈی نیوز کی ویب سائٹ پر اس سلسلے میں شائع خبر کے مطابق ڈیجیٹل انڈیا کی وجہ سے ملک کے شہر سے گاؤں تک رابطے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا پہل کے تحت، حکومت نے نہ صرف میٹرو بلکہ ٹائر-2 اور ٹائر-3 شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی اور دور دراز علاقوں کو بھی جوڑنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ اس پبلک سروس براڈکاسٹنگ کی ویب سائٹ کے مطابق اپریل 2024 تک ملک کے 95.15 فیصد دیہاتوں میں 3G/4G موبائل کنیکٹیویٹی کے ساتھ انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہو گئی ہے۔ مارچ 2014 میں کل انٹرنیٹ صارفین 251.59 ملین تھے جو مارچ 2024 میں بڑھ کر 954.40 ملین ہو گئے ہیں۔ ان میں سے 398.35 ملین دیہی انٹرنیٹ صارفین ہیں۔مزید برآں، اپریل 2024 تک، ملک کے 6,44,131 گاؤں میں سے 6,12,952 گاؤں میں 3G/4G موبائل کنیکٹیویٹی پہنچ چکی ہے۔ اس طرح، 95.15% دیہات میں انٹرنیٹ تک رسائی ہے۔ ملک میں کل انٹرنیٹ سبسکرائبرز مارچ 2014 میں 251.59 ملین سے بڑھ کر مارچ 2024 میں 954.40 ملین تک 14.26 فیصد کی کمپاؤنڈ سالانہ گروتھ ریٹ (CAGR) پر متوقع ہے۔
ویب سائٹ کے مطابق ملک کے تمام گرام پنچایتوں کو آپٹیکل فائبر کیبل کنیکٹیویٹی سے جوڑنا ہے، پچھلے 10 سالوں میں ٹیلی کام نیٹ ورک کی وسیع پیمانے پر توسیع ہوئی ہے جس میں ٹائر-2/3 قصبوں اور گاؤں شامل ہیں۔ بھارت نیٹ پروجیکٹ کے تحت، ملک کی تمام گرام پنچایتوں (GP) کو آپٹیکل فائبر کیبل (OFC) کنیکٹیویٹی سے جوڑنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، تاکہ دیہی خاندانوں کو براڈ بینڈ خدمات فراہم کی جاسکیں۔ بھارت نیٹ کے دو مرحلوں کے تحت کل 2.22 لاکھ گرام پنچایتوں میں سے 2.13 لاکھ گرام پنچایتوں کو خدمت کے لیے تیار کر دیا گیا ہے۔ مزید برآں، نظرثانی شدہ بھارت نیٹ پروگرام کا مقصد 42,000 اچھوتے جی پی اور بقیہ 3.84 لاکھ گاؤں کو ڈیمانڈ کی بنیاد پر آپٹیکل فائبر کنیکٹیویٹی فراہم کرنا اور 1.5 کروڑ دیہی گھروں کو فائبر کنکشن فراہم کرنا ہے۔اس ویب سائٹ کے مطابق ملک میں کل 35,680 ایسے گاؤں یا بستیاں بھی ہیں، جو ابھی تک 4G کنیکٹیویٹی سے محروم ہیں۔ یہ تمام گاؤں / بستیاں دیہی، دور دراز، ناقابل رسائی علاقوں اور ناقابل رسائی علاقوں جیسے پہاڑی علاقے، گھنے جنگلات وغیرہ میں واقع ہیں۔ یو ایس او ایف کی مالی امداد سے چلنے والی مختلف اسکیموں کے تحت، تقریباً 11,000 کروڑ روپے کی لاگت سے تقریباً 9,000 ایسے دیہاتوں کو 4G کنیکٹیویٹی کا احاطہ کیا گیا ہے۔
یہ اعداد شمار بتاتے ہیں کہ ملک کے دیہی علاقوں میں بھی تیزی سے نیٹ ورک کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ ایسے میں یہ امید کی جانی چاہئے کہ ملک کا یہ سرحدی علاقہ بھی جلد اس رابطے سے منسلک ہو جائے گا جس کا سب سے زیادہ فائدہ طلبا کو ہوگا۔ یہ ضروری ہے کہ نہ صرف دیہی علاقوں تک انٹرنیٹ خدمات کو وسعت دی جائے بلکہ اسکولوں میں بھی ڈیجیٹل آلات کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے، اور طلباء کے لیے سستی انٹرنیٹ خدمات کا بندوبست کیا جائے۔ اس کے ساتھ اساتذہ کو بھی ڈیجیٹل تعلیم کے لیے تربیت دی جائے۔انٹرنیٹ تک رسائی کو بہتر بنا کر ہی ہم تمام بچوں کو تعلیم کے مساوی حقوق فراہم کر سکتے ہیں۔ جب تک ملک کے دور دراز علاقوں کے بچوں تک انٹرنیٹ رسائی حاصل نہیں ہوگی، تعلیم کے میدان میں عدم مساوات برقرار رہے گی۔ اس لیے حکومت، معاشرے اور نجی شعبوں کو مل کر اس سمت میں کام کرنا ہو گا، تاکہ انٹرنٹ کی مدد سے ملک کا ہر بچہ معیاری تعلیم حاصل کر سکے۔(چرخہ فیچرس)