از:جہاں زیب بٹ
خبر آیی ہے کہ این سی کے نایب صدر عمر عبداللہ گاند ر بل حلقہ انتخاب سے الیکشن لڑنے جارہے ہیں جس پر مقامی این سی حلقوں میں بوال پیدا ہو گیا ہے ۔شیخ غیاث الدین کے حمایتیوں نے پارٹی فیصلے پر برہمی کا اظہار کرتے ہویے الزام لگایا ہے کہ این سی میں خاندانی سکہ چل رہا ہے اور زمینی سطح پر عرق ریز ی کرنے والے کارکنوں کو اہمیت دی جارہی ہے اور نہ ان کی خواہشات کے مطابق پارٹی ٹکٹ تقسیم کیے جا رہے ہیں ۔گویا گاند ر بل میں2002 کی سی صورتحال پیدا ہو رہی ہے جب عمر عبداللہ یہاں قسمت آزما یی کرنے آیے تو متوقع امیدوار اشفاق جبار نے بغاوت بلند کی اور انجام کار کے طور پر پی ڈی پی کے قاضی افضل کے مقا بلے میں عمر عبداللہ نے پہلی ہی انتخابی اننگ میں مات پایی اور نفسیاتی دھچکا کھا یا۔مایوس ہو کر عمر عبداللہ شیخ فیملی کے روایتی حلقے سے بھاگ گیے ۔مگر آج بیرو ہ سے لو ٹ کر وہ
گاند ر بل میں دوبارہ مقامی بغاوت کے درمیان قسمت آزما یی کررہے ہیں۔
اندرونی بغاوت سے زیادہ اہم نکتہ عمر عبداللہ کا یو ٹرن ہے جو انھوں نے الیکشن میں شمولیت کے حوالے سے لیا ہے ۔صرف کچھ دن پہلے ہی عمر عبداللہ نے اعادہ کیا تھا کہ وہ یو ٹی میں الیکشن نہیں لڑ ینگے۔خود فاروق عبداللہ نے اس کا دفاع کرتے ہویے کہا تھا کہ عمر عبداللہ تب الیکشن لڑیں گے جب کشمیر کا ریاستی درجہ بحال ہو گا۔لیکن جیسا کہ اسی کالم میں ہم نے اس کو پر فریب دعوی گردانا تھا اور اب اس کا ثبوت مل گیا ۔انداذہ کیجیے کہ سرکردہ لیڈر کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ ہے کھلے عام جھوٹ بولتا ہے ،لو گوں کو احمق
بنا تاہے ۔لیکن جب یہی لیڈر مینی فیسٹو کی بارہ
گار نٹیو ں کا ڈھنڈورا پیٹتا ہےتو ہر ذی انسان کو ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی ۔ہنسی اس لیے کہ این سی لیڈر کو شرم نہیں آتی کہ اس نے عوام کو کتنا بڑا جھوٹ بولا ۔رونا اس لیے کہ اہلیان کشمیر کو بے وقوف بنایا جارہاہے اور سادہ لوگ بآسانی بے وقوف بن کر اپنی عاقبت خراب کررہے ہیں ۔
جو تاریخی حقایق سے واقف ہیں وہ عمر عبداللّٰہ کے
یو ٹرن سے حیران نہیں ہیں ۔یہ جماعت کبھی اصولی مؤقف پر قایم رہی اور نہ وہ لوگوں سے سچے وعدے کر پایی ۔چھیانوے میں فاروق عبداللہ نے الیکشن میں شمولیت کے لیے اٹا نو می کی شرط رکھی لیکن جب دلی نے سرد مہری دکھایی اور فاروق کو انگو ٹھا
دکھا یا تو وہ پرانی تنخو اہ پر ہی کام کرنے کی درخواستیں دینے لگے ۔پھر اس کو اٹانومی یاد رہی بھی تو ایک کا غذی قرار داد کی حد تک۔ الیکشن دس سال تک التوا میں رہا تو این سی تڑپتی رہی کہ کب الیکشن کا بگل بجے۔یاد کیجیے کشمیر کی خصوصی پوزیشن ہٹا یی گیی تو گپکار الاءنس اور اونچے خوابوں کا نشہ تھا۔ لہذا این سی نے پنچایت الیکشن کا بایکاٹ کیا۔ لیکن آگے چل کر فاروق عبداللہ نے اس فیصلے کو غلط کہا اور اس پر پچھتاوے کا اظہار کیا۔سیاسی لیڈروں کا روزگار ,دبدبہ،سلام وکلام بلکہ بقا الیکشن پر منحصر ہے۔حکومت اور الیکشن سے باہر وہ ماہی بےآب ہیں۔لہذا عمر عبداللہ کیسے الیکشن سے دور رہنے کے متحمل ہو تے۔ پارٹی پہلی جیسی مقبو لیت کی حامل نہیں ۔اسے بیساکھیوں کی ضرورت ہے وہ اکیلے حکومت بنانے کی حمایت حاصل کر نے سے قاصر ہے۔تبھی اس نے اب کی بار کانگریس سے قبل از الیکشن الاءنس بنایا۔عمر عبدااللہ الیکشن سے باہر رہتے توکل کو اتحادی حکومت کی قیادت کہاں اور کس کے پاس چلی جاتی ؟ فاروق ایک آپشن ہے لیکن وہ پیرانہ سالی میں ہیں اور خود کو جوان کہہ تو سکتے ہیں لیکن جوان بن تو نہیں سکتے کل کو اتحاد کی قیادت کے لیے پارٹی سے باہر یا اندر کویی دعویدار پیدا ہو تا تو شیخ فیملی کا کیا بنتا ؟ اس پر کیا گزرتی ۔وہ کس قطار و شمار میں رہتی ۔عمر عبداللہ نے بھانپ لیا کہ الیکشن سے باہر رہنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ این سی کے اندر نیے سیاسی وارث ابھریں گے اور شیخ فیملی کے لیے سنگین مسلہ پیدا ہو گا۔