تحریر:جہاں زیب بٹ
عمر عبداللہ نے دو نشستوں سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ عمر عبداللہ نے پہلے گاندربل اور اب بیروہ سے الیکشن لڑنے کے لئے نامزدگی کے کاغذات داخل کئے ہیں ۔ انہوں نے پہلے بذعم خود یہ اعلان کیا تھا کہ وہ نام نہاد اسمبلی میں داخل ہونے کے لئے الیکشن نہیں لڑیں گے ۔ بعد میں اس فیصلے سے یوٹرن لے کر گاندربل سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ۔ پھر اچانک یہ خبر سامنے آئی کہ بیروہ سے بھی فارم داخل کرکے قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا گیاہے ۔ اس طرح سے اب دو نشستوں سے الیکشن لڑنے کے لئے میدان میں اترے ہیں ۔ کجا کہ الیکشن لڑنے سے انکار اور اب دو نشستوں سے اکٹھے قسمت آزمائی کا فیصلہ ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے اندر ابھی تک سیاسی پختگی نہیں پائی جاتی اور طفلانہ حرکتوں سے باز نہیں آئے ہیں ۔ سب سے حیران کن حرکت انہوں نے گاندربل میں اپنے نامزدگی کا فارم داخل کرتے وقت کی ۔ جہاں انہوں نے پہلے ووٹروں کے سامنے ہاتھ جوڑے پھر سر سے ٹوپی اتارکر اپنے حق میں ووٹ ڈالنے کی اپیل کی ۔ کشمیر کی انتخابی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے کہ کسی امید وار نے ووٹ حاصل کرنے کے لئے اس طرح سر سے اپنی ٹوپی اتارکر لوگوں سے ووٹ ڈالنے کی منت سماجت کی ہو ۔خاص طور سے این سی کی سو سالہ تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا گیا کہ اس کے کسی ادنیٰ کارکن کو ووٹ حاصل کرنے کے لئے ووٹروں کے پائوں پکڑنے کی ضرورت پڑی ہو ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ پارٹی کے نائب صدر بلکہ وزارت اعلیٰ کے ممکنہ امیدوار کو الیکشن میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے اپنی ٹوپی اتارنا پڑ رہی ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پارٹی عوامی سطح پر اپنی ساکھ کھوچکی ہے اور ایک ایک ووٹ کی طلبگار ہے ۔ اس سے پہلے پارلیمانی انتخابات کے دوران پارٹی کو گاندربل اور بیروہ سے ووٹوں کی اکثریت حاصل ہوئی ۔ تاہم اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس جیت میں پارٹی کا نہ ہی پارٹی قیادت کا کوئی ہاتھ رہا ہے ۔ بلکہ پارٹی امیدواروں کے ذاتی رسوخ کی بنیاد پر یہاں ووٹروں نے ان کے حق میں ووٹ ڈالے ۔ گاندبل شیخ خاندان کے لئے وراثتی نشست رہی ہے ۔ شیخ عبداللہ کے ضمنی انتخاب سے لے کر آخری انتخاب تک اس نشست پر شیخ خاندان کا غلبہ رہا ہے ۔ تاہم کئی موقعوں پر یہاں سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس شکست کا عمر عبداللہ کے ذہن پر آج بھی غلبہ ہے ۔ اسی خوف کا نتیجہ ہے کہ عمر عبداللہ ووٹروں کے پائوں پڑنے پر مجبور ہوگئے ۔ ٹوپی اتار کر ووٹ مانگنے کی اس حرکت سے مان لیا جاتا ہے کہ انہوں نے الیکشن سے پہلے ہی گاندربل میں شکست تسلیم کی اور بیروہ کی طرف رخ کیا ۔ حالانکہ گاندبل میں ان کا پلڑہ اب بھی بھاری بتایا جاتا ہے ۔
عمر عبداللہ کو صرف اس بات کا خوف نہیں کہ الیکشن ہارنے کی صورت میں ان کی پارٹی کو ایک یا دو نشستیں کم پڑجائیں گی ۔ بلکہ ایسا ہوا تو وہ وزارت اعلیٰ کی کرسی سے محروم ہوجائیں گے ۔ اس طرح سے شیخ خاندان کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی اور اقتدار ہمیشہ کے لئے ان سے چھن جائے گا ۔ اس وجہ سے رواں انتخابات شیخ خاندان کے لئے موت و حیات کا مسئلہ قرار دئے جاتے ہیں ۔ کچھ عرصے سے این سی لیڈر سمجھ رہے تھے کہ ان کی سب سے بڑی حریف جماعت پی ڈی پی ہے ۔ ان کی کوشش تھی کہ پی ڈی پی کو منظر نامہ سے ہٹایا جائے ۔ پی ڈی پی کیڈر کے بکھر جانے اور لیڈروں کے دوسری پارٹیوں میں جانے سے ان کا اندازہ تھا کہ سیاسی منظر نامے پر ان کی گرفت حاصل ہوئی ہے ۔ لیکن غبارے سے اس وقت ہوا نکل گئی جب شمالی کشمیر سے کراری شکست مل گئی ۔ یہاں نہ صرف شکست سے دوچار ہونا پڑا بلکہ معلوم ہوا کہ نئے حریف بھی سامنے آئے ہیں ۔ عمر عبداللہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کل کے چھوکرے ان کی چولیں ہلادیں گے اور انہیں بڑی آسانی سے دیوار سے لگادیں گے ۔ ذاتی طور عمر عبداللہ کوئی مضبوط سیاست دان نہیں بلکہ انتہائی بزدل لیڈر ہے ۔ ان کی زبان اکثر لڑکھڑا جاتی ہے اور بگڑے بیانات ان کے منہ سے نکل جاتے ہیں ۔ انہیں اپنے حریفوں پر وار کرنا بھی نہیں آتا ہے ۔ پہلے انجینئر رشید کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور لوگوں کو انہیں ووٹ دینے سے روکنے کی کوشش کی ۔ اس میں پوری طرح سے ناکام رہے ۔ بلکہ ان کے اشتعال انگیز بیانوں نے لوگوں کو این سی سے متنفر کیا ۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور ایسا بیان دیا جس کی سبھی حلقوں نے مزمت کی ۔ تازہ بیان شیخ اشفاق جبار کے خلاف دیا جس کی سرے سے کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ اب پہلے مرحلے کے انتخاب میں مشکل سے دو ہفتے رہ گئے ہیں ۔ این سی حلقوں میں اب تک تذبذب کا عالم طاری ہے ۔ ان کی انتخابی مہہم کے جو اطوار سامنے آئے ہیں ان سے امید کے بجائے مایوسی پھیلتی جارہی ہے ۔ جنوبی کشمیر میں پہلے ہی عوامی سطح پر این سی مشکلات کی شکار ہے ۔ مطلب یہ نہیں کہ پارٹی الیکشن ہار جائے گی ۔ لیکن آسانی سے ایک نشست جیتنا بھی ممکن نہیں ۔ این سی کارکنوں کو سخت محنت کرنا پڑرہی ہے ۔ این سی قیادت امید اور خوف کی حالت سے دوچار ہے ۔ خاص طور سے عمر عبداللہ بیم و رجا کی کیفیت سے گزرتے نظر آتے ہیں ۔ ان کے اعصاب پر یہ خوف سوار ہے کہ الیکشن ہارجائیں تو ان کی سخت رسوائی ہوگی ۔ یہ الیکشن کمیشن کی منت ہے کہ صاف و شفاف اور دھاندلیوں سے پاک انتخابات کرانے کی یقین دہانی کی گئی ہے ۔ ورنہ عمر عبداللہ کا پتہ کاٹنا مشکل نہ تھا ۔
