مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے جمعہ کو جموں پہنچ کر بی جے پی کا مینی فیسٹو جاری کیا ۔ انتخابات میں حصہ لینے والی بیشتر جماعتوں نے پہلے ہی اپنے انتخابی منشور جاری کئے ہیں ۔ ان میں سے اکثر جماعتوں نے بی جے پی کی کشمیر پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ این سی نے اپنے پارٹی منشور میں جو اہم مدعے اٹھائے ہیں ان میں سب سے اہم ایشو دفعہ 370 اور 35A کی بحالی ہے ۔ اسی طرح پی ڈی پی نے بھی کشمیر کی اندرونی خود مختاری کو ختم کرنے پر بی جے پی کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے ۔ یہاں تک کہ کانگریس نے کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھاتے ہوئے بی جے پی پر الزام لگایا کہ کشمیریوں کے پاس جو کچھ تھا وہ پچھلے پانچ سالوں کے دوران ان سے چھین لیا گیا ۔ راہول گاندھی نے کشمیر آکر پہلے این سی کے ساتھ سیٹ شیئرنگ کا معاملہ طے کیا ۔ بعد میں انتخابات کے حوالے سے یقین دلایا کہ جموں کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کیا جائے گا ۔ اس دوران بی جے پی کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ وزیرداخلہ جمعہ کو جموں میں پارٹی منشور کو منظر عام پر لائیں گے ۔ وزیرداخلہ نے جموں روانہ ہونے سے پہلے اپنے ٹویٹر بیان میں کہا کہ جموں کشمیر نے مودی کی سرپرستی میں چلنے والی حکومت کے دور میں دہشت گردی سے نجات حاصل کی ۔ اس کے علاوہ بقول شاہ یہاں صنعتی ترقی کو فروغ ملا ۔ اس سے یہی اندازہ لگایا گیا کہ پارٹی کا الیکشن مینی فیسٹو حکومت کی طرف سے جموں کشمیر میں اٹھائے گئے اقدامات پر مشتمل ہوگا ۔ مینی فیسٹو جاری کرنے کے دوران وزیرداخلہ کے ہمراہ جموں پارلیمانی حلقے کے ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر جتندر سنگھ کے علاوہ بی جے پی جموں کشمیر کے انچارج رام مادھو بھی موجود تھے ۔بعد میں پارٹی مینی فیسٹو جاری کیا گیا ۔ مینی فیسٹو میں مودی سرکار کے دور میں ہوئی تعمیر و ترقی کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ تعلیمی سیکٹر کے علاوہ بجلی کی پیداوار میں اضافے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ سیاحتی سیکٹر کو فروغ دینے کے حوالے سے کئی اقدامات اٹھانے کا وعدہ کیا گیا ہے ۔دفعہ 370 کے ہٹائے جانے کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس وجہ سے کمزور طبقوں کو سہارا مل گیا ہے ۔ اسی طرح گجر بکروال کو دی گئی ریزرویشن کی بات کہی گئی ہے ۔ مینی فیسٹیو میں لوکل باڈیز کے لئے ہوئے انتخابات کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اسی طرح مختلف موقعوں پر ہوئے انتخابات میں لوگوں کی شرکت کو مودی سرکار کی کامیابی قرار دیا گیا ہے ۔ اس طرح سے پارٹی نے دفعہ 370 کو ہٹانے سے لوگوں کو ملے فائدوں کی بات کی گئی ہے ۔اسی طرح ہڑتالوں اور پتھر بازی پر قابو پانے کو بی جے پی کی کامیابی قرار دیا گیا ہے ۔ مجموعی طور انتخابی منشور میں ان اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے کہ بی جے پی نے عوام کے لئے بڑے بڑے کام کئے ہیں ۔ اس موقعہ پر وزیرداخلہ نے این سی کانگریس اتحاد کی خوب خبرلی اور ان کے اتحاد کو علاحدگی پسندوں کا اتحاد قرار دیا ۔
جموں کشمیر میں ہورہے انتخابات تمام پارٹیوں کے لئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔بی جے پی کو کشمیر انتخابات کے پہلے ہی مرحلے پر اس وقت ہزیمت اٹھانا پڑی جب اس نے اپنے امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کی ۔ لیکن ایک گھنٹے کے اندر یہ فہرست کالعدم قرار دی گئی اور بعد میں الگ الگ لسٹ جاری کی گئی ۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ پارٹی کے اندر منڈیٹ کو لے کر سخت افراتفری پائی گئی ۔ یہ پہلا موقعہ ہے جب بی جے پی کے اندر اس طرح کی ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملی ۔ بی جے پی کے کئی مقامی رہنمائوں کو ان کارکنوں سے سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جو الیکشن میں حصہ لینے کے لئے منڈیٹ کا انتظار کررہے تھے ۔ ان کارکنوں نے الزام لگایا کہ پارٹی کے لئے کی گئی محنت کو نظر انداز کرکے ان لوگوں کو منڈیٹ دیا گیا جنہوں نے عوامی سطح پر کبھی کوئی کام نہیں کیا ہے ۔ یہاں تک کہ کئی ایسے کارکنوں نے پارٹی چھوڑ کر دوسرے انداز میں الیکشن میدان میں آنے کا اعلان کیا ۔ اسے پہلے کبھی بھی بی جے پی کارکنوں کو اس طرح سے پارٹی اور اپنے لیڈروں کے خلاف بغاوت کرتے نہیں دیکھا گیا ۔ الیکشن شروع ہونے کے دن سے این سی ، کانگریس اور پی ڈی پی میں دل بدلی کا سخت رجحان دیکھا گیا ۔ ان پارٹیوں کے کئی کارکنوں اور لیڈروں نے استعفیٰ دے کر دوسری تنظیموں میں جاکر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ۔ بلکہ کئی ایک نے آزاد حیثیت سے میدان میں اترنے کا اعلان کیا ۔ بی جے پی میں اس طرح کی کھلبلی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ۔ ادھر اطلاع ہے کہ بی جے پی کی طرف سے وزیراعظم کے علاوہ تین درجن سے زیادہ مرکزی لیڈر جموں کشمیر میں الیکشن مہم میں حصہ لینے کے لئے آرہے ہیں ۔ ایسے رہنمائوں میں امیت شاہ اور سمرتی ایرانی کے علاوہ کئی دوسرے مرکزی وزیروں کا نام پایا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کسی کی کوشش ہے کہ انتخابات جیت کر ملک میں اپنی جیت کا ڈھنڈورہ پیٹے ۔
