از:ایم شفیع میر
جموں و کشمیر کا سیاسی ماحول مختلف خانوں میں بٹا ہوا ہے،این سی، پی ڈی پی ،کانگریس اور بھاجپا کے بخار میں مبتلا رائے دہندگان کا ایک بڑا طبقہ کوئی فیصلہ لینے سے قاصر ہے کہ کس کے حق میں اپنا ووٹ دیاجائے۔جہاں ایک طرف سے رائے دہندگان کا بڑا طبقہ خاموش ہوکر لمحہ بہ لمحہ بدل رہی سیاسی صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے وہیں سیاسی جماعتوں سے منسلک کچھ کم ذہن اور اخلاقی طور یتیم افراد سیاسی نشے میں مبتلا سوشل میڈیا پر طرح طرح کی بدتمیزیاں کرنے سے باز نہیں آرہے ہیں ۔اِن کی زبان قابو میں نہیں، اپنے حریف کے لئے کچھ بھی کہہ دیتے ہیں اور اِس بداخلاقی پر انہیں اِن کا سیاسی آقا روکتا نہیں ہے بلکہ پیٹھ تھپتھپاتاـ ہے، شاباشی دیتا ہے، ناز اٹھاتا ہے،مبارکباد پیش کرتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ایک طرف سے تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران رائے دہندگان کے عزت واکرام اور وقار کا ڈنڈورہ پیٹ پیٹ کر اپنا منہ پکا گئے ہیں لیکن وہیں اپنی جماعتوں میں کچھ ایسے بداخلاق اور افراد کو پارٹی رکھ کر سچے اور پکے سپاہی کا سرٹیفکیٹ دے دیا ہے جو ووٹران کی عزت و وقار کی دھجیاں اُڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔ـ
قابل ذکر ہےکہ سیاسی لیڈروں کے یہ بدتمیز،بداخلاق اور بدتہذیب چیلے اور ورکر آجکل ڈھول نگاڑوں پر ناچ ناچ کر خاک اُڑا رہے ہیں، انہیں کیا فکر کہ الیکشن کے بعد آنے والا وقت اِس علاقے اور اس عوام کیلئے کتنا دشوار گزار ہوگا؟
تعلیم نظام قبرستان جائےیا شمشان ، طبی نظام جائے باڑ میں ،بجلی پانی اور سڑکیں جیسے اہم عوامی مسائل انتخاب کے شور و غوغہ میں کہیں گم ہو گئے ہیں، چرند ،پرند، جانور حیران ہیں کہ انسان کہاں گئے ہیں ،شیربیچارے کنفیوز ہوئے ہیں کہ آخر ہمارا اِس دُنیا میں کیا کام ہے؟شیربے یارو مددگار ہیں کوئی اُن کی لقب لوٹ گیا ہے، کیونکہ ہر لیڈر شیر بنے پھر رہے ، شیر بھی ایسے بنے ہیں کہ دَر دَر بھٹک کر طاقت کی بھیک مانگ رہے ہیں، طاقت سے خالی اِن شیروں کے چیلوں نے ریاست بھر میں ’’شیر آیا شیر آیا ‘‘ نعروں کے وِرد کا کہرام مچا رکھا ہے، شیر دیکھو ووٹوں کے بھکاری بن کر قریہ قریہ گھوم رہے ہیں اور شیر کے چیلے ہیں کہ دھاڑ رہے ہیں، بیچارے شیر تو دھاڑنا بھول گئے ہیں، بھولتے کیوں نہیں ،کیونکہ دھاڑنا ایسے شیروں کی فطرت کا حصہ ہی نہیں ہے یہ سب تو شیر کا لقب چور کر کھال دار شیر بنے بیٹھے ہیں لیکن یاد رکھئے الیکشن کے بعد یہ کھال اتر جائے گی منصوعی کھال میں ملبوس اِن شیروں کا اصلی چہرہ سامنے آئے گا ۔ـ
عوام کا کیا ہے الیکشن سے پہلے اِنہیں ڈھول کی تھاپ پر نچایا جاتا ہے اور الیکشن کے بعد ’’بسنتی ‘‘کی طرح ناچنا اِن کا مقدر بن جائے گا، آج کےشیر جب کل کے’’ گبر‘‘ثابت ہونگے تو عوام کا ’’بسنتی ‘‘ہونا طے ہو جائیگا ۔ـ
یاد رہے ’’گبر ‘‘جب پرتعش انداز میں کالیا سے پوچھے گا کہ کتنے آدمی تھے تو عوام بسنتی کی طرح گبھرا کر سہم جائے گی، رہی بات ’’ویروؤں ‘‘کی ،وہ تو ’بسنتی‘ کو بچانے کی گوہار پہلے سی لگا رہے تھے اور آج بھی لگا رہے ہیں، وہ ’’بسنتی ‘‘سے کہہ رہے تھے کہ اِن کمینوں کے سامنے مت ناچنا اور آج بھی ’’بسنتی ‘‘سے یہی کہہ رہے ہیں اِن کمینوں کے سامنے مت ناچو۔
لیکن ’’بسنتی ‘‘ہے کہ ناچے جارہی ہے ،پریشانی کی بات یہ ہے کہ یہ جو’’ بسنتی ‘‘ہے یہ آجکل ’’ویرو ‘‘اور ’’جئے ‘‘کی خاطر نہیں ناچ رہی ہے بلکہ یہ ’’ـگبر،کالیا اور سانبہ ‘‘جیسے کمینوں کو خوش کرنے کیلئے ناچ رہی ہے۔ اپنی کم عقلی کی وجہ سے ڈر کے مارے ’’گبر ‘‘جیسے کمینے لوگوں کے سامنے بانگڑا ڈال رہی ہے ۔
وقت آئے گا’’جئےاور ویرو ‘‘بسنتی کو اِن کمینوں سے آزاد کرکے ہی دم لیں گے ،ایک دن آئے گا جب جئے اور ویروکمینے ’’گبر ‘‘کو ’’ٹھاکور ‘‘کے قدموں میں لاکر کھڑا کر دیں گےاور اِس طرح سے ’’گبر ‘‘اپنے ساتھیوں ’’کالیااور سانبہ ‘‘سمیت اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا۔
