جموں کشمیر میں ہورہے انتخابات کا پہلا مرحلہ اختتام کو پہنچا ۔ اس مرحلے کے لئے ووٹ ڈالنے کے عمل پر تمام لوگوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں ۔ انتخابی مہم پر امن رہی ۔ تاہم انتخابات میں حصہ لینے والے حلقوں نے انتخابی مہم کو صحیح طریقے سے آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں دکھائی ۔ کئی جگہ انتخابی ریلیوں کے دوران ایک دوسرے پر فقرے کسے گئے بلکہ دھکم پیل کے اکا دکا واقعات بھی پیش آئے ۔ سیکورٹی حلقوں نے غیر معمولی انتظامات کرکے انتخابی مہم کے دوران کوئی بڑا حادثہ نہیں ہونے دیا ۔ تاہم یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ الیکشن میں کھڑا امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم کو پروقار طریقے سے آگے نہیں بڑھا یا ۔ بلکہ وہی روایتی طریقے اپنائے گئے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بھر پور کوشش کی گئی ۔ خوش قسمتی سے انڈیا بلاک نے متحد ہوکر انتخابی مہم چلائی ۔ اس وجہ سے کانگریس اور این سی کے درمیان لفاظی جنگ دیکھنے کو نہیں ملی ۔ ماضی میں ایسے موقعوں پردونوں جماعتوں کے لیڈر ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کرتے اور گالی گلوچ پر اتر آتے ۔ اکٹھے الیکشن لڑنے کے باوجود کچھ جگہوں پر دونوں طرف سے ایک دوسرے کو ننگا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ادھر انجینئر رشید کی رہائی اور فی الفور الیکشن مہم میں جٹ جانے سے ایک نیا ماحول پیدا ہوا ۔ انجینئر کے ورکروں میں سخت جوش و جذبہ پیدا ہوا اور نئے انداز کی دنگل شروع ہوگئی ۔ انجینئر کی انتخابی ریلیوں میں بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوئے ۔ بلکہ ان کی ریلیوں میں نوجوانوں کا غلبہ دیکھنے کو ملا ۔ نوجوان جذباتی ہوتے ہیں ۔ الیکشن کے دوران نوجوانوں میں خاص طور سے ہیجانی صورتحال نظر آئی ۔ پھر جب انجینئر نے اپنے حریفوں کو آڑے ہاتھوں لیا تو نوجوانوں میں نئی حرارت پیدا ہوئی ۔ اس کے باوجود اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انجینئر اور اس کے مخالفین نے جب ایک دوسرے کو ایجنسیوں کا ایجنٹ قرار دینا شروع کیا تو سنجیدہ حلقوں میں بڑی مایوسی پھیل گئی ۔ انجینئر کی رہائی سے پہلے اس طرح کے الزمات جماعت اسلامی پر لگائے گئے ۔ لیکن جماعت کی طرف سے صبر و تحمل سے کام لیا گیا ۔ یا ان کے پاس الزامات کو مسترد کرنے کے لئے باوزن الفاظ موجود نہیں تھے ۔ اس کے بجائے انجینئر نے کوشش کی کہ اپنے مخالفین کے لئے کہیں بھی آرام کی گنجائش نہ چھوڑی جائے ۔ بی جے پی کے لیڈروں کا موضوع خاندانی راج اور اس کی تار پود بکھیرنے تک محدود رہی ۔ اس کے لیڈروں کی تقریروں پر منفی اثرات چھائے ہوئے محسوس کئے گئے ۔ این سی کی انتخابی مہم کے روح رواں عمر عبداللہ بھی پارٹی منشور لوگوں تک پہنچانے کے بجائے پورا عرصہ الزام تراشیوں میں لگے رہے ۔ پی سی والوں نے رہی سہی کسر پوری کی ۔ آزاد امیدواروں کے طور الیکشن لڑنے والے بھی پیچھے نہیں رہے ۔اس طرح سے پہلے مرحلے کی انتخابی مہم انتہائی غیر سنجیدہ انداز میں اختتام کو پہنچی ۔
جمہوری عمل میں خاص کر الیکشن مہم کے دوران جوش و جذبات سے کام لینا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ وضع کرنے کے باوجود امیدوار لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ۔ جموں کشمیر کے عوام الیکشن میں حصہ لینے اور ووٹ دینے کے دوران پارٹی منشور کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتے ۔ کس پارٹی نے بہتر سہولیات فراہم کرنا کا وعدہ کیا ہے اس پر جانے کے بجائے نعروں اور جھوٹے وعدوں کو لے کر ووٹ دئے جاتے ہیں ۔ کئی لوگ مذہبی کارڈ کھیل کر ووٹ بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگرچہ الیکشن کے دوران مذہب کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں تاہم عملی میدان میں اس کارڈ کا خوب استعمال کیا جاتا ہے ۔ کئی امیدوار سرخ لکیر پار کرکے ہر صورت ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگرچہ رواں الیکشن میں ووٹروں کی بڑی تعداد پڑھے لکھے نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ ایسے نوجوان جمہوری اقدار سے پوری طرح سے باخبر ہیں ۔ اس کے باوجود سیاسی حلقے جمہوری لائنوں پر چلنے کو تیار نہیں ہیں ۔ ان کے یہاں ایسے اقدار کا کوئی پاس و لحاظ نہیں پایا جاتا ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ الیکشن مہم سنجیدگی سے نہیں چلائی جاتی ہے ۔ ہر جلسہ اور ہرریلے میں نعرہ بازی کی مشق کی جاتی ہے ۔ لوگوں کے پاس کوئی ایسا پیغام نہیں پہنچایا جاتا جس کی بنیاد پر لوگ ووٹ دینے کا فیصلہ کرنے کے اہل ہوتے ۔ اس کے بجائے ان کے جذبات ابھار کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ بات بڑے افسوس کی ہے کہ اپنی بات کرنے کے بجائے زیادہ تر دوسروں کی برائیاں بیان کرنے پر وقت صرف کیا جاتا ہے ۔ اپنا کوئی روڈ میپ دینے کے بجائے دوسروں کی کمزوریاں سامنے لانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس طرح کی منفی سیاست زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوگی ۔ اس نوعیت کے کئی حلقوں کے غبارے سے ہوا پہلے ہی نکل گئی ہے ۔ وہ وقت دور نہیں جب دوسرے حلقے عوامی حمایت سے محروم ہوجائیں گی ۔ ایسی صورتحال پیش آنے سے پہلے ہی سنجیدہ روش اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔
