از:ڈاکٹر جی ایم بٹ
کشمیر کے معروف آئی اے ایس آفیسر محمد شفیع پنڈت پچھلے دنوں اس دنیا سے چل بسے ۔ اللہ مغفرت کرے ۔ آپ جموں کشمیر کے پہلے مسلمان تھے جنہوں نے 1969 میں آئی اے ایس کا امتحان پاس کرکے کشمیر کے ذہین طبقے کو اس طرف راغب کیا ۔ یہ اعزاز حاصل کرنے کے بعد جب آپ دہلی سے کشمیر واپس آئے تو اس وقت کے وزیراعظم صادق صاحب انہیں ہوائی اڈے پر استقبال کرنے کے لئے خود موجود تھے ۔ عجیب اتفاق ہے کہ جب ان کی موت واقع ہوئی تو ملک کے وزیراعظم نریندر مودی ایک انتخابی ریلے سے خطاب کرنے کی غرض سے سرینگر آئے تھے ۔ مودی نے پنڈت کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ۔ اس سے پہلے کئی سیاسی لیڈروں ، عوامی حلقوں ، حکومتی عہدیداروں ، خیراتی اداروں اور دوسرے بہت سے لوگوں نے ان کے حق میں کلمات خیر ادا کئے ۔ لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے پنڈت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ان کے کام کی وجہ سے طویل عرصے تک یاد رکھا جائے گا ۔ مرحوم کے دوست اور ان کے ساتھ کام کرنے والے کئی آفیسروں نے انہیں ایک بہترین دوست ، بہترین منتظم اور بہترین عوامی خدمت گزار قرار دیا ۔ مرحوم کے حوالے سے یہ بات بڑی اہم ہے کہ انہوں نے پہلی بار کشمیری وازوان پر ہونے والے بے جا اخراجات اور غریبوں پر پڑنے والے اس کے مضر اثرات کو محسوس کرتے ہوئے اس کے خلاف قانون وضع کیا ۔ گیسٹ کنٹرول کے نام سے چلائے گئے اس مشن کو اپنے وقت میں بہت ہی عوام دوست اقدام سمجھا جاتا تھا ۔ بعد میں اس اقدام کو نظر انداز نہ کیا جاتا تو غریبوں کے لئے کمر توڑ اخراجات سے نجات دلانا مشکل نہ ہوتا ۔ اسی طرح کئی انتظامی اصلاحات کی وجہ سے بھی مرحوم پنڈت کی صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جاتا ہے ۔ انہیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ پسماندہ طبقوں کے لئے مرکزی سرکار کی طرف سے دی گئی ریزرویشن کے اقدام منڈل کمیشن کے اطلاق کا آغاز انہیں کے ہاتھوں ہوا ۔ آپ اس وقت مرکز میں سوشل ویلفیئر محکمے میں کام کررہے تھے ۔ اسی طرح انہوں نے اپنی ملازمت کے زمانے میں انتظامی صورتحال بہتر بنانے کے لئے ایسے مشورے دئے جو آگے جاکر عوام کے لئے بڑی سہولیت کا باعث بنے ۔ بطور صوبائی کمشنر انہوں نے مارکیٹ کنٹرول کی سخت کوشش کی ۔ خاص طور سے گوشت کی قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کے لئے کوٹھداروں اور قصائیوں کو راہ راست پر لانے کے لئے ان کے خلاف سخت قسم کا کریک ڈاون کیا ۔ اس وقت کوٹھداروں کو ایک سیاسی شخصیت کی ڈھال میسر نہ آتی تو اس حوالے سے گاہکوں کا اب تک کیا جانے والا استحصال ہر گز جاری نہ رہتا ۔ اس معاملے میں غیر ضروری مداخلت کی وجہ سے مرحوم پنڈت سخت مایوس ہوئے ۔ بعد میں انہوں نے اس طرح کے معاملات سے دوری اختیار کرنا شروع کی ۔ یہاں تک کہ انہیں خود مختار سرکاری ادارے پبلک سروس کمیشن کا سربراہ بنایا گیا ۔ اس حیثیت سے بھی انہیں کئی طرح کی تقرریوں کے معاملے میں سیاست دانوں کا دبائو برداشت کرنا پڑا ۔ تاہم اس ادارے کی سربراہی کے دوران بھی انہوں نے نام کمایا ۔ یہاں تک کہ آپ سرکاری نوکری سے سبکدوش ہوگئے ۔ ریٹائر منٹ کے بعد آپ خاموش نہیں بیٹھے بلکہ کشمیر ی تہذیب و تمدن اور یہاں کے کلچر کو محفوظ بنانے کی کوششیں جاری رکھیں ۔ سیول سوسائٹی کا سہارا لے کر عوامی فلاح و بہبود کے لئے بڑے پیمانے پر کام کیا ۔ ابھی کشمیر کے عوام کو ان کی سخت ضرورت تھی کہ آپ موت کی آغوش میں چلے گئے ۔ 77 سال کی عمر آپ جیسے ہشاش بشاش چہرہ رکھنے والے کے لئے موت کی صحیح عمر نہیں ۔ لیکن انہیں کینسر کے موذی مرض نے آلیا اور مختصر علالت کے بعد اس دنیا سے چل بسے ۔ اللہ انہیں نیک کاموں کا بہترین صلہ اور گناہوں سے بخشش فرمائے ۔ آمین
